دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کے حسین تصور پر ہم نے گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے عنوان سے گوجرانوالہ میں ایک تعلیمی پروگرام کا آغاز کیا تھا جو اَب جامعۃ الرشید کراچی کے زیراہتمام ’’جامعہ شاہ ولی اللہؒ‘‘ کے نام سے انہی مقاصد اور پروگرام کے مطابق مصروف عمل ہے۔ اس پروگرام کے بانیوں میں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ، حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ، الحاج میاں محمد رفیقؒ، الحاج شیخ محمد اشرفؒ، پروفیسر غلام رسول عدیم، میاں محمد عارف ایڈووکیٹ اور دیگر بزرگوں کے ساتھ میں بھی شامل تھا اور سالہا سال اس کا متحرک کردار رہا ہوں۔ اس کے ابتدائی طلبہ میں سے ہمارے ایک عزیز شاگرد محمد عبد اللہ آج کل الیکٹرانک صحافت میں اہم منصب پر کام کر رہے ہیں، انہوں نے جب یہ بتایا کہ وہ کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ربع صدی قبل کے اساتذہ اور طلبہ کی ایک اجتماعی ملاقات کو ترتیب بنا رہے ہیں تو بہت خوشی ہوئی۔ یہ بارونق تقریب ۱۵ نومبر کو ہوئی جس کی تفصیل عزیزم محمد عبد اللہ کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں اور خصوصی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آگے بڑھتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
’’موبائل فون پر ایک نامعلوم کال آئی تو مخاطب بے تکلفانہ انداز میں گفتگو کر رہا تھا، پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ حافظ عباس ہیں جو شاہ ولی اللہ یونیورسٹی میں میرے کلاس کے سینئر تھے۔ سوچ پوچھیں دل باغ باغ ہو گیا اور ساتھ ہی دماغ ۲۷ سال پہلے یادوں کے دریچوں کو کھول بیٹھا۔ میٹرک کے رزلٹ کے بعد اگلی کلاس میں داخلہ کے لیے والد محترم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ گئے تو وہاں پر انہیں بتایا گیا کہ ہم نے ایک اور ادارہ بنایا ہے جہاں دینی اور دنیاوی تعلیم دونوں دی جاتی ہیں، والد محترم نے اٹاوہ میں قائم ادارے کا وزٹ کیا تو پتہ چلا کہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے نام سے ادارہ ہے جہاں ابھی پہلی کلاس چل رہی تھی، یہ سن کر خوشی ہوئی کہ دین اور دنیا کی تعلیم حاصل ہو جائے گی اس لیے فوری حامی بھر لی۔ داخلہ لیا تو پہلے دن یونیورسٹی کے سیکرٹری جناب سہیل شبیر نے ادارہ کے بارے میں قواعد و ضوابط سے آگاہ کیا، یوں میں بھی اس ادارے میں باقاعدہ طالب علم کی حیثیت سے شب و روز گزارنے لگا۔ انتہائی شفیق مہربان اساتذہ کرام اور بھائیوں جیسی محبت رکھنے والے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ کبھی ایک لمحہ بھی اجنبیت محسوس نہ ہوئی اور آہستہ آہستہ یونیورسٹی میرا دوسرا گھر بن گیا۔ دن کے وقت کلاسوں میں اساتذہ کے لیکچر اور بعد ازاں ہاسٹل میں مولانا عزیز الرحمان خان شاہد اور مولانا مفتی محمد اویس کی تربیت نے ہماری زندگیاں ہی بدل ڈالیں۔ علی الصبح نماز فجر کے بعد عبد الرؤف چیمہ کا اپنی نگرانی میں دوڑ لگوانا اور ورزش کرانا ہماری فٹنس کا راز تھا۔ اردو ادب اور شاعری سے لگاؤ کی بنیادی وجہ سینئر استاذ محترم پروفیسر غلام رسول عدیم تھے، ہمیں آج بھی اس بات کا دکھ ہے کہ اسلامیہ کالج کے سابق پرنسپل جناب غلام رسول عدیم سے بھرپور استفادہ نہ کر سکے جو ہمیں انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ مولانا عزیز الرحمان شاہد، مولانا منظور، پروفیسر عبد الرحیم سبحانی، سہیل شبیر، مرزا ثناء اللہ، چوہدری نصیر احمد، اشرف مغل، مفتی کفایت اللہ، عمر دراز، بلال بٹ، ملک محمد شفیق، انعام الرحمان، الطاف الرحمان، نعیم شاہد، مفتی رشید، زین العابدین، یہ وہ چیدہ چیدہ نام ہیں جو دن رات ہماری تربیت میں کوشاں تھے تاہم اس وقت کی علماء کی کلاس جو ایم اے اردو کر رہی تھی نے بھی ہمارے بنیادی عقائد درست کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ہماری زندگیوں میں انقلاب لانے میں جس شخصیت نے مرکزی کردار ادا کیا وہ حضرت مولانا زاہد الراشدی تھے جن کے لیکچرز، دینی مسائل اور تربیتی نشستوں نے ہمارے دلوں کو پھیرا، شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ اور شیخ القرآن مولانا عبد الحمید سواتیؒ کی روحانی طاقت نے گویا مہر ثبت کا کام کیا اور یوں جب ہم یونیورسٹی سے نکلے تو ہر طالب علم گویا ایک چراغ کی مانند تھا اور جدھر گیا روشنی پھیلانے کا باعث بنا۔
موبائل فون کا دور نہ تھا اس لیے دوستوں کے نام، چہرے اور علاقہ ذہن میں نقش تھا، جب بھی کسی دوست کے شہر سے گزر ہوتا تو دل میں ایک ہلچل ہوتی کہ فلاں دوست کلاس فیلو اس شہر میں ہے، مگر رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ملنا ناممکن تھا۔ کئی بار خیال آیا کہ شاید زندگی میں کوئی ایسا لمحہ آئے کہ ہم دوست دوبارہ مل سکیں۔ حافظ عباس کے فون نے تو گویا میرے اس خیال میں جان ڈال دی کہ ’’یار زندہ صحبت باقی‘‘ والی بات پوری ہو گئی۔ انہوں نے دو تین دوستوں کے موبائل نمبر بھی دیے اور بتایا کہ کوشش میں ہیں کہ باقی دوستوں سے بھی رابطہ ہو سکے۔ اب چونکہ جدید ٹیکنالوجی کا دور اور سب کے پاس اینڈرائیڈ موبائل ہیں جس کے ذریعے رابطہ بہت آسان ہو گیا ہے، کچھ دنوں کے بعد خوشی کی انتہا نہ رہی کہ جب شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے نام سے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا گیا جو ہمارے سینئر محسن بٹ کی کاوش تھی، پھر کیا تھا روزانہ کوئی ایک پرانا دوست نئے چہرے کے ساتھ اس گروپ میں ایڈ ہونا شروع ہو گیا، نئے شامل ہونے والے سے سب کا ایک ہی مطالبہ ہوتا کہ اپنی حالیہ تصویر بھیجو، تصویر دیکھتے تو حیران بھی ہوتے اور خوش بھی کہ چہرے ہی بدل گئے، اکثر کے بالوں میں چاندی آ گئی اور کئی تو میری طرح ’’بے بال‘‘ ہو چکے تھے۔
روز بروز ایک دوسرے سے ملنے کی خواہش شدت اختیار کرنے لگی، اس دوران سید مزمل حسین شاہ، محسن بٹ، رانا احسان، ناصر محمود اور بندہ ناچیز نے باہمی مشاورت کے بعد ۱۵ نومبر ۲۰۲۰ء کے دن کو ملاقات کے لیے منتخب کیا تاکہ سب دوست اس دن اکٹھے ہوں اور پرانی یادیں تازہ کی جا سکیں۔ یقیناً یہ ایک ایسا پلان تھا جس نے بھی سنا اس کے دل میں خوشی کے فوارے پھوٹنے لگے۔ جیسے جیسے دن قریب آ رہے تھے ویسے ویسے یہ خیال ستا رہا تھا کہ کوئی دوست اس ملاقات سے محروم نہ رہ جائے۔ اس لیے دوستوں نے ذمہ داریوں کو تقسیم کرتے ہوئے اسے پورا کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ’’ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے‘‘ کے مصداق آزاد کشمیر، کراچی، فیصل آباد، گجرات، سیالکوٹ، پسرور، گوجرانوالہ، شکر گڑھ، لاہور غرض ملک کے طول و عرض میں بسنے والے دوستوں کو ڈھونڈ نکالا۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ اپنے شہر لاہور میں ایک کلاس فیلو کو ڈھونڈنے میں مجھے دو ماہ لگ گئے مگر ڈھونڈ ہی لیا۔ جب کبیر خان سے ملنے گیا تو کہنے لگا کہ شاید ہی کوئی ایسا دن ہوتا ہو گا جس دن میں یونیورسٹی کے دوستوں کو یاد نہ کرتا ہوں۔ اب دوسرا مرحلہ اساتذہ کرام سے رابطے کا تھا، اساتذہ کرام کو بھی ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہ تھا، بہت سارے ہمارے استاد مختلف اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوں میں اہم عہدوں پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں تاہم ہم نے یہ معرکہ بھی سر کر لیا۔
پروگرام کو حتمی شکل دینے کے لیے ہم تین دوست مزمل شاہ، محسن بٹ اور بندہ ناچیز الشریعہ اکادمی میں شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی کے پاس گئے اور شرف ملاقات حاصل ہوا۔ حضرت نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کافی باتیں سمجھائیں اور خوب دعائیں بھی دیں اور ساتھ بتا دیا کہ اتوار کو ان کا جامعہ فتحیہ لاہور میں لیکچر ہوتا ہے لیکن اس روز جامعہ فتحیہ کا وہ لیکچر نہیں ہو گا اس لیے میں سارا دن آپ لوگوں کے پاس ہوں گا۔ اسی طرح مفتی محمد اویس خان نے جو آج کل ضلع قاضی حویلی (فارورڈ کہوٹہ) ہیں سے رابطہ ہوا تو انہیں بھی یہ سن کر خوشی ہوئی کہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ ایک بار پھر مل رہے ہیں، تاہم سب سے زیادہ خوشگوار حیرت سر اشرف مغل کو تھی جو بار بار فون کر کے اپنے قیمتی مشورے بھی دیتے رہے۔ پروگرام سے دو روز قبل وادی نیلم سے شیخ تہذیب الحسن کا فون آیا جن کی اس پروگرام کے انعقاد میں کافی کاوشیں تھیں کہ وادی نیلم میں شدید گولہ باری ہو رہی ہے اور اب ان کا اور دیگر دوستوں کا کشمیر سے آنا مشکل ہو گیا ہے، جو اچھی خبر نہ تھی تاہم میں نے کہا کہ اللہ پر ڈال دیں بہتر ہو جائے گا، اسی دوران کراچی سے حافظ عباس نے بتایا کہ انہیں شدید بخار ہے تاہم اللہ کا شکر ہے کہ دونوں کی یہ عارضی پریشانیاں حل ہو گئیں۔
بالآخر وہ دن آگیا جس کا ہم سب کو انتظار تھا، یقین جانیں مجھ سمیت درجنوں دوستوں کو رات بھر نیند ہی نہ آئی کہ جیسے صبح ہماری عید ہو۔ اور عید کیوں نہ ہو کہ ۲۵ سال بعد بچھڑے دوست جو مل رہے تھے اور یہ وہ دوست تھے جن کے ساتھ دن رات اکٹھے گزارے تھے۔ میں چونکہ میزبانوں میں شامل تھا اس لیے مجھے صبح جلد پہنچنا تھا، لاہور سے گوجرانوالہ کی طرف صبح سویرے ہی نکل پڑا اور وقت سے پہلے یونیورسٹی پہنچ گیا۔ یونیورسٹی تو گویا اپنے پر پھیلائے بچھڑے مکینوں کو ویلکم کر رہی تھی، وہی درودیوار، وہی شان و شوکت، وہی رنگ و بو، یونیورسٹی کی عبارت تو نہ بدلی تاہم اس کے مکین بدل چکے تھے۔ جیسے ۲۵ سال پہلے چھوڑ کر گئے تھے اسی آب و تاب سے موجود تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ اب وہاں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچے زیرتعلیم تھے جو حفظ ،درس نظامی اور اسکول کی کلاسیں پڑھ رہے تھے۔ جیسے جیسے دوست آتے گئے فضا خوشیوں سے معطر ہوتی گئی۔ اس دوران موسم سرما کی پہلی بارش کے بادل بھی خوب برسے اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے یونیورسٹی خوشی سے آنسو بہا رہی ہو کہ میرے مکینوں کو آج ۲۵ سال بعد میری یاد آئی ہے۔ جو دوست آ رہے تھے، جب وہ یہاں زیرتعلیم تھے تو لاابالی عمر اور بانکپن تھا لیکن غم روزگار نے دوستوں کو کافی تبدیل کر دیا تھا۔ کوئی موٹا، کوئی گنجا، تو کسی کی توند باہر کو جھانک رہی تھی لیکن چہرے سب کے خوشیوں سے بھرے ہوئے اور دور سے بازو پھیلاتے یوں آ رہے تھے جیسے چڑیا اپنے گھونسلے کو آتی ہے۔ آنے والوں پر گلاب کی پتیاں نچھاور کی جا رہی تھیں۔ طالب علم دوستوں کی خوشی اس وقت دیدنی تھی جب اساتذہ کرام کی آمد ہوئی اور خاص طور پر مہمان خاص استاد الاساتذہ حضرت مولانا زاہد الراشدی تشریف لائے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ہم دوبارہ پچیس سال پیچھے آ گئے ہوں۔ وہی طلبہ، وہی اساتذہ، وہی یونیورسٹی۔ کاش کہ زندگی کی اس فلم کو ریورس کر سکتے لیکن یہ ممکن نہ تھا، البتہ جو ہم نے محفل سجا لی یہی غنیمت تھی۔
مہمان طلبہ اور اساتذہ کے بیٹھنے کے لیے شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی موجودہ انتظامیہ اور خاص طور پر مولانا شعیب چیمہ نے لائبریری میں بیٹھنے کا شاندار اہتمام کیا۔ وہ لمحہ کتنا حسین اور یادگار ہو گا کہ جب ربع صدی کے بعد اساتذہ اور طلبہ ایک چھت تلے بیٹھے ہوں، لائبریری میں مختصر تقریب کا اہتمام کیا گیا، نقابت کی ذمہ داری بندہ ناچیز کے ذمہ تھی، جب طلبہ کا تعارف کرانا شروع کیا تو ہر طالب علم نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنا تعارف خود کروانا چاہتے ہیں جس میں انہوں نے اپنی کامیاب زندگی کا راز یونیورسٹی میں گزارے شب و روز کو قرار دیا۔ مولانا عبد الجبار جو اس وقت سیالکوٹ جیل میں بطور ایجوکیشنل آفیسر تعینات ہیں، نے بتایا کہ ان کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ یہی ادارہ تھا اور آج وہ جس مقام پر ہیں اس میں بڑا کردار شاہ ولی اللہ یونیورسٹی اور یہاں کے اساتذہ کا ہے۔ حیرت کی انتہا اس وقت ہوئی جب ہمارے استاد اشرف مغل جو اس وقت گورنمنٹ عطاء محمد اسلامیہ ہائی سکول نمبر ۱ میں بطور سینئر ہیڈ ماسٹر ہیں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ انہوں نے بحیثیت استاد اس ادارے سے بہت کچھ سیکھا جو انہیں آج تک کام آ رہا ہے۔ مہمان خاص شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی نے اپنے مختصر مگر جامع خطاب میں بتایا کہ ان کی اور ان کے بزرگوں کی خواہش تھی کہ طلباء دین اور دنیا دونوں کا علم حاصل کریں، تاہم آج انہیں بہت خوشی ہو رہی ہے کہ اس ادارے کے فارغ التحصیل طلباء نہ صرف ملک بلکہ بیرون مل کبھی معاشرے کی خدمت کر کے ملک و قوم اور اس ادارے کا نام روشن کر رہے ہیں جن کی تربیت میں اس ادارے کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ عرصہ خلا رہا جو کہ اب ختم ہو چکا ہے اور اب اس ادارے میں جامعۃ الرشید کراچی کے زیر انتظام جامعہ شاہ ولی اللہ کے نام سے حفظ اور درس نظامی کی کلاسز ہو رہی ہیں جبکہ ساتھ ساتھ مڈل، میٹرک اور ایف اے کی کلاسز بھی چل رہی ہیں۔
اس تاریخی موقع پر طلباء کو اپنے اساتذہ کے ہاتھوں خوبصورت سوینیئر اور اساتذہ کرام کو مولانا زاہد الراشدی کے ہاتھوں شیلڈز ملنے پر خوشی کی انتہا نہ رہی۔ تقریب کو میٹھا بنانے کے لیے دس پاؤنڈ کا کیک بھی کاٹا گیا جبکہ مہمانوں کی کھانے کی کھانے سے تواضع کی گئی جس کی میزبانی کا شرف شیخ یاسر خلیل کے حصہ میں آیا۔ اس موقع پر تقریب کو سالانہ کی بنیاد پر منانے کا بھی عزم کیا گیا۔ تقریب میں اللہ کو پیارے ہونے والے طلباء فیصل بٹ، انعام اللہ چیمہ، نیاز شاہ، اور اساتذہ کرام میں عبد الرؤف چیمہ، مرزا ثناء اللہ، مولانا منظور، پروفیسر ملک غلام رسول، قاری شمس، عبد الحمید، اور انتظامیہ کے میاں رفیق، شیخ یعقوب، میاں عارف ایڈووکیٹ اور شیخ اشرف کے لیے بھی دعا کرائی گئی۔ آخر میں فوٹو سیشن ہوا جبکہ رات کے کھانے کا اہتمام سید مزمل حسین شاہ کی جانب سے وڈالہ سندھوں میں چڑا کڑاہی سے کیا گیا اور رات کا قیام رانا احسان کے ڈیرے پر دادو باجوہ پسرور میں کیا گیا۔ یوں ایک تاریخی اور یادگار تقریب جو بظاہر تو ختم ہو گئی لیکن ہمارے ذہنوں پر ان مٹ نقش کر گئی۔‘‘