رمضان المبارک قرآن کریم کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا اور اسی مہینے میں دنیا بھر میں قرآن کریم کی سب سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے۔ اتفاق سے کرسمس ڈے بھی اس سال رمضان المبارک میں آیا ہے اور آئندہ مزید دو سال تک اسی ماہ مبارک میں کرسمس ڈے آئے گا۔ یہ کرسمس ڈے مسیحی برادری کی سالانہ عید ہے جو مسیحی روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم ولادت کے عنوان سے منائی جاتی ہے اور دنیا بھر میں اس موقع پر رنگارنگ تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔
انبیاء سابقینؑ کے حوالہ سے ہماری دینی روایت یہ ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں آباد یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشور یعنی دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ اس روز بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی اور فرعون اپنے لشکر سمیت بحیرۂ قلزم میں غرق ہوگیا تھا، اس کی خوشی میں ہم یہ روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’نحن احق بموسیٰ منکم‘‘ کہ حضرت موسیٰؑ پر ہمارا حق تم سے زیادہ ہے اس لیے ہم بھی اس دن روزہ رکھیں گے۔
چنانچہ آخر عمر تک جناب نبی اکرمؐ کا معمول رہا کہ آپؐ دس محرم کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ البتہ آخری سال یہ فرمایا کہ ہمارے روزے اور یہود کے روزے میں کچھ فرق ہونا چاہیے، اس لیے آئندہ سال اگر موقع ملا تو ہم دس محرم کے ساتھ ایک اور دن کا روزہ بھی ملائیں گے۔ مگر اگلے سال کے محرم سے قبل جناب نبی اکرمؐ کا وصال ہوگیا، اس بنا پر فقہاء کرام مسئلہ یہ بیان کرتے ہیں کہ دس محرم کو نفلی روزہ رکھنا سنت نبویؐ ہے لیکن تنہا اس دن کا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ بہتر ہے کہ اس کے ساتھ نو محرم یا گیارہ محرم کا روزہ بھی ملا لیا جائے تاکہ اس حوالہ سے جناب نبی اکرمؐ کی آخری خواہش کی تعمیل بھی ہو جائے۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امم سابقہ کے مذہبی تہواروں میں ان کے ساتھ کسی درجہ کی ہم آہنگی کا اظہار کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ بشرطیکہ اس سے اسلام کی کوئی روایت متاثر نہ ہوتی ہو اور ملت اسلامیہ کا امتیاز قائم رہے۔
قرآن کریم انبیاء سابقین علیہم السلام کی تعلیمات کی تصدیق کرتا ہے اور تورات، زبور اور انجیل سمیت سب سابقہ آسمانی کتابوں اور صحیفوں کو وحی الٰہی تسلیم کرتا ہے۔ قرآن کریم خود کو ان تمام کتابوں اور صحیفوں کی مشترک تعلیمات کا محافظ اور تصدیق کنندہ قرار دیتا ہے اور ان سب امتوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ انسانی خواہشات و تصورات کے پیچھے بھاگنے کی بجائے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی پیروی کریں۔ کیونکہ انسان جب بھی اپنی سوچ اور خواہش کے پیچھے چلے گا تو گمراہی کا شکار ہوگا۔ اور جب وہ اپنی خواہشات اور فکر و خیال کو آسمانی تعلیمات کے تابع کر دے گا تو اسے اعتماد اور سکون میسر آئے گا۔ قرآن کریم کی بنیادی تعلیم یہی ہے بلکہ اس کا کہنا ہے کہ پہلی آسمانی کتابوں کی دعوت بھی یہی تھی جسے ان کتابوں کی پیروی کا دعویٰ کرنے والوں نے بھلا دیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے پہلی کتابوں کے علمبرداروں بالخصوص یہودیوں اور عیسائیوں کو اس بات پر بار بار جھنجھوڑا ہے کہ وہ اپنی کتابوں پر عمل کیوں نہیں کرتے اور انہوں نے آسمانی تعلیمات کو کیوں پس پشت ڈال رکھا ہے؟
یہود و نصاریٰ باہم متحارب قومیں تھیں اور ان کی آپس کی محاذ آرائی اور کشت و خون سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ مگر یہ بھی قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ اس نے اس دور میں ان کی آپس کی دوست کی پیش گوئی کی جب ان دونوں قوموں کے درمیان دوستی کے رشتے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کو یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ دوستی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ’’بعضھم اولیاء بعض‘‘ کہ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور تاریخ نے قرآن کریم کی اس پیش گوئی کو اس طرح سچا کر دکھایا کہ آج یہودی اور عیسائی اپنی تمام تر دشمنی اور لڑائیاں بھلا کر باہم شیر و شکم ہوگئے ہیں کہ عیسائی دنیا کے وسائل اور یہودی دماغ مل کر اسلام اور عالم اسلام کے خلاف متحدہ محاذ قائم کیے ہوئے ہیں۔
مگر ان سب باتوں سے قطع نظر جی چاہتا ہے کہ مسیحی برادری کو ان کی اس عید پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے قرآن کریم کی وہ دعوت دہرا دی جائے جس میں مسیحی دنیا بلکہ سب اہل کتاب کو آسمانی تعلیمات کی ’’مشترک اقدار‘‘ کی طرف واپس لوٹ آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ دعوت سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۶۴ میں ان الفاظ کے ساتھ دی گئی ہے کہ:
’’اے پیغمبرؐ! اہل کتاب سے کہہ دیجیے کہ آجاؤ ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ہم آپس میں ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہ بنائیں۔ پس اگر یہ اہل کتاب اس بات کو قبول نہ کریں تو اے مسلمانو! تم کہہ دو کہ تم سب گواہ رہو کہ ہم تو بے شک اس حکم کو ماننے والے ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کو مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان ’’قدر مشترک‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک توحید الٰہی کا اقرار اور شرک سے بے زاری، اور دوسری انسان پر انسان کی حکمرانی کی نفی۔ یہ دو اصول ہیں جو قرآن کریم کے بقول تمام آسمانی مذاہب میں قدر مشترک ہیں اور ان پر کسی حالت میں کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے اہل کتاب کے نہ ماننے کی صورت میں بھی مسلمانوں کو اس پر قائم رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یعنی قرآن کریم عبادت اور حاکمیت دونوں میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو بنیاد قرار دیتا ہے اور انسانوں پر انسانوں کی حکمرانی کو رد کرتا ہے خواہ وہ کسی شکل میں ہو۔ حاکمیت کے اختیارات انسان شخصی حکمرانی کی صورت میں اپنے پاس رکھنا چاہے، کسی طبقہ کی حکمرانی کا نعرہ لگایا جائے، پارٹی کی آمریت ہو، یا ووٹ کی پرچی کے ذریعے اکثریت کو (وحی الٰہی کے برخلاف) حکمران قرار دے دیا جائے۔ یہ سب انسان پر انسان کی حکمرانی کی مختلف شکلیں ہیں جن کو اسلام قبول نہیں کرتا اور وہ انسانی سوسائٹی پر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو آسمانی تعلیمات کے ذریعے نافذ دیکھنا چاہتا ہے۔
قرآن کریم کی یہ دعوت آج بھی قائم ہے اور رمضان المبارک میں آنے والے کرسمس ڈے کے موقع پر ہم مسیحی برادری کو مبارکباد دیتے ہوئے یہی دعوت پیش کرتے ہیں کہ آؤ جس یسوع مسیح علیہ السلام کی ولادت کی دنیا بھر میں خوشیاں منا رہے ہو اسی کی تعلیمات کی طرف واپس آجاؤ۔ اور آسمانی وحی کو ایک بار پھر انسانی سوسائٹی کی بنیاد بنانے کے لیے آگے بڑھو کیونکہ شخصی، گروہی اور اجتماعی سوچ و خواہشات کے ہاتھوں انسانی معاشرہ بہت چرکے کھا چکا ہے اور اس ’’مسیحا‘‘ کا منتظر ہے جو ہاتھ پکڑ کر اسے ایک بار پھر آسمانی تعلیمات کے دامن میں واپس لے جائے۔