بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی و نسلم علٰی رسولہ الکریم وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین۔ اما بعد:
جناب سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے کے بعد جو ریاستی نظام قائم کیا تھا اور اس نے خلافت راشدہ کے دور میں پورے جزیرۃ العرب کو ایک آئیڈیل اور مثالی ریاست کو حکومت کی صورت میں تبدیل کر دیا تھا، وہ آج دنیا بھر کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے اور دنیا کی ہر قوم کے منصف مزاج دانش وروں نے ہر دور میں اس کا اظہار کیا ہے کہ انسانی معاشرے کو امن و انصاف اور اور خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے لیے حکومت و ریاست کا وہی طرز اور نظام آئیڈیل ہے جو تاریخ کے صفحات میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاء راشدین کے ادوار کی صورت میں موجود ہے۔
چنانچہ جہاں مغربی دنیا میں ویلفیئر اسٹیٹ کے حوالے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فلاحی نظام کو مثالی اور آئیڈیل سمجھا جا رہا ہے، وہاں انڈیا کے مقتدر سیاسی راہنما مہاتما گاندھی کی وہ ہدایات بھی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے جو انہوں نے متحدہ ہندوستان میں برطانوی دور میں پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں بعض صوبوں میں قائم ہونے والی کانگریس کی صوبائی حکومتوں کو جاری کی تھیں کہ اگر وہ عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرنا چاہتے ہیں تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی زندگیوں کا مطالعہ کریں اور ان کے نقشِ قدم کو اپنائیں۔
آج دنیا کو اس نظام اور اس کے اثرات و ثمرات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ مسلم دنیا کے اصحاب علم و دانش دور نبوت و خلافت کو ایک معاشرتی نظام کے طور پر آج کی دنیا کے اسلوب میں سامنے لائیں اور عالم اسلام کے نوجوانوں بالخصوص سیاسی اور سماجی کارکنوں کی راہنمائی کریں۔
مجھے اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً مختلف مجالس میں کچھ نہ کچھ عرض کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے اور زبانی گزارشات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بسا اوقات تحریری صورت میں پیش کرنے کی بھی سعادت حاصل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ سال رواں کے پہلے عشرے کے دوران ملک کے معروف دینی ادارہ "جامعہ انوار القرآن نارتھ کراچی" میں اساتذہ اور طلبہ کی مختلف نشستوں میں "ریاستِ مدینہ اور خلافتِ راشدