روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۲۵ فروری ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ بلوچستان کے پرائمری اسکولوں کے نصاب میں اردو کی کتاب سے ’’حمد باری تعالیٰ‘‘ خارج کر دی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں خبر میں بیان کردہ تفصیلات کے مطابق محکمہ تعلیم کے حکّام کا کہنا ہے کہ انہوں نے نصاب کا جو مسودہ اشاعت کے لیے بھیجا تھا اس میں حمد باری تعالیٰ شامل تھی اور ہمارے ہاں اردو کے نصاب میں حمد باری تعالیٰ ہمیشہ سے شامل چلی آ رہی ہے۔ لیکن نصابی کتابیں عالمی ادارے آئی ایم ایف کے تعاون سے یونیسیف کے زیراہتمام شائع ہو رہی ہیں اور انہوں نے مسودہ سے حمد باری تعالیٰ کو نکال دیا ہے۔
اس پر مختلف اداروں اور تنظیموں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور بعض حضرات نے اسے یونیسیف کی شرارت قرار دیا ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ شرارت نہیں بلکہ پالیسی کا حصہ ہے۔ عالمی ادارے ایک عرصہ سے ایک بات پر زور دے رہے ہیں کہ پرائمری سطح پر پوری دنیا کے لیے یکساں نصاب تعلیم رائج کیا جائے اور تمام ممالک و اقوام کے بچوں کو ایک ہی نصاب پڑھایا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ بنیاد پرستی اور مذہبی عصبیت کے جراثیم اسی عمر میں بچوں کے ذہنوں میں جگہ پکڑتے ہیں، اس لیے مذہبیت اور بنیاد پرستی سے آئندہ نسل کو بچانے کے لیے پرائمری سطح کی تعلیم میں یکسانیت ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ اور اس کے یونیسیف جیسے اداروں کو بطور چھتری اور ڈھال استعمال کیا جا رہا ہے اور ان کے ذریعے اس مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس لیے اگر یونیسف نے بلوچستان کے پرائمری اسکولوں کے نصاب سے حمد باری تعالیٰ کو خارج کیا ہے تو یہ محض اتفاقیہ امر یا شرارت نہیں بلکہ نصابِ تعلیم سے مذہبیت کو خارج کرنے کے کام کا تجرباتی آغاز ہے، جسے تھوڑے بہت احتجاج کے ساتھ ہضم کر لیا گیا تو آئی ایم ایف اور یونیسف کے لیے اگلے مراحل آسان ہو جائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ کا راگ الاپنے والے سیاستدانوں اور اقتدار کے اردگرد منڈلانے والے دینی راہنماؤں کی قوتِ ہاضمہ اس بارے میں کیا کرتب دکھاتی ہے۔