اجتہاد مطلق کا دروازہ کیوں بند ہے؟

   
۱۰ مئی ۱۹۹۹ء

اجتہاد کے حوالے سے گفتگو کچھ آگے بڑھاتے ہوئے اس نکتہ پر اظہارِ خیال کرنے کا ارادہ تھا کہ عام مسلمان اور غیر مجتہد عالم کو کسی ایک فقہی مکتبِ فکر کے دائرہ میں پابند کرنے میں کیا حکمت ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ مگر سابقہ دو مضامین کے بارے میں ’’اوصاف‘‘ میں ایک دو مراسلے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ’’اجتہادِ مطلق‘‘ کا دروازہ بند ہونے کے بارے میں جو کچھ عرض کیا تھا اس کی وضاحت ابھی پوری طرح نہیں ہو پائی اور کچھ ذہنوں میں شبہات موجود ہیں۔ اس لیے آگے بڑھنے سے پہلے اس ضمن میں کچھ مزید گزارشات پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ بعض دوستوں نے سوال کیا ہے کہ اجتہادِ مطلق کا دروازہ بند ہونے پر دلیل کیا ہے؟ اور اب اگر کوئی اس درجہ کا کوئی مجتہد سامنے آجائے تو اسے اجتہاد مطلق سے روکنے کا کیا جواز ہوگا؟

اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ اجتہاد مطلق کا دروازہ کسی نے بند نہیں کیا کہ اسے بند کرنے پر کوئی دلیل تلاش کرنا ضروری ہو۔ بلکہ یہ دروازہ ضرورت مکمل ہو جانے کی وجہ سے خودبخود بند ہوگیا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے علمِ حدیث میں محدثین نے اصول و قواعد وضع کیے، رجال کے حالات جمع کیے اور ان پر نقد و جرح کی۔ اور پھر احادیث کی چھان پھٹک کر کے صحیح، ضعیف اور موضوع احادیث کے درمیان حدِ فاصل قائم کر دی۔ اس عمل کا ایک خاص دور تھا جب پہلے پہل اس کی ضرورت پیش آئی تھی تب اکابر محدثین نے محنت و مشقت کے ساتھ اس ضرورت کو پورا کر دیا تھا۔ اب قیامت تک جتنے محدثین بھی آئیں گے وہ اصول و قواعد اور راویوں کی چھان پھٹک کے حوالے سے سابقہ محدثین کے کام سے ہی استفادہ کریں گے۔ اور پہلے سے مکمل ہو جانے والے علمی کام سے ہٹ کر نئے سرے سے اصول و قواعد کی ترتیب اور راویوں کے حالات جمع کرنے کے تکلف میں کوئی نہیں پڑے گا۔

یہ ہو سکتا ہے کہ کسی حدیث کے درجہ کے تعین میں کسی نئے محدث کی رائے پہلوں سے مختلف ہو جائے۔ لیکن جن اصول و ضوابط اور راویوں کے حالات کی بنیاد پر وہ مختلف رائے اختیار کرے گا وہ سابقہ محدثین کے جمع کردہ ہی ہوں گے۔ آج کے دور میں احادیث کی تخریج اور ذخیرۂ احادیث کی چھان پھٹک کے حوالے سے جو وسیع اور قابل قدر کام ہو رہا ہے اس کی بنیاد اسی اصول پر ہے۔ اور کہیں سے بھی یہ سوال نہیں اٹھ رہا کہ احادیث کی صحت و ضعف اور راویوں پر جرح و تعدیل کے جو قاعدے اور ضابطے امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام ترمذیؒ، امام نسائیؒ، امام ابن ماجہؒ، امام طحاویؒ اور دیگر محدثین نے وضع کیے ہیں، اور راویوں کے حالات جو امام ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ جیسے اصحابِ علم نے جمع کیے ہیں ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اور آج اگر اس درجے کا کوئی محدث پیدا ہو جائے تو اسے یہ حق تو حاصل ہوگا کہ وہ اپنے قواعد و ضوابط خود طے کرے، راویوں کے حالات بھی نئے سرے سے جمع کرے، اور پھر اس کی روشنی میں احادیث کی صحت و ضعف کے فیصلے کرے۔ لیکن ایسا کوئی بھی نہیں کرے گا اور اگر کسی کو یہ شوق ہو جائے تو وہ اپنی ’’دماغی صحت‘‘ کے بارے میں لوگوں کی دعائیں اور ہمدردیاں حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پائے گا۔

