صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کی طرف سے پیش کردہ ’’حسبہ ایکٹ‘‘ اس وقت قومی حلقوں میں زیرِ بحث ہے، اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر مختلف اطراف سے اظہار خیال کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
جہاں تک احتساب کا تعلق ہے، یہ نہ صرف کسی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، بلکہ اسلامی تعلیمات کا حصہ بھی ہے۔ قرآن کریم نے ایک مسلمان حکومت کے فرائض میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وہ معاشرے میں نماز کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کی نگرانی کے ساتھ ساتھ معروفات کے قیام اور منکرات کے سدباب کے لیے نظم قائم کرے۔ حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا طرز عمل اور اسوہ اس سلسلے میں بہترین مثال ہے، جو سوسائٹی میں خیر اور شر کے عمومی رویوں پر نظر رکھتے تھے، خود علاقوں کا دورہ کرتے، بازاروں اور گلیوں میں جاتے، لوگوں کے رہن سہن اور عادات کا مشاہدہ کرتے تھے اور جہاں خیر کے کسی پہلو میں کمی دیکھتے یا شر کو حد سے تجاوز کرتے دیکھتے اس کا نوٹس لیتے اور توازن قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرتے تھے۔
معاشرے میں خیر اور شر کے توازن کو قائم رکھنا اور شر کو خیر پر غالب ہونے سے روکنا ہی احتساب کی اصل روح ہے اور دنیا کی کوئی بھی باشعور حکومت اس کے اہتمام سے غافل نہیں رہتی۔ البتہ خیر اور شر کے تعین اور معیار میں ضرور فرق ہوتا ہے، لیکن ہر حکومت اور سوسائٹی کا خیر و شر کا کوئی نہ کوئی معیار ضرور ہوتا ہے اور وہ اس میں توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اہتمام بھی ضرور کرتی ہے۔
پاکستان چونکہ اپنے دستور اور مقصدِ قیام کے حوالے سے ایک اسلامی ریاست ہے اور اس کے دستور میں نہ صرف اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے، بلکہ ایک مسلم معاشرے کی تشکیل کی طرف عملی پیشرفت کو ریاست کے مقاصد اور حکومت کے فرائض میں شمار کیا گیا ہے، اس لیے پاکستان میں خیر و شر کا معیار وہی ہو گا جو اسلام نے طے کیا۔ قرآن و سنت میں جن امور کو خیر قرار دیا گیا ہے وہ اس سوسائٹی کے معروفات ہوں گے اور جن امور کی ممانعت کی گئی ہے وہ منکرات سمجھے جائیں گے۔ جبکہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ وہ معاشرے میں معروفات کے فروغ اور منکرات کے سدباب کے لیے ریاستی ذرائع کو استعمال میں لائے اور عملی اقدامات کرے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے خیر و شر کے تعین اور اس کے معیار کے بارے میں ذہنی تضاد پایا جاتا ہے۔ کسی بھی طبقے میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے، جو نام تو اسلام کا لیتے اور بات قرآن و سنت کی کرتے ہیں، لیکن ان کے ذہنوں میں خیر و شر کے تعین اور ان کے درمیان فرق کے لیے وہ معیار موجود نہیں ہے جو قرآن و سنت نے بیان کیا ہے اور جو ملت اسلامیہ کے اجتماعی تعامل کی نمائندگی کرتا ہے۔ بلکہ ذہنی طور پر وہ خیر و شر کے اس بدلے ہوئے معیار کو قبول کر چکے ہیں جو مغرب کی دین بے زار ثقافت اور فلسفے کی پیداوار ہے۔ ان کے نزدیک ہر وہ چیز خیر ہے جسے سوسائٹی نے قبول کر لیا ہے اور ہر وہ چیز شر ہے جو سوسائٹی سے قبولیت کی سند حاصل نہیں کر سکی۔ جبکہ اسلام اس کی نفی کرتا ہے اور سوسائٹی کے کسی ایسے فیصلے کو سند جواز دینے کے لیے تیار نہیں جو قرآن و سنت کے صریح احکام کے منافی ہو۔ یہی وہ تضاد اور کنفیوژن ہے، جس کی وجہ سے صوبہ سرحد کی حکومت کے پیش کردہ حسبہ ایکٹ کو قبول کرنے کے لیے بہت سے ذہن تیار نہیں ہیں، ورنہ احتساب کا یہ نظام نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل احتساب کے نام سے بہت سے ادارے وجود میں آ چکے ہیں۔
