قادیانیوں کی درپردہ مہم

   
۲۴ اپریل ۲۰۰۸ء

اخباری اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں ہزاروں مسلمانوں نے صدارتی محل کے باہر مظاہرہ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں قادیانیوں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ اس سے قبل ایک حکومتی پینل کی طرف سے بھی یہ تجویز آ چکی ہے کہ خلافِ اسلام عقائد کی وجہ سے قادیانیوں پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ جبکہ قادیانی جماعت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ انہیں دوسری کمیونٹیز کی طرح انڈونیشیا کے دستور کے مطابق تحفظ حاصل ہے، لیکن مسلم اکثریت کے ممالک میں انہیں اس سلسلہ میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

قادیانی اس سال دنیا بھر میں اپنے مذہب کی صد سالہ تقریبات منانے میں مصروف ہیں، اس حوالہ سے کہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو قادیانی مذہب کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کا لاہور میں انتقال ہو گیا تھا اور اس کے بعد قادیانی مذہب کو ایک صدی مکمل ہو گئی ہے۔ قادیانیوں کی یہ صد سالہ تقریبات دنیا کے مختلف حصوں میں منعقد کی جا رہی ہیں اور انہیں یہ شکوہ ہے کہ پاکستان میں ان کی سرگرمیوں پر پابندی کی وجہ سے انہیں پاکستان میں ایسی تقریبات منعقد کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔

جہاں تک قادیانیوں کے مذہب کے ایک سو سال مکمل ہونے کا تعلق ہے، یہ بات تاریخی طور پر درست ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نئی نبوت اور نئی وحی کے دعوے کے ساتھ ایک نئے مذہب کی داغ بیل ڈالی تھی اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے اسی بنیاد پر قادیانیت کو اسلام سے الگ، بلکہ اس کے انحراف پر مبنی ایک نیا مذہب قرار دے کر اس سے لاتعلقی کا واضح اعلان کر دیا تھا، اسے ایک صدی کا عرصہ بیت گیا ہے۔ لیکن قادیانی گروہ اس بات کو جس طرح اپنی سچائی کی دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے وہ نہ صرف غلط، بلکہ مضحکہ خیز بات ہے۔ اس لیے کہ کسی مذہب پر سو سال کا عرصہ گزر جانا اور اس کے پیروکاروں کا دنیا میں اتنے عرصے کے بعد بھی موجود ہونا اس کی صداقت اور حقانیت کی دلیل نہیں بن جاتا، ورنہ بہاء اللہ ایرانی کے ایجاد کردہ بہائی مذہب کی عمر قادیانیت سے زیادہ ہے اور اس کے پیروکار بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود ہیں اور سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ بلکہ بلوچستان میں ذکری فرقہ کی تاریخ تو اس سے بھی زیادہ پرانی ہے، جس کے بانی ملا محمد اٹکی نے غلام احمد قادیانی اور بہاء اللہ ایرانی کی طرح ہی مہدی ہونے کے دعوے کے ساتھ اپنے مذہب کا آغاز کیا تھا اور پھر نبوت اور وحی کا خود ساختہ مقام حاصل کر کے اپنے اردگرد پیروکاروں کا اچھا خاصا ہجوم اکٹھا کر لیا تھا، جو کم و بیش چار صدیاں گزرنے کے باوجود اب بھی موجود ہیں اور اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

صد سالہ تقریبات کے نام پر اپنے پیروکاروں کو نفسیاتی تسلی دینے کی کوشش کر کے قادیانی امت کے راہنما اپنے عزائم میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے، اس لیے کہ ان کی تمام تر کوششوں اور ان کے مغربی آقاؤں کے تمام تر دباؤ کے باوجود دنیا کے کسی بھی حصے کے مسلمان قادیانیوں کو اپنے وجود کا حصہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی مستقبل میں اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ قادیانیوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ نئی نبوت اور نئی وحی کے دعوے کے باوجود انہیں مسلمانوں کا حصہ سمجھا جائے اور مسلمانوں کے داخلی فرقوں کی طرح قادیانیت کو بھی ایک مسلمان فرقے کے طور پر قبول کر لیا جائے۔ ان کی اس کوشش کو ہر دور میں مغربی استعمار کی مکمل پشت پناہی حاصل رہی ہے اور اس وقت بھی مغربی ممالک اور بین الاقوامی لابیوں کا حکومتِ پاکستان سے یہ مطالبہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا دستوری فیصلہ واپس لیا جائے اور یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ پاکستان کی نومنتخب قومی اسمبلی سے کسی حیلے بہانے کے ساتھ اس نوعیت کا کوئی فیصلہ اسی سال لینے کی کوشش کی جائے۔

ہماری معلومات کے مطابق اس سلسلہ میں پیپر ورک ہو رہا ہے اور مغربی ممالک کے سفارت خانے اس کے لیے لابنگ کر رہے ہیں، لیکن کیا ایسی کوئی کوشش کامیاب ہو جائے گی؟ تمام تر بین الاقوامی دباؤ اور اندرون خانہ سازشوں کے باوجود اس سوال کا جواب اثبات میں دینا آسان نہیں ہے اور قادیانی گروہ کے ترجمان نے اسی پریشانی کا مذکورہ بالا بیان میں اظہار کیا ہے۔ قادیانی گروہ کے قائدین نے جن پریشانیوں اور دشواریوں کا ذکر کیا ہے ہمیں اس سے کوئی انکار نہیں ہے، لیکن یہ پریشانیاں اور دشواریاں خود ان کی اپنی پیدا کردہ ہیں اور اس کا علاج بھی انہی کے پاس ہے۔ وہ اپنے ہی دعوے اور عمل کے منطقی نتائج کو قبول کرنے سے انکار کرتے رہیں گے اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپنے کو تسلیم کرانے کی ضد نہیں چھوڑیں گے تو ان پریشانیوں سے آخر کس طرح نجات حاصل کر سکیں گے؟ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا نبی ہے، اس پر باقاعدہ وحی بھی آتی ہے اور اس نبوت اور وحی پر ایمان نہ لانے والے دنیا بھر کے مسلمان کافر ہیں، تو اس صورت میں قادیانیوں کا خود کو مسلمانوں کے حصہ اور ایک مسلمان فرقہ کے طور پر پیش کرنے اور دنیا سے اپنی اس خود ساختہ حیثیت کو ہر حال میں تسلیم کرانے کے موقف کو آخر کس منطق اور دلیل سے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور جب دنیا بھر کے مسلمان متفقہ طور پر قادیانیوں کو ملتِ اسلامیہ سے الگ ایک جداگانہ مذہب قرار دے کر اس مذہب سے لاتعلقی اور برأت کا اعلان کرتے ہیں، تو ان کے موقف کو غلط قرار دینے اور قادیانیوں کو بہرصورت مسلمان فرقہ تسلیم کرانے کی مہم کا کیا جواز ہے؟

ان معروضی حقائق سے قطع نظر قادیانی گروہ اس سال دنیا بھر میں صد سالہ تقریبات میں مگن ہے اور اس کے راہ نماؤں کو یہ امید ہے کہ وہ اسی سال پاکستان میں اپنے خلاف پارلیمنٹ کے دستوری فیصلے کو تبدیل کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس پس منظر میں دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے صدارتی محل کے باہر ہزاروں مسلمانوں کا مظاہرہ اور ان کی طرف سے قادیانیوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ ایک اچھی خبر ہے، جسے اس سلسلہ میں مسلمانوں کی بیداری کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک انڈونیشیا میں قادیانیوں کا مضبوط نیٹ ورک موجود تھا، قومی سیاست میں ان کا مؤثر کردار تھا اور پارلیمنٹ میں انہیں نمائندگی بھی حاصل تھی، حتیٰ کہ قادیانیوں کے سابق سربراہ مرزا طاہر احمد نے چند سال قبل انڈونیشیا کی پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا تھا اور قادیانی یہ توقع کیے ہوئے تھے کہ شاید وہ انڈونیشیا جیسے مسلم ملک میں اقتدار تک مؤثر رسائی حاصل کر سکیں گے، لیکن ان کی سرگرمیوں پر پابندی کے عوامی مطالبہ اور اس کے لیے ہزاروں مسلمانوں کے پرجوش مظاہرہ سے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک میں بھی قادیانیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں بیداری پیدا ہو رہی ہے، جو خوش آئند ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں تحفظ عقیدۂ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والے ادارے اور جماعتیں بھی متحرک ہوں اور انڈونیشیا کی تحریکِ ختم نبوت کو سپورٹ مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلہ میں دستوری اور قانونی فیصلوں کو تبدیل کرانے کی درپردہ مہم پر نظر رکھیں، تاکہ قادیانی گروہ مسلمانوں کے متفقہ عقیدہ اور تحریک ختم نبوت کی کامیابیوں پر شب خون مارنے کی کسی کوشش کو پروان نہ چڑھا سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter