سن ہجری کے چودہ سو پچیسویں سال کا آغاز ہو گیا ہے اور ہمارے ہاں عام حلقوں میں جو مشہور تھا، بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھ بھی دیا تھا کہ چودھویں صدی ہجری آخری صدی ہو گی اور اس کے بعد کوئی اور صدی نہیں ہے، زمانہ اس کو کراس کرتے ہوئے ربع صدی آگے بڑھ چکا ہے۔ ہمارے مذہبی حلقوں میں ہجری سن کے پہلے ماہ کا آغاز شہادت کے تذکرے سے ہوتا ہے اور خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تذکرے سے نیا سال شروع کرتے ہوئے نواسۂ رسول حضرت امام حسینؓ اور ان کے خاندان کی شہادت کی یاد زبانوں پر آنے لگتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خسر تھے، معتمد اور جاں نثار ساتھی تھے اور اسلام کے غلبہ و اظہار کے نقیب تھے، جبکہ حضرت امام حسینؓ جگر گوشہ رسولؐ تھے، خاندان نبویؐ کی روایات کے امین تھے اور ایثار و قربانی کی درخشاں علامت بنے۔
حضرت عمرؓ نے جب اسلام قبول کیا تو اسلام کا قافلہ ابھی سفر کی ابتدائی حالت میں تھا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے چند رفقاء مکہ والوں کے مظالم کا ہدف تھے، ایذا رسانی کی انتہا ہو چکی تھی اور ایذا دینے والوں میں خود حضرت عمر بن الخطاب سرفہرست تھے، حتیٰ کہ ایک روز وہ تلوار اٹھائے اس ارادے سے گھر سے نکلے کہ آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (نعوذ باللہ) سر قلم کر کے قصہ ہی نمٹا دوں گا، مگر تقدیر کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ گھر سے نکلے تو یہی عزم تھا، مگر گھر واپس آنے سے قبل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سر تسلیم خم کر چکے تھے۔
احادیث میں ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے حضرت عمرؓ کو خود مانگا تھا۔ مکہ مکرمہ میں ابوجہل اور عمر بن الخطاب جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بڑے جری، بہادر اور دلیر دشمن تھے، جنہوں نے مٹھی بھر مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ ایزدی میں ہاتھ اٹھا کر التجا کی کہ مولا کریم! ان دونوں میں سے ایک کو مجھے دے دے۔ دعا قبول ہوئی اور عمر بن الخطابؓ کا انتخاب ہو گیا، جو اسلام قبول کر کے اس شان سے آگے بڑھتے گئے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد ملت اسلامیہ کی تیسری بڑی شخصیت شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں تو نمایاں خدمات اور کارنامے سرانجام دیے ہی تھے، مگر مسلمانوں کا دوسرا خلیفہ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے ایک عادل حکمران کے طور پر جو روایات قائم کیں، انہوں نے حضرت عمرؓ کو نسل انسانی کے چند مثالی عادل حکمرانوں کی صف میں کھڑا کر دیا اور آج تک ان کے عدل و انصاف کو تاریخ میں سنہری حروف میں یاد کیا جاتا ہے۔
حضرت عمرؓ اسلامی ویلفیئر سٹیٹ کے مدون نظام کے بانی تھے، ان کے اقدامات کو آج بھی آئیڈیل سمجھا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں برطانیہ کے ریاستی نظام کو ویلفیئر سٹیٹ کا نمونہ تصور کیا جاتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جناب جسٹس افتخار حسین چیمہ کے بقول برطانوی ویلفیئر سٹیٹ کا نظام مرتب کرنے والے دانشوروں کا یہ اعتراف تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہوں نے اس نظام کا خاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت سے لیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب ڈاکٹر رفیق احمد کے مشاہدے کے مطابق ناروے میں بچوں کو دیا جانے والا ایک الاؤنس آج بھی ”عمر الاؤنس“ کے نام سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یاد کو تازہ رکھے ہوئے ہے۔
ہم ہر سال محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے نام سے ان کی یاد مناتے ہیں، جلسے کیے جاتے ہیں، مذاکرے ہوتے ہیں، اخبارات کے خصوصی ایڈیشن شائع ہوتے ہیں اور حضرت عمرؓ کے فضائل و مناقب کا محبت و عقیدت کے ساتھ تذکرہ ہوتا ہے، لیکن ہم ہر سال یہ بات بھول جاتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی اسی رفاہی ریاست اور ویلفیئر سٹیٹ کو دنیا کے نقشے پر ایک بار پھر لانے کے لیے ہم نے پاکستان کے نام سے ایک نیا ملک بنایا تھا اور اسلام کے رفاہی نظام کو زندہ کرنے کے بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ لیکن نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ہمارے قدم اس سمت آگے نہیں بڑھے، بلکہ ریورس گیئر کے ساتھ مسلسل پیچھے کی طرف لڑھکتے چلے جا رہے ہیں۔
حضرت امام حسینؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پرورش پائی اور حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی پاکیزہ تربیت سے بہرہ ور ہوئے۔ ان دونوں بھائیوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے نوجوانوں کا سردار بتایا اور فرمایا کہ یہ میرے گلشن کے دو خوبصورت پھول ہیں۔ ان کی یاد بھی محرم کی دس تاریخ کو ان کی شہادت کے حوالے سے منائی جاتی ہے، جب وہ کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر اپنے خاندان کے معصوم بچوں سمیت جام شہادت نوش کر گئے۔ یاد منانے کا انداز اپنا اپنا اور الگ الگ ہے، لیکن کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے جس کا دل حضرت حسینؓ کی یاد اور محبت سے خالی ہو اور ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ اہل بیتؓ سے محبت کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی علامت قرار دیا ہے، اس کے بغیر نہ کسی کا ایمان مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی باقی رہتا ہے۔
حضرت امام حسینؓ اور شہدائے کربلا کی یاد اس حوالے سے منائی جاتی ہے کہ انہوں نے حق کی خاطر جان دی، اصولوں کی خاطر قربانی دی اور عدل و انصاف کا اعلیٰ معیار برقرار رکھنے کے لیے اپنی اور خاندان کی معصوم جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔ وہ مظلومیت کی علامت ہیں، اصول و انصاف کی اعلیٰ اقدار کا عنوان ہیں اور ایثار و قربانی کی عظمتوں کا اظہار ہیں۔ لیکن آج انہیں یاد کرتے ہوئے بھی ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اصول اور بے اصولی کی جنگ میں ہمارا وزن کس پلڑے میں ہے اور ظالم و مظلوم کی کشمکش میں ہم کس کے ساتھی ہیں؟
آج کی دنیا میں بھی اصول اور بے اصولی کے درمیان معرکہ بپا ہے، ظالم اور مظلوم ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہیں اور اہلیت اور نااہلیت کے درمیان یہ محاذ آرائی شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر دیکھیں، قومی سطح کے منظر پر نظر ڈالیں یا مقامی اور علاقائی ماحول کا جائزہ لیں، ہر جگہ مظلوم پس رہا ہے، استحصال جاری ہے، طاقت کی حکمرانی ہے، ڈنڈے کی حکومت ہے، نااہلیت کا تسلط ہے، ناحق کی اجارہ داری ہے، جبر و تشدد کا بازار گرم ہے، لوٹ کھسوٹ کا دور دورہ ہے اور ظلم و ناانصافی کا پرچم بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنے محلے میں، برادری میں، جماعت میں، طبقے میں، شہر میں، علاقے میں، ملک میں، خطے میں اور عالمی سطح پر دنیا میں روز مرہ ان سے واسطہ پڑتا ہے، مگر ہم خاموشی کے ساتھ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، برداشت کر رہے ہیں اور اس پورے سسٹم کے ساتھ ہماری ”ایڈجسٹمنٹ“ قائم ہے، جاری ہے اور مضبوط ہو رہی ہے۔
اس پس منظر میں امام حسینؓ کی مظلومیت کو، ان کی شہادت کو، ان کی قربانی کو، اصول اور انصاف کی خاطر ان کے موقف کو، ان کے مشن کو اور بدعنوانی و نااہلیت کے خلاف ان کے مضبوط موقف کو یاد کرتے ہوئے، دہراتے ہوئے اور اس ایثار و قربانی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی ہمارا خیال اپنے دامن کی طرف نہیں جاتا کہ ہم نے اس میں کیا کچھ بھر رکھا ہے اور روز مرہ معمولات و مصروفیات ہماری توجہ اس طرف نہیں کھینچ پاتے کہ ان میں حسینیت اور یزیدیت کا تناسب کیا ہے؟ اصول کے حوالے سے، مشن کے حوالے سے، موقف کے حوالے سے اور کردار کے حوالے سے آج ہر سطح پر حسین اور یزید کی جو کشمش موجود ہے، نظر آ رہی ہے اور ہم خود اس کا حصہ ہیں، اس میں ہم خود کس کیمپ میں کھڑے ہیں؟ کوفے والوں سے ایک بات منسوب ہے کہ ہمارے دل حسینؓ کے ساتھ ہیں، لیکن تلواریں یزید کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں۔ ان کی طرف اس قول کی نسبت درست ہے یا نہیں، مگر ہمارا حال آج یہی ہے کہ دل میں حسینؓ کی یاد ہے اور ہماری تلواریں یزید کا ساتھ دے رہی ہیں۔
اسلام کے ان دو عظیم سپوتوں حضرت فاروق اعظمؓ اور حضرت امام حسینؓ کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے، ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اور ان کی عظیم شہادتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے اور اپنے عمل و کردار پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے کہ جن کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں اور جن کے ساتھ محبت و عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں، ان کے عمل و کردار اور موقف و مشن کے ساتھ بھی ہمارا کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ ان عظیم شہداء کا ہمارے لیے یہی پیغام ہے۔ خدا کرے کہ ہم اس طرف بھی کوئی توجہ دے سکیں۔