آزاد جموں و کشمیر کی حکمران جماعت ’’آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس‘‘ کے سربراہ سردار محمد عبد القیوم خان نے ’’اوصاف‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ
’’جہاد کشمیر میں غیر کشمیری گروپوں کی مداخلت نے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا اور پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنے اور جہاد کے نام پر صرف مال بنایا۔ کشمیری جہادی تنظیموں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہو رہا، صرف ان تنظیموں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے جو پاکستانی تھیں اور انہوں نے کسی کی بات نہیں مانی اور پاکستان کی بدنامی کا باعث بنیں۔ میں شروع سے کہتا تھا کہ پاکستان کو ملوث نہ کرو، جس نے جہاد کرنا ہے وہ مقبوضہ کشمیر جا کر وہاں کی جہادی تنظیموں میں شامل ہو جائے، مگر الگ جھنڈا اور ایجنڈا بنا کر ان گروپوں نے جہاد کشمیر کو نقصان پہنچایا۔ صرف کشمیریوں پر مشتمل جہادی تنظیمیں باقی رہنی چاہئیں باقی سب ختم کر دی جائیں۔ غیر کشمیری جہادی تنظیموں نے کشمیر اور کشمیریوں کو ایک طرف رکھ کر اپنا ایجنڈا شروع کر دیا اور اپنی مرضی کی، جس سے بھارت کو موقع ملا اور اس نے پاکستان کو بدنام کیا۔‘‘
اور اس کے ساتھ ساتھ سردار صاحب موصوف کا یہ ارشاد بھی اس انٹرویو کا حصہ ہے کہ
’’موجودہ جنگی صورتحال میں آزاد کشمیر حکومت سفارتی محاذ پر کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس سے آزاد حکومت کا تعلق ہے، کیونکہ یہ ان کے بس کی بات ہی نہیں، بلکہ یہ پاکستان کے لیول کا مسئلہ ہے۔ پوری پاکستانی قوم صرف یکجہتی کا مظاہرہ کر دے، بھارت کو جنگ کی ہمت نہیں ہوگی۔‘‘
سردار عبدالقیوم خان ہمارے ملک کے ان سیاستدانوں میں سے ہیں جنہیں آزاد کشمیر اور پاکستان دونوں جگہ ایک باشعور اور باصلاحیت قومی راہنما کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے اور سیاسی حلقوں کے علاوہ ملک کے دینی حلقوں میں بھی ان کا احترام پایا جاتا ہے۔ خود ہم بھی ان کی معاملہ فہمی، موقع شناسی اور حب الوطنی کے معترف ہیں اور ان کالموں میں کئی بار اس کا اظہار کر چکے ہیں، مگر جب اقتدار کے حصول یا تحفظ کی ترجیحات ان کا دامن پکڑ لیتی ہیں تو وہ بعض باتیں ایسی کہہ جاتے ہیں کہ ان سے ہمارے جیسے نیازمندوں کا اتفاق ضروری نہیں رہتا اور کسی نہ کسی بات پر اختلاف رائے کا اظہار بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔
مثلاً ان کا یہی ارشاد کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف ہونے والی عسکری کارروائیوں کو جہاد بھی کہنا چاہتے ہیں، مگر اس جہاد کو صرف کشمیر کے دائرہ میں محدود رکھنے پر بھی ان کا اصرار ہے۔ اسی طرح وہ پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تمام تر سفارتی جدوجہد کا ذمہ دار بھی قرار دے رہے ہیں، لیکن پاکستان کو جہاد سے الگ تھلگ دیکھنے کے بھی خواہشمند ہیں اور ہمارے نزدیک یہی وہ فکری تضاد ہے جو نہ صرف سردار عبدالقیوم خان بلکہ ہمارے ان بیشتر قومی سیاسی راہنماؤں کے ذہنوں کو الجھائے ہوئے ہے، جو اسلامی حمیت اور جذبہ جہاد سے سیاسی مفادات تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن خود اسلامی حمیت اور جذبہ جہاد کے اپنے منطقی اور فطری تقاضوں کی باری آتی ہے تو وہ الٹی زقند لگا کر جہاد اور دینی حمیت کو بنیاد پرستی اور دہشت گردی قرار دینے والوں کے کیمپ میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔
سردار صاحب، صاحبِ مطالعہ سیاستدان ہیں اور ان کی دینی معلومات کا دامن بھی تنگ نہیں ہے، اس لیے یہ بات یقیناً ان کے علم میں ہو گی کہ جہاد کا تعلق کسی علاقہ سے نہیں بلکہ دینی احکام سے ہوتا ہے۔ جہاد نہ کشمیری ہوتا ہے اور نہ فلسطینی، وہ تو صرف جہاد ہوتا ہے، جس کے مخاطب وہ تمام افراد ہیں جو قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا قائد و راہنما سمجھتے ہیں۔
قرآن کریم کی سینکڑوں آیات، ہزاروں احادیث نبویہ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ہونے والے بیسیوں جہادی واقعات کی روشنی میں فقہاء اسلام نے جو احکام مرتب صورت میں پیش کیے ہیں، ان میں صراحت ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی مسلمان کفار کے ظلم کا شکار ہو تو اسے کافروں کے ظلم و جبر سے نجات دلانا دنیا بھر کے مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری بن جاتا ہے اور یہ ذمہ داری درجہ بہ درجہ تقسیم ہوتی اور پھیلتی چلی جاتی ہے۔ مظلوم مسلمانوں کے قریبی مسلمان بھائی اگر اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے قابل ہوں تو وہ اس کے ذمہ دار قرار پاتے ہیں ورنہ یہ ذمہ داری ان کے ساتھ ملنے والے مسلمانوں تک منتقل ہو جاتی ہے۔ اس میں کوئی تفریق نہیں کہ کشمیری مسلمان مظلوم ہوں تو ان کی حمایت میں صرف کشمیری مسلمان ہتھیار اٹھا سکتے ہیں، اور اگر فلسطین کے مسلمان ظلم و جبر کا نشانہ بن رہے ہیں تو ان کی مدد کے لیے میدانِ جہاد میں صرف فلسطینیوں کو ہی آنے کی اجازت ہے۔
یہ کشمیر، فلسطین، چیچنیا، کسووا اور مورو کی تقسیم اسی ’’نیشنلزم‘‘ کے فلسفہ کی پیداوار ہے، جو یورپ نے خلافت اسلامیہ کا تیاپانچہ کرنے کے لیے پیش کیا تھا۔ اور عالمی استعمار اسی نیشنلزم کے ذریعے ابھی تک ملت اسلامیہ کو ساٹھ سے زیادہ حصوں میں تقسیم کیے ہوئے ہے۔
اس لیے جہادی ذمہ داری کے حوالے سے پاکستان اور کشمیر کو الگ الگ کر دینے کے اس فلسفہ کے پیچھے ہمیں وہی سوچ کارفرما نظر آ رہی ہے جس کا نتیجہ ہم اس سے قبل افغانستان کے حوالے سے بھگت چکے ہیں۔ اور ہمیں ڈر لگ رہا ہے کہ اس سوچ کے نتیجے میں کل خدانخواستہ کسی مرحلہ میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ پاکستان اور کشمیر میں سے ایک ہی کو بچایا جا سکتا ہے تو ایک بار پھر ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر افغانیوں کی طرح کشمیریوں کو بھی اسی قربان گاہ کی نذر نہ کر دیا جائے۔ اس لیے یہ بات اگر کوئی اور سیاستدان کہتا تو شاید ہمیں اس کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی، مگر سردار عبدالقیوم خان کی زبان سے یہ بات سن کر ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور اسی تکلیف کا اظہار ان کالموں میں ہم نے ضروری سمجھا ہے۔
باقی رہی بات پاکستان کی بدنامی کی، تو سردار عبدالقیوم خان صاحب سے گزارش ہے کہ عالمی حلقوں میں پاکستان کی بدنامی صرف جہادی تحریکوں کے حوالے سے نہیں ہے، بلکہ اس بدنامی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ پاکستان کے دستور کی اسلامی بنیاد اس کی بدنامی کا باعث ہے، پاکستان میں توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا اس کی بدنامی کا باعث ہے، قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینا اس کی بدنامی کا باعث ہے، پاکستان میں قرآن و سنت کی بیان کردہ شرعی سزاؤں کا نظام اس کی بدنامی کا باعث ہے، زانی کو سنگسار کرنے، چور کا ہاتھ کاٹنے، شرابی کو کوڑے مارنے، ڈاکو کو سولی پر لٹکانے، بہت سے امور میں عورتوں کے ساتھ ترجیحی سلوک اور نکاح، طلاق، وراثت سے متعلقہ اکثر اسلامی قوانین و ضوابط عالمی حلقوں بالخصوص مغربی دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث ہیں۔
سردار عبدالقیوم خان صاحب اگر پاکستان کے بارے میں عالمی اداروں کی رپورٹوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور ہمارا خیال ہے یقیناً کرتے ہوں گے، تو یہ سب امور وہ ہیں جن کی ان رپورٹوں میں صراحت موجود ہے اور جن کی بنیاد پر پاکستان کو مسلسل بدنام کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اگر سردار صاحب محترم نیک نامی اور بدنامی کے مغربی معیار و فلسفہ پر ایمان لا چکے ہیں تو وہ اسے صرف ایک مسئلہ تک محدود کیوں رکھتے ہیں؟ حوصلہ کر کے عالمی برادری کے تمام مطالبات کو تسلیم کریں اور کمال اتاترک کی طرح ’’قومی ہیرو‘‘ کا کردار ادا کرنے کے لیے میدان میں آئیں، خالی مولویت کے ٹائٹل کے ساتھ تو ویسے بھی اب آگے بڑھنے کا کوئی چانس باقی نہیں رہا۔