عامر چیمہ شہیدؒ

   
۱۷ مئی ۲۰۰۶ء

عامر چیمہ شہید کو اس کے آبائی گاؤں ساروکی چیمہ تحصیل وزیر آباد میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ جنازے کے وقت کو آخر تک ابہام میں رکھا گیا اور پوری کوشش کی گئی کہ عوام کو نماز جنازہ کے پروگرام کی کوئی کنفرم اطلاع نہ مل سکے، اس کے باوجود عوام کے جم غفیر نے شہید کے جنازے میں شرکت کی۔ میری خواہش بھی جنازے میں شرکت کی تھی مگر اطلاعات متضاد تھیں، بعض اخبارات اور ایک ٹی وی چینل نے شام ۴ بجے کی خبر دی تھی مگر فون پر ساروکی سے اطلاع ملی کہ نماز جنازہ دس بجے کے لگ بھگ ادا کی جائے گی۔ مجھے اس روز ظہر کی نماز میر پور آزاد کشمیر کے جامعۃ العلوم الاسلامیہ میں ادا کرنا تھی جہاں ہمارے ایک عزیز شاگرد حافظ نوید ساجد (فاضل نصرۃ العلوم )کا نماز ظہر کے فوراً بعد نکاح تھا، اس کے بعد مدرسۃ البنات میں خواتین کے اجتماع سے خطاب تھا۔ میں برادرم مولانا حافظ محمد ریاض سواتی کے ہمراہ گوجرانوالہ سے روانہ ہوا تو خیال تھا کہ نماز جنازہ میں شرکت کر کے میرپور وقت پر پہنچ جائیں گے لیکن جب پورے گیارہ بجے وزیر آباد کے بائی پاس روڈ پر ساروکی چیمہ موڑ کے پاس پہنچے اور فون پر ساروکی رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ میت ابھی تک نہیں پہنچی اور کوئی حتمی اطلاع نہیں ہے کہ کس وقت پہنچے گی، اس لیے ہم با دل نخواستہ آگے روانہ ہو گئے۔

عامر چیمہ شہید نے ایک گستاخ رسول ایڈیٹر پر حملہ کر کے جرمن پولیس کی حراست میں جس طرح جام شہادت نوش کیا ہے اور اس کی شہادت پر پاکستان اور جرمنی کی حکومتوں نے جو طر ز عمل اختیار کر رکھا ہے اس سے کئی سوال لوگوں کے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں اور ان کا کھلے بندوں اظہار بھی ہو رہا ہے۔ جہاں تک ایک جرمن ایڈیٹر پر عامر چیمہ کے قاتلانہ حملے کے بعد اس کی گرفتاری کا تعلق تھا یہا ں تک کوئی الجھن کی بات نہیں تھی، اس لیے کہ یہ جرمنی کی پولیس اور حکومت کا حق تھا کہ ان کے ایک شہری پر حملہ کرنے والے شخص کو وہ گرفتار کریں اور اس پر اپنے قانون کے مطابق مقدمہ چلائیں۔ آگے عامر چیمہ اور اس کے پشت پناہوں کا کام تھا کہ وہ عدالت میں اس الزام کا کس طرح سامنا کرتے ہیں اور کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔ لیکن جرمن پولیس کی حراست میں عامر چیمہ کی پر اسرار موت نے صورتحال کو خاصا پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اگرچہ پاکستان اور جرمنی کی حکومتیں اس پیچیدگی اور سنگینی کو چھپانے کی پوری کوشش کر رہی ہیں لیکن یہ کوشش زیادہ دیر تک کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی، اس لیے کہ عالمی سطح پر یہ سوال اٹھ رہا ہے اور بین الاقوامی حلقوں میں جرمن پولیس کا یہ موقف مسلسل ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے کہ جرمن پولیس کی حراست کے دوران عامر چیمہ نے بقول جرمن پولیس آخر خودکشی کیسے کر لی؟ خود کشی کا یہ موقف بجائے خود محل نظر ہے اس لیے کہ اگر اس نوجوان کو خودکشی کرنا ہوتی تو پھر وہ جرمن ایڈیٹر پر حملے کا قدم ہی نہ اٹھاتا۔

اس معاملے میں مسلمانوں کے جذبات اور نفسیات دوسری اقوام سے قطعی طور پر مختلف ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی مسلمان نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے حوالے سے کوئی قدم اٹھایا ہے تو پھر اس کا طرز عمل معذرت خواہی اور مایوسی کا نہیں بلکہ والہانہ شیفتگی اور جاں سپاری کا رہا ہے، اس لیے ایسے کسی شخص سے خود کشی جیسے مایوس کن فعل کی کسی طرح توقع نہیں کی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ عامر چیمہ شہید کے والد محترم اور پاکستان کی دینی قیادت سمیت کوئی بھی سنجیدہ شخص خودکشی کے اس موقف کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک بھر بلکہ دنیائے اسلام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ عامر چیمہ شہید جرمن پولیس کی حراست کے دوران تشدد سے جاں بحق ہوا ہے اور اس پر پردہ ڈالنے کے لیے جرمن پولیس نے خودکشی کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔

اس پر مجھے دورِ نبویؐ کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے جو امام بخاریؒ نے بخاری شریف میں مختلف مقاما ت پر روایت کیا ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ اس واقعہ کا ہیرو بھی عامر نامی ایک نوجوان صحابی تھا جس نے خود اپنی ہی تلوار کے وار سے شہادت پائی اور اس کے بارے میں مشہور کر دیا گیا تھا کہ اس نے خود کشی کی ہے مگر جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تردید فرما کر اس کے شہید ہونے کا اعلان فرمایا ۔ یہ نوجوان عامر بن الا کوعؓ تھے جو اپنے بڑے بھائی حضرت سلمہ بن الاکوعؓ کے ہمراہ غزوۂ خیبر میں شریک تھے۔ بڑے بہادر نوجوان تھے اور اچھے رجز گو شاعر اور حدی خواں تھے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق لشکر خیبر کی طرف بڑ ھ رہا تھا، خود آنحضرتؐ لشکر کی کمان کر رہے تھے کہ دوران سفر کسی صحابیؓ نے عامرؓ سے فرمائش کی کہ وہ انہیں جنگی ترانہ سنائے، جسے اس دور میں رجز کہا جاتا تھا یا حدی خوانی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ عامرؓ نے اس کی فرمائش پر حدی خوانی شروع کر دی جو رجزیہ اشعار پر مشتمل تھی۔ حضورؐ تک آواز پہنچی تو دریافت فرمایا کہ یہ کون ہے؟ساتھیوں نے بتایا کہ یہ عامرؓ ہے جو لوگوں کی فرمائش پر حدی گا رہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ روایت میں ہے کہ جناب رسول اکرمؐ اگر اپنے کسی ساتھی کے بارے میں یہ جملہ فرماتے تھے تو اس کا عام طور پر یہ مطلب سمجھا جاتا تھا کہ یہ شخص اب شہادت سے ہمکنار ہو گا اور سیدھا جنت میں جائے گا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے جناب نبی اکرمؐ سے عامرؓ کے بارے میں یہ جملہ سن کر حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ یارسول اللہ! اس کے لیے تو شہادت اور جنت واجب ہو گئی، اگر یہ کچھ دیر اور زندہ رہ جاتا تو ہم اس سے مزید فائدہ اٹھا سکتے تھے ۔

خیبر کے معرکے میں جب لشکر آمنے سامنے ہوئے تو عامرؓ کا سامنا ایک یہودی سے ہوا۔ عامرؓ نے اس پر تلوار کا وار کیا۔ تلوار چھوٹی تھی، وہ یہودی پیچھے ہٹا تو وہی تلوار واپس پلٹ کر عامرؓ کے گھٹنے پر آلگی، زخم کاری ثابت ہوا اور اسی زخم سے عامرؓ کی شہادت واقع ہو گئی۔ عامرؓ کے بڑے بھائی حضرت سلمہ بن الاکوعؓ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ اس پر یہ کہتے تھے کہ عامرؓ نے خود کشی کی ہے اس لیے اس کی ساری نیکیاں برباد ہوگئیں ہیں۔ سلمہؓ فرماتے ہیں کہ غزوۂ خیبر سے واپسی پر مجھے آنحضرتؐ نے پریشان حالت میں دیکھا تو اس کی وجہ دریافت کی۔ میں نے عرض کیا کہ لوگوں کی ان باتوں کی وجہ سے پریشان ہوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ایسا کہنے والے غلط کہتے ہیں، عامرؓ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں دوہرا اجر ملے گا اور اس جیسا مجاہد نوجوان عرب دنیا میں اور کون پیدا ہوا ہوگا۔ سلمہؓ کو حضورؐ کی زبان مبارک سے اپنے بھائی کے بارے میں یہ جملے سن کر تسلی ہوئی اور ان کی پریشانی دور ہوئی۔

عامر چیمہ کی شہادت کن حالات میں ہوئی ہے اس کے بارے میں تو غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے ہی کچھ معلوم ہو سکتا ہے جو جرمن حکومت اور پاکستان حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے۔ جرمن حکومت کی اس لیے کہ اس کی پولیس کی حراست کے دوران ایک غیر ملکی جاں بحق ہوا ہے اور پاکستانی حکومت کی اس لیے کہ اس کا ایک شہری دوسرے ملک میں وہاں کی پولیس کی حراست میں شہید ہوگیا ہے۔ ناموس رسالت کے مسئلہ سے قطع نظر عام حالات میں بھی یہ کیس اس طرح نظر انداز کر نے یا اس طرح دبانے کا نہیں ہے جس کی دونوں حکومتیں کوشش کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ جبکہ تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے اس کی اہمیت کئی گنا مزید بڑھ جاتی ہے کہ اس نوجوان کے ساتھ صرف پاکستان کے عوام نہیں بلکہ دنیا بھر کے غیور مسلمانوں کے جذبات بھی وابستہ ہو گئے ہیں۔

جرمن پولیس کی حراست کے دوران عامر چیمہ کی موت کی عملی صورت کیا ہوئی ہوگی، یہ تو تحقیقات کے ذریعے ہی معلوم ہو گا۔ البتہ ایک پرانا واقعہ میرے ذہن کی سکرین پر باربار جھلملا رہا ہے، اسے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا مناسب خیال کر رہا ہوں۔ ۱۹۷۷ء کی پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران کا واقعہ ہے کہ تحریک کو دبانے کے لیے لاہور میں مارشل لاء لگا دیا گیا، اس دوران قومی اتحاد کے دفتر میں غیر قانونی اجلاس منعقد کرنے کے الزام میں اس وقت کی پوری مرکزی کونسل کو گرفتار کر لیا گیا جن میں راقم الحروف شامل تھا۔ جبکہ میاں محمود علی قصوری، اقبال احمد خان، ملک محمد اکبر ساقی اور حضرت مولانا محمد اجمل خان بھی ان گرفتار شدگان میں تھے۔ ہم پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا، یہ عدالت لیفٹیننٹ کرنل نصیر احمد کی سربراہی میں کیمپ جیل میں کم وبیش روزانہ بیٹھتی تھی۔ اس کی کاروائی کے حوالے سے ان کے تھانے کا روزنامچہ زیر بحث تھا، پولیس افسر نے اپنی بات کو پکا کرنے کے لیے یہ جملہ کہہ دیا کہ ہمارے نزدیک تو یہ روزنامچہ قرآن کریم ہی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی زبان سے یہ جملہ نکلتے ہی حضرت مولانا محمد اجمل خان بپھر کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ اس نے پولیس کے روز نامچے کو قرآن کہہ کر قرآن کریم کی بے حرمتی کی ہے اس لیے اس کے خلاف کاروائی کی جائے ۔مولانا محمد اجمل خان کا انداز اس قدر پرجوش اور خطیبانہ تھا کہ عدالت میں کہرام مچ گیا سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور عدالت درہم برہم ہو گئی۔ اس دوران ایک نوجوان نے، جو ملزموں کی صف میں تھا، پوری قوت کے ساتھ اپنا سر سامنے کی دیوار کے ساتھ ٹکرا دیا، دیکھنے والوں کو یوں نظر آیا کہ جیسے اس نوجوان کا سر پھٹ گیا ہوگا اور وہ ابھی زمین پر گر پڑے گا لیکن بچاؤ ہو گیا۔ عدالت برخاست ہو گئی اور اس کے بعد پھر یہ عدالت نہ لگ سکی اس لیے کہ لاہور ہائی کورٹ نے اس مارشل لاء کو ہی دستور کے خلاف قرار دے دیا جس کے تحت یہ عدالت قائم ہوئی تھی۔ اس واقعہ کو یاد کر کے میں سوچا کرتا ہوں کہ وہ نوجوان اس وقت سر ٹکرانے کے اس عمل میں جاں بحق ہو جاتا تو پولیس نے اسے خودکشی ہی کی کاروائی قرار دینا تھا لیکن کیا یہ واقعتاً خود کشی ہوتی؟ امید واثق ہے کہ بالآخر عامر چیمہ کی شہادت کا سراغ بھی مل ہی جائے گا ۔

   
2016ء سے
Flag Counter