کیا ہمارے فیصلے ہمیشہ دباؤ کے تحت ہوتے رہیں گے؟

   
تاریخ : 
۲۵ ستمبر ۲۰۰۳ء

میں اس وقت دارالہدٰی (سپرنگ فیلڈ، ورجینیا، امریکہ) میں ہوں، یہاں مجھے ۱۸ ستمبر کو پہنچنا تھا مگر طوفان کی آمد کے باعث واشنگٹن کے ایئرپورٹس بند کر دیے گئے اور میں لندن سے واشنگٹن براہ راست آنے کی بجائے نیویارک کے راستہ سے ایک دن تاخیر کے ساتھ پہنچا۔ دارالہدٰی نے روزانہ مغرب کے بعد سیرت نبویؐ پر لیکچرز کا اہتمام کر رکھا ہے جو میرے یہاں قیام کے دوران جاری رہیں گے اور اس کے علاوہ چند احباب نے بخاری شریف کی کتاب العلم اور مسلم شریف کی کتاب الفتن کے خصوصی درس کا بھی تقاضا کیا ہے جو آج شام سے ان شاء اللہ العزیز شروع ہو جائے گا۔ رمضان المبارک کے دوسرے جمعۃ المبارک سے قبل گوجرانوالہ واپس پہنچنے کا ارادہ ہے اور اس سے قبل نیویارک، شکاگو، اٹلانٹا، بفلو اور چند ایک دیگر مقامات پر جانے کا بھی پروگرام ہے۔

لندن اور واشنگٹن میں یہ فرق ابھی تک موجود ہے کہ لندن میں روزنامہ جنگ اور اوصاف باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں جن سے پاکستان کی روزمرہ صورتحال کا علم ہوجاتا ہے اور پاکستانی دوستوں کی مختلف محافل اور سوسائٹیوں میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے جس سےا پنے ملک کے حالات کے بارے میں بے خبری کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر نیویارک اور واشنگٹن میں یہ دونوں باتیں موجود نہیں ہیں، یہاں چند اردو اخبارات شائع ہوتے ہیں جو ہفتہ وار ہیں، ان میں خبروں اور مضامین کی بجائے اشتہارات کی زیادہ بھرمار ہوتی ہے اور خبریں بھی پرانی ہوتی ہیں۔ یہ ہفت روزہ اخبارات مختلف ناموں کے ساتھ مساجد اور کاروباری مراکز میں مفت تقسیم ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دو قومی اخبار دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے جس سے سرسری معلومات حاصل ہوتی ہیں لیکن ایک مکمل اخبار دیکھنے اور خبروں اور تبصروں کو اطمینان کے ساتھ پڑھنے کی حسرت ہی باقی رہ جاتی ہے۔ بہرحال کم و بیش ایک ڈیڑھ ماہ اسی ماحول میں بسر ہوگا اور اس دوران جو بھی معلومات دستیاب ہوتی رہیں ان کے مطابق قارئین کی خدمت میں کچھ نہ کچھ عرض کیا جاتا رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

جمعہ کی شام جب میں واشنگٹن ڈی سی کے ڈلس ایئرپورٹ پر اترا تو طوفان آکر گزر چکا تھا اور اس کے نشانات جا بجا بکھرے نظر آرہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس طوفان سے امریکہ کی نصف درجن سے زیادہ ریاستیں براہ راست متاثر ہوئی ہیں، بہت سے لوگ ہلاک ہوئے ہیں، پانی اور ہوا کی تندی نے بہت سے مکانات کو نقصان پہنچایا ہے، سینکڑوں درخت جڑ سے اکھڑے ہیں اور بجلی کی مسلسل بندش کے باعث کئی علاقے اندھیرے میں ڈوبے رہے ہیں۔ بجلی بند ہونے کے گزشتہ تجربے کے اثرات ابھی تازہ تھے کہ امریکی دارالحکومت کے بعض علاقوں کو ایک بار پھر اندھیرے سے دوچار ہونا پڑا۔ ورجینیا کے علاقہ ڈمفریز میں میرے ایک عزیز رہتے ہیں انہوں نے بتایا کہ رات دس بجے کے لگ بھگ بجلی گئی اور دوسرے دن دوپہر کے بعد بحال ہوئی۔ بعض علاقوں میں دو دن تک بجلی بند رہی، کچھ علاقوں میں پانی کی سپلائی بھی تعطل کا شکار ہوئی۔ ایک پاکستانی کے بقول بجلی اور پانی کی بار بار بندش نے وطن کی یاد تازہ کر دی۔

ابھی چند ہفتے قبل امریکہ اور کینیڈا کی متعدد ریاستیں بجلی کی مسلسل بندش کے تجربہ سے گزر چکی ہیں جس کے اسباب کا ابھی تک پتہ نہیں چلایا جا سکا جبکہ بجلی کے نظام کی بحالی کئی روز کے بعد ممکن ہو سکی تھی۔ امریکہ اور کینیڈا ایک دوسرے پر اس کی ذمہ داری ڈال رہے ہیں، بعض دوستوں نے بتایا کہ کینیڈا کے وزیراعظم نے تو کہہ دیا تھا کہ آسمانی بجلی گرنے کی وجہ سے بجلی کا نظام معطل ہوا ہے لیکن بعد میں کچھ حلقوں کی مداخلت کی وجہ سے اس کی تردید کر دی گئی۔ اگر اس وقت بجلی کی مسلسل بندش میں ’’غیبی ہاتھ‘‘ کی تردید کرنا ضروری سمجھی گئی تھی تو اب سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ہوا اور پانی کی منہ زوری کے سامنے سارے کے سارے انتظامات دھرے رہ گئے اور قدرت خداوندی نے ایک بار پھر بتا دیا کہ انسان اسباب و وسائل کی دنیا میں جس قدر بھی ترقی کرلے اور سائنس و ٹیکنالوجی میں جتنی مہارت بھی حاصل کر لے قدرت کے وسائل اور اسباب کے سامنے اس کی بے بسی بدستور قائم ہے اور قائم رہے گی۔

بتایا جاتا ہے کہ طوفان جس رفتار سے آیا تھا اگر اس کا مین دھارا شہری آبادی کو چھو کر گزرتا تو ہر طرف تباہی پھیل جاتی، شہری آبادی پر صرف اس کا ایک کونا گزرا ہے باقی طوفان کی سمندر پر ہی عملداری رہی ہے جس کی وجہ سے متعدد شہر خوفناک تباہی سے بچ گئے ہیں۔ بہرحال اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ طوفان کے آثار سے قوم کو بروقت خبردار کرنے کا نظام اور طوفان کے اثرات کو کم سے کم دائرہ میں محدود رکھنے کا سسٹم بھی کسی بڑی تباہی کی راہ میں مؤثر رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے اور بجا طور پر کہہ رہے تھے کہ یہ طوفان کسی غیر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک میں آتا تو تباہی کا دائرہ کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہوتا۔

ہوا اور پانی کا طوفان اپنا وقت گزار کر نکل گیا ہے مگر اس کے بعد جنوبی ایشیا کے حوالہ سے سیاسی ماحول کے سمندر میں ہلچل کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف اور مسٹر اٹل بہاری واجپائی اپنے ملکوں سے چل پڑے ہیں، دونوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنا ہے اور دونوں نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے ملاقات کرنی ہے جو آج کی عالمی صورتحال اور خاص طور پر جنوبی ایشیا کے مستقبل کے بارے میں بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے کی جانے والی قیاس آرائیوں کے پس منظر میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے اور مسئلہ کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے بیک ڈور اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی پر جو کام ہو رہا ہے اس کا نتیجہ نکلنے کا وقت آگیا ہے اور صدر بش کے ساتھ پرویز مشرف اور واجپائی کی ملاقاتوں کے بعد اس کی کوئی واضح صورت سامنے آجائے گی۔

چند ماہ قبل مئی کے دوران جب میں نیویارک آیا تھا تو باخبر دوستوں کی ایک محفل میں یہ بات سننے میں آئی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ ’’چناب فارمولے‘‘ کے مطابق حل کر دینے پر کم و بیش سب فریقوں کا اتفاق ہوگیا ہے اور اب اس کا رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔ اس کے بعد پاکستان اور کشمیر کے متعدد لیڈروں کی زبان سے چناب فارمولے کا تذکرہ قوم نے سنا اور اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ دریائے چناب کی بنیاد پر کشمیر کو تقسیم کر کے پاکستان اور بھارت دونوں کو اسے قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے گا۔ جس کی طرف شاید امریکہ، پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کی اسی ملاقات میں عملی پیش رفت کا آغاز ہو جائے۔

دورہ امریکہ کے لیے پاکستان سے روانگی کے بعد جنرل پرویز مشرف سے منسوب جو بیانات بین الاقوامی پریس میں آئے ہیں ان میں دو باتیں بطور خاص اہمیت رکھتی ہیں:

  1. ایک بیان کے مطابق جنرل پرویز نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان میں ان کو سپورٹ کرے ورنہ مغربی قوتوں کو پاکستان میں کٹر بنیاد پرستوں کا براہ راست سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر پرویز مشرف نے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد جو پالیسی افغانستان کے حوالہ سے اختیار کی تھی وہ اسے پاکستان میں بھی عملاً نافذ کرنا چاہتے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ وہ مغرب کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہونے کی صورت میں پاکستان میں دینی قوتوں کو قومی منظر سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ بات ملک کے دینی حلقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور ان کے بارے میں پرویز حکومت کے عزائم کی عکاسی کرتی ہے۔
  2. دوسرا بیان آج نظر سے گزرا جس میں صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ عراق کے حالات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں اس لیے وہاں پاکستان کی فوج کو بھیجنا مناسب نہیں ہوگا۔ یہ بات اگر انہوں نے کہی ہے تو انتہائی خوش آئند ہے اور اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم جنرل پرویز مشرف سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ کیا ہمارے فیصلے ہمیشہ حالات کے دباؤ یا موافقت اور عدم موافقت کی بنیاد پر ہی ہوتے رہیں گے؟ اور کیا عراق میں حالات میں مزید بگاڑ نہ ہوتا تو وہاں پاکستان کی فوج کو بھیجنا مناسب ہو جاتا؟ ہمارے خیال میں اسی طرز عمل نے ہماری قومی پالیسی کے گرد بحرانوں کا تانا بانا بن رکھا ہے اور قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ ہم اس طرز عمل سے جتنی جلد ہو سکے نجات حاصل کر لیں۔
   
2016ء سے
Flag Counter