۱۹۸۳ء میں وفاقی محتسب اعلیٰ کا تقرر عمل میں لایا گیا تھا، جبکہ اس کے بعد پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی صوبائی محتسب مقرر کیے گئے تھے، جو اب تک کام کر رہے ہیں۔ صوبہ سرحد میں اس نظم کے تحت صوبائی محتسب کا تقرر عمل میں نہیں لایا گیا تھا، اس خلا کو ایم ایم اے کی حکومت نے پر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے اس پر یہ کہہ کر اعتراض کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ کوئی نیا کام ہے، جو دستور سے ہٹ کر ہے اور مجلس عمل کی حکومت کوئی نئی روایت قائم کر رہی ہے۔ البتہ صوبائی حکومت نے اس کے لیے دائرہ کار اور نظم کا طریقہ جداگانہ اختیار کیا ہے اور اگر اس کا جداگانہ طریق کار دستور کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے صوبائی اختیارات کی حدود میں ہے تو اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اگر کسی حد تک متوازی نظام کی بات بھی ہوتی ہے تو یہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے قبل بھی ہم دستور کی موجودگی میں اس کے دائرے سے ہٹ کر متعدد متوازی سسٹم بھگت چکے ہیں، جن میں خصوصی و فوجی عدالتوں کا نظام بطور خاص قابل ذکر ہے۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی ہم دستور کے نام پر ایسی صورت حال سے دو چار ہیں جسے دوہرے نظام یا کسی حد تک متوازی سسٹم سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات ہماری روایت کا حصہ بن چکی ہے کہ جہاں نارمل سسٹم اور مروجہ نظام ہمارے کسی اجتماعی مقصد کی تکمیل میں ناکافی دکھائی دیتے ہیں تو ہم اس سے ہٹ کر خصوصی نظم قائم کرنے سے قطعاً گریز نہیں کرتے اور ایک الگ اور متوازی نظام کے ذریعے ان مقاصد کی تکمیل کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔
رہی بات حسبہ ایکٹ کے مقاصد و اہداف کی تو ان میں سے بہت سے اہداف وہ ہیں، جن کے لیے ایک عرصے سے قومی حلقوں میں آواز اٹھائی جا رہی ہے اور مسلسل مطالبات کیے جا رہے ہیں، مثلاً: اسلامی و اخلاقی اقدار و روایات کی پابندی، اسراف اور فضول خرچی کی حوصلہ شکنی، گداگری کا سدباب، عبادات کی اہمیت کو اجاگر کرنا، کم عمر بچوں کی ملازمت کی حوصلہ شکنی، جانوروں پر ظلم کو روکنا، لاؤڈ سپیکر کے غلط استعمال اور فرقہ وارانہ تقاریر کی ممانعت، خواتین کے حقوق کا تحفظ، خصوصی طور پر غیرت کے نام پر قتل کو روکنا اور انہیں وراثت میں حصہ دلانا، مصنوعی گرانی کے علاوہ رشوت و بدعنوانی کا سد باب، اقلیتوں کا تحفظ، ان کی عبادت گاہوں اور مذہبی رسوم کے تقدس کا احترام۔
یہ ہیں وہ امور جو حسبہ ایکٹ کے اہداف و مقاصد میں شامل ہیں اور جن کے لیے ملک بھر کی متعدد تنظیمیں، ادارے اور این جی اوز مسلسل مطالبات کر رہی ہیں۔ لیکن الجھن صرف یہ ہے کہ مطالبات کرنے والے بہت سے ادارے ان اہداف کی طرف مروجہ عالمی نیٹ ورک اور مغرب کے سیکولر نظام کے تحت آگے بڑھنا چاہتے ہیں، مگر صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت ان اہداف کو اسلامی تعلیمات اور قرآن و سنت کی تصریحات کی روشنی میں حاصل کرنے کی خواہشمند ہے۔ اس لیے اصل تنازع حسبہ ایکٹ کے اہداف و مقاصد کا نہیں اور نہ ہی اس کے طریق کار کا ہے، بلکہ اصل کنفیوژن اس کے ”فکری فریم ورک“ کی ہے کہ ان اہداف اور طریق کار کے لیے راہنما اصول قرآن و سنت سے حاصل کیے جائیں گے یا مروجہ عالمی ثقافت اور فلسفہ و نظام کو بنیاد بنایا جائے گا؟
اس پس منظر میں ہم معترضین سے یہ گزارش کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دل کی اصل بات زبان پر لائیں۔ ادھر ادھر کی باتوں میں اپنا اور قوم کا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