سوال کرنے والے بعض دوست ایک میڈیکل کالج سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے اگر انہی کی زبان میں بات کی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ میڈیکل سائنس کا موضوع کسی بھی جاندار کا ’’جسمانی ڈھانچہ‘‘ ہے جس پر تحقیق و ریسرچ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا۔ لیکن کچھ بنیادی اصول ہیں جو پہلے سے طے شدہ ہیں۔ مثلاً انسانی جسم کے مختلف اعضا کا کیا کام ہے اور وہ کس طریقہ سے اپنا کام سر انجام دیتے ہیں۔ اس کے بارے میں بنیادی معلومات پہلے سے موجود ہیں اور اس کا کریڈٹ انہی لوگوں کو جاتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے جسمانی اعضا کے ان فرائض کی تشریح کی ہے۔ یہ کام ایک بار ہو چکا ہے اور اسے بار بار سر انجام دینا دانشمندی نہیں ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی اس کا دعوے دار ہے۔ ضمنی تشریحات اور جزوی تبدیلیوں کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے مگر جسمانی ڈھانچہ کے کسی بھی عضو کا بنیادی کام اور فنکشن متعین ہو چکا ہے اور اسے ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی کوئی تجویز اصحابِ فن کے ہاں پذیرائی حاصل نہیں کر سکے گی۔

ایک اور مثال بھی اس سلسلہ میں سامنے رکھ لیجیے۔ ہر زبان میں گرائمر کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ عربی زبان کے بھی قواعد و ضوابط ہیں جنہیں ہم دینی مدارس میں پڑھاتے ہیں اور ان کی بنیاد پر قرآن و حدیث کی تشریح کرتے ہیں۔ یہ قواعد و ضوابط پہلے سے طے شدہ ہیں جن کا اعزاز صرف انہی لوگوں کو حاصل ہے جنہوں نے سب سے پہلے یہ وضع کیے ہیں۔ مثلاً عربی زبان کا ایک بنیادی قاعدہ ہے کہ فاعل مرفوع ہوتا ہے، مفعول منصوب ہوتا ہے، اور مضاف الیہ مجرور ہوتا ہے۔ یہ قاعدہ سب سے پہلے جس نحوی امام نے بیان کیا تھا آج تک لوگ اسی کی پیروی کر رہے ہیں اور قیامت تک اسی کی پیروی کریں گے۔ کوئی صاحب خواہ وہ کتنے بڑے امام فن ہوں کبھی اس کے دعوے دار نہیں ہوں گے کہ چونکہ میں بھی اس فن کا امام ہوں اور فن میں ترقی کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا، اس لیے میں ان قواعد کی نئے سرے سے تشکیل کا حق استعمال کرتا ہوں اور پہلے سے چلے آنے والے نحوی ضابطے سے مختلف ضابطہ طے کرتا ہوں۔ اور نہ ہی کوئی صاحب یہ سوال اٹھائیں گے کہ چونکہ نحو کے اس قاعدہ کی بنیاد پر قرآن و حدیث کے الفاظ کی تشریح کی جاتی ہے اس لیے اس قاعدے کے حق میں قرآن و حدیث سے کوئی دلیل لائی جائے۔

اس سلسلہ میں ایک اور دوست کا مراسلہ ’’اوصاف‘‘ میں شائع ہوا ہے جس میں زیادہ تر تو غصہ کا ہی اظہار کیا گیا ہے، البتہ ایک بات غلط فہمی پر مبنی ہے جس کا ازالہ ضروری سمجھتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ لوگوں نے اماموں اور فقہوں کے نام پر الگ الگ فرقے بنا لیے ہیں، اور فقہ کی وجہ سے مسلمانوں میں فرقہ بندی ہو گئی ہے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فقہ کی بنیاد پر کبھی کوئی فرقہ نہیں بنا۔ فرقے عقائد میں اختلاف کی وجہ سے قائم ہوتے ہیں، اور عقائد کی بحث فقہ کے موضوع سے ہی خارج ہے۔ عقائد کا تعلق علمِ کلام سے ہے، اس کے امام الگ ہیں اور اس کا دائرہ فقہ سے بالکل مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چار بڑی فقہوں کے پیروکار مثلاً حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی سب کے سب عقائد کے لحاظ سے ایک ہی فرقہ اہلِ سنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں عقائد کے باب میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

فقہ کا تعلق احکام و مسائل سے ہے، اور ان میں فرق سے فقہی مکاتبِ فکر وجود میں آتے ہیں، فرقے نہیں بنتے۔ اس لیے یہ غلط فہمی ذہن سے نکال دینی چاہیے کہ فقہی اختلافات فرقہ بندی کا باعث بنتے ہیں، کیونکہ جب حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی اپنے عقائد کے لحاظ سے الگ الگ فرقے نہیں ہیں بلکہ سب اہلِ سنت ہیں، تو اور کون سا فرقہ اس بنیاد پر قائم ہو سکتا ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter