امارت اسلامی افغانستان کا خاتمہ اور نئی افغان حکومت کے رجحانات

   
تاریخ : 
۱۱ دسمبر ۲۰۰۱ء

کابل پر امارت اسلامی افغانستان کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ سنبھالنے والے شمالی اتحاد کے وزیر انصاف نے ابھی سے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ طالبان کے سخت قوانین ختم کر دیے جائیں گے اور کسی کو ہاتھ کاٹنے، سنگسار کرنے، اور کوڑے مارنے کی سزا آئندہ نہیں دی جائے گی بلکہ صدر داؤد خان کے دور کے قوانین واپس لائے جائیں گے جن کے بارے میں ایک قومی اخبار نے یکم دسمبر کو یہ خبر شائع کی ہے کہ کابل کے ایک پچیس سالہ شخص نے بتایا ہے کہ اسے طالبان حکومت نے اس جرم میں ایک سال قید کی سزا دی تھی کہ اس نے گرل فرینڈ رکھی ہوئی تھی جبکہ صدر داؤد خان کے دور میں اسے جرم تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کابل کی نئی حکومت کے رجحانات کیا ہیں اور طالبان حکومت نے شرعی نظام کے نفاذ کو جہاد افغانستان کا منطقی تقاضا قرار دیتے ہوئے اس کی طرف جو پیش رفت کی تھی اسے کابل کی نئی حکومت کس حد تک جاری رکھنے کے لیے تیار ہوگی؟

جہاں تک شرعی قوانین کے نفاذ کو جہاد افغانستان کا منطقی تقاضا قرار دینے کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ روسی استعمار کے خلاف جہاد کا اعلان ہی اس بنیاد پر ہوا تھا کہ کمیونزم کا کافرانہ نظام نافذ ہوگیا ہے اور اسے ختم کر کے شرعی نظام کا نفاذ مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اگر اب بھی افغانستان میں صدر داؤد کے دور کے قوانین نے ہی واپس آنا ہے تو سرے سے اس جنگ کی شرعی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے جو جنگ کمیونسٹ نظام کے خاتمہ کے لیے ’’جہاد افغانستان‘‘ کے نام سے لڑی گئی تھی اور جس میں موجودہ شمالی اتحاد میں شامل اہم راہنما بھی پیش پیش تھے۔ باقی رہی یہ بات کہ طالبان نے جو قوانین نافذ کیے تھے وہ سخت ہیں تو ان کی سختی اپنی جگہ مگر انہیں ’’طالبان کے قوانین‘‘ قرار دے کر مسترد کرنا کسی ایسے شخص یا گروہ کو زیب نہیں دیتا جو مسلمان کہلاتا ہے اور قرآن کریم پر ایمان کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس لیے کہ سنگسار کرنے، کوڑے مارنے، اور ہاتھ کاٹنے کی سزائیں طالبان کی تجویز کردہ نہیں بلکہ قرآن کریم نے ان کی صراحت کی ہے اور یہ سزائیں قرآن کریم میں بدستور موجود ہیں۔

گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ’’انسانی حقوق کمیٹی‘‘ نے ایک قرارداد میں ایران کو بھی وارننگ دی ہے کہ وہ سنگسار کرنے، کوڑے مارنے، ہاتھ کاٹنے اور سرعام سزا دینے کے قوانین تبدیل کرے۔ شاید اسی لیے افغانستان میں شمالی اتحاد کے وزیر انصاف کو اقوام متحدہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پیشگی یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت ملک میں طالبان کے نافذ کردہ شرعی قوانین کا تسلسل جاری نہیں رکھے گی۔

ہم ایک عرصہ سے عرض کر رہے ہیں کہ افغانستان کے حوالہ سے امریکی ایجنڈے کی سب سے اہم شق طالبان کی اسلامی حکومت کو ختم کرنا تھا کیونکہ یہ دنیا کی واحد مسلم حکومت تھی جو اسلام کا صرف نام نہیں لیتی تھی بلکہ اس نے سوسائٹی میں قرآن و سنت کے بیان کردہ قوانین کو من و عن نافذ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا اور وہ اس میں کس قسم کی لچک اختیار کرنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں تھی۔ طالبان حکومت کی بعض تعبیرات یا ترجیحات سے اختلاف ہو سکتا ہے اور خود ہم نے بھی متعدد بار طالبان حکومت کے بعض ذمہ دار حضرات سے ان تعبیرات و ترجیحات کے حوالہ سے بات کی ہے اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن تعبیرات و ترجیحات کا فرق اور چیز ہے اور سرے سے ان قوانین کو ہی ’’طالبان کے سخت قوانین‘‘ قرار دے کر مسترد کر دینا اس سے بالکل مختلف بات ہے۔ اور مغرب دراصل یہی چاہتا ہے کہ ’’وحشیانہ سزائیں‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ کے نام سے شرعی قوانین کے خلاف وسیع تر معاندانہ پراپیگنڈا کر کے، نیز عسکری قوت اور معاشی دباؤ کے ذریعے انہیں اس بات کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ شریعت کے ان احکام و قوانین سے دستبردار ہو جائیں جو مغرب کے عالمی نظام سے مطابقت نہیں رکھتے اور جن کی موجودگی میں مسلمان معاشرہ کو مغربی ثقافت کے دائرہ میں لانا ممکن نہیں ہے۔

مغرب اور اس کے ہمنواؤں کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہ سب قوانین قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ مذکور ہیں جو چودہ سو برس سے بالکل محفوظ حالت میں مسلمانوں کے پاس نہ صرف موجود ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اس حفاظ و قراء مسلسل اس کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں اور وہ اتنے اہتمام کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا ہے کہ اس کے کسی لفظ یا جملے کو آگے پیچھے کرنا یا اس کے بیان کردہ کسی قانون اور ضابطے کو نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ مثلاً مذہب کے نام پر اور مذہب کے تحفظ کے لیے جنگ کو مغرب کے ہاں ’’دہشت گردی‘‘ سمجھا جاتا ہے اور امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف موجودہ عالمی جنگ کا مقصد صرف یہی ہے کہ دنیا بھر کے ان لوگوں کو ختم کیا جائے جو مذہبی جذبہ کے ساتھ مذہب کے فروغ یا تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھاتے ہیں۔ جبکہ اسلام میں یہ جنگ ’’جہاد‘‘ کہلاتی ہے اور اس پر قرآن کریم کی سینکڑوں آیات موجود ہیں جو پوری صراحت کے ساتھ جہاد کے احکام و قوانین بیان کرتی ہیں اور مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب دیتی ہیں۔ مگر قرآن کریم نے جہاد کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ سب کچھ مغربی فلسفہ کی رو سے انتہا پسندی اور دہشت گردی شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم اور سنت نبویؐ نے چور کا ہاتھ کاٹنے، زانی کو سنگسار کرنے، جھوٹی تہمت لگانے والے کو کوڑے مارنے، قاتل کو قصاص میں قتل کرنے، ڈاکو کے ہاتھ پاؤں کاٹنے، او رمجرم کو سرعام سزا دینے کے احکام دیے ہیں جو مغربی فلسفہ کی رو سے وحشیانہ سزائیں کہلاتی ہیں۔

چنانچہ اب یہ بات دو اور دو چار کی طرح واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور، جنرل اسمبلی کی قراردادوں، مغربی لابیوں کے مطالبات، اور امریکہ کی دھونس کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کو قرآن و سنت کے احکام سے دستبرداری پر مجبور کیا جائے اور ’’انسانی حقوق کے چارٹر‘‘ کی پابندی کے نام پر انہیں مغربی تہذیب و ثقافت کے دائرہ میں لایا جائے۔ یہ مہم آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے جاری ہے جب بہت سے مسلم ممالک پر برطانوی، فرانسیسی اور پرتگیزی استعمار نے قبضہ کر کے وہاں صدیوں سے چلے آنے والے شرعی قوانین کو ختم کر دیا تھا اور مختلف حیلوں بہانوں سے مسلمانوں کو یہ سمجھانا شروع کیا تھا کہ اب ان قوانین کا دور نہیں رہا، زمانہ بہت ترقی کر چکا، سائنس نے بہت سے نئے حقائق دریافت کیے ہیں اور ٹیکنالوجی بہت آگے بڑھ گئی ہے، اس لیے خاندان اور معاشرہ کے حوالہ سے ان قوانین کے لیے دنیا میں اب کوئی جگہ نہیں رہی جو قرآن و سنت میں بیان کیے گئے ہیں۔

اس مقصد کے لیے خود مسلمانوں میں بہت سے ایسے فکری حلقے کھڑے کیے گئے جنہوں نے قرآنی احکام و قوانین کی من مانی تشریح کر کے مسلمانوں کو مغربی فکر و فلسفہ کے سامنے سر جھکانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ مگر مسلم ممالک کے حکمران گروہوں اور ان کے ساتھ ایک محدود مغرب زدہ طبقہ کے علاوہ کسی نے اس بات کو قبول نہیں کیا۔ آج بھی دنیا کے ہر خطے میں عام مسلمانوں کی اکثریت اپنے اس ایمان و یقین پر قائم ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو قیامت تک نافذ العمل رہے گی اور اس کی تعبیر و تشریح صرف وہی قبول ہوگی جو خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے جو کہ سیرت و سنت اور حدیث کے ذخیرہ میں پوری طرح موجود و محفوظ ہے۔

چنانچہ ان قوانین کو طالبان کے قوانین یا ایرانی حکومت کے قوانین کا نام دینے یا دہشت گردی اور وحشیانہ سزائیں قرار دینے کی اس نئی عالمی مہم کا نتیجہ بھی پہلے سے مختلف نہیں ہوگا۔ دنیا بھر کا عام مسلمان قرآن و سنت پر دوٹوک ایمان اور ان کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ رکھتا ہے، اسے امریکی بمباری اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعہ قرآن و سنت کے صریح احکام سے دستبردار کرانے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter