۶ تا ۱۰ اپریل پانچ روز کراچی میں قیام رہا اور مختلف دینی اداروں میں حاضری کے علاوہ معہد الخلیل الاسلامی کے زیر اہتمام ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کے حوالہ سے سات کے لگ بھگ محاضرات میں گفتگو کا موقع ملا جن کا عنوان اگرچہ دروس کا تھا مگر وہ زیادہ تر حجۃ اللہ البالغۃ کے بعض مضامین کے بارے میں میرے تاثرات و محسوسات اور تعبیرات پر مشتمل تھے۔ مولانا محمد یحیٰی مدنی اور مولانا محمد مدنی کی توجہ اور محنت سے علماء کرام اور اساتذہ کی بڑی تعداد شریک تھی اور انہوں نے بہت دلچسپی کے ساتھ میری گزارشات کو سنا جس سے اطمینان ہوا کہ حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و فلسفہ کو آج کے دور میں نئے انداز اور اسلوب میں پیش کرنے کی جو بات ہم ایک عرصہ سے کرتے آرہے ہیں وہ بے فائدہ نہیں ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت کا احساس ملک کے علمی اور دینی حلقوں میں بڑھتا جا رہا ہے۔
بہت سے دوستوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ یہ سلسلہ مستقل طور پر اور ترتیب کے ساتھ ہونا چاہیے جس کی آسان صورت یہ نظر آتی ہے کہ ’’آن لائن‘‘ ہفتہ وار کلاس کی کوئی صورت بنا لی جائے۔ اس پر محترم ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن کے ہاں ایک مشاورتی نشست ہوئی جس میں ان کے والد گرامی حضرت مولانا سید فضل الرحمٰن شاہ، مولانا محمد یحیٰی مدنی، مولانا ڈاکٹر محمد اسحاق عالم کے علاوہ ہماری بڑی ہمشیرہ محترمہ کے نواسے حافظ انعام الحق اسامہ بھی شریک تھے جو جامعۃ الرشید میں زیر تعلیم ہیں اور ایسے علمی و فکری کاموں کا ذوق و جذبہ رکھتے ہیں۔ میں نے اس موقع پر عرض کیا کہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اس سلسلہ میں مشاورت پہلے سے چل رہی ہے اور عزیزم ڈاکٹر عمار خان ناصر سلّمہ بھی اسی دائرہ میں ’’ابن خلدون ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘‘ کے نام سے کوئی پروگرام ترتیب دے رہے ہیں، اس لیے میں کراچی کے بزرگوں کی اس تجویز کو تائید غیبی سمجھتا ہوں، امید ہے کہ ہم جلد ہی سب دوستوں کی مشاورت کے ساتھ اگلے تعلیمی سال کے لیے کوئی جامع پروگرام ترتیب دے کر رمضان المبارک سے قبل اس کا اعلان کر سکیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
معہد الخلیل الاسلامی کے پروگرام میں ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ پر محاضرات کی تعداد آٹھ تھی مگر میں نے آخری نشست کو بین الاقوامی معاہدات کے تعارف کے لیے مخصوص کر دیا اور علماء و اساتذہ کی بڑی تعداد کی موجودگی کو غنیمت سمجھتے ہوئے انہیں ان میں سے بعض معاہدات کی تفصیلات اور عالمی تہذیبی ماحول بالخصوص عالم اسلام کے دینی و ثقافتی معاملات میں ان کی دخل اندازی کے طریق کار اور اثرات سے آگاہ کیا۔ میں نے گزارش کی کہ دیگر بہت سے امور کے علاوہ:
- سزائے موت کے مکمل خاتمہ،
- مرد اور عورت میں مکمل مساوات کے عنوان سے عورت کو طلاق کا مساوی حق دینے،
- ناموس رسالتؐ کے تحفظ اور توہین مذہب پر سزا کے قوانین کو ختم کرنے،
- اور قادیانیوں کو ہر حال میں مسلم امہ کا حصہ تسلیم کرانے
کے لیے ہر طرف سے جو دباؤ بڑھ رہا ہے، اس کی بڑی وجہ یہی بین الاقوامی معاہدات ہیں۔ جبکہ اس بارے میں عالمی سطح پر بین الاقوامی ماحول میں امت مسلمہ کا موقف پیش کر کے اس کے لیے لابنگ کرنے اور عالمی رائے عامہ کو اس کے لیے ہموار کرنے کا کوئی فورم ہمارے پاس موجود نہیں ہے، جس پر سنجیدگی کے ساتھ اس کے لیے کام کیا جا سکے اور بین الاقوامی اداروں میں ملت اسلامیہ کا کیس صحیح طور پر پیش کیا جا سکے۔ حتٰی کہ خود ہمارے اپنے علمی، فکری اور دینی حلقوں میں اس سے آگاہی کا ماحول مفقود ہے۔ بہت سے دوستوں نے میری اس گزارش سے اتفاق کیا کہ اس سلسلہ میں دینی مدارس و مراکز اور عصری جامعات اور کالجوں میں آگاہی اور بیداری کے لیے منظم محنت کی ضرورت ہے۔ خدا کرے کہ ہم اس حوالہ سے عملی پیشرفت کی کوئی صورت نکال سکیں، آمین یا رب العالمین۔
اس سفر میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی خدمت میں حاضری اور ان کے ساتھ گزشتہ دنوں پیش آنے والے سانحہ عظمٰی پر اپنے جذبات و احساسات ان کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ تھا مگر معلوم ہوا کہ وہ بیرون ملک ہیں اور جلد واپسی کا پروگرام نہیں ہے۔ اس لیے جامعہ دارالعلوم میں حاضری تو ہوئی مگر ان سے ملاقات نہ ہو سکی، البتہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی خدمت میں حاضری اور اپنے جذبات و احساسات ان کے سامنے پیش کرنے کا موقع مل گیا اور ان کے ساتھ مولانا ڈاکٹر محمد زبیر اشرف، مولانا راحت ہاشمی اور مولانا اعجاز صمدانی سے بھی ملاقات ہوئی، حسن اتفاق سے اس موقع پر تحریک خدام اہل سنت پاکستان کے امیر مولانا قاضی ظہور الحسن اظہر مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی اور دیگر رفقاء کے ہمراہ تشریف لے آئے اور حضرت مفتی صاحب کے ساتھ ہماری اکٹھی ملاقات ہوئی۔ ہم نے مذکورہ سانحہ میں شہید ہونے والے حضرات کے ساتھ جامعہ دارالعلوم کے ایک طالب علم مولوی محمد حارث منصوری کی وفات پر بھی تعزیت کی جو گزشتہ روز ترمذی شریف کے امتحان کی تیاری کرتے ہوئے وفات پا گیا تھا۔ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور ان کے اہل خانہ کے محفوظ رہنے کو اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و انعام قرار دیتے ہوئے اس پر اطمینان کا اظہار کیا اور حضرت مفتی صاحب کے ساتھ ان سب کے لیے دعا میں شریک ہوئے۔ میں نے اس موقع پر عرض کیا کہ جامعہ دارالعلوم ہماری محبتوں اور عقیدتوں کا مرکز بھی ہے اور راہنمائی کا سرچشمہ بھی ہے جہاں سے ہم ہمیشہ استفادہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع دیوبندیؒ کے اس علمی گلشن کو ہمیشہ آباد رکھیں اور ہر قسم کی آزمائشوں سے اس کی حفاظت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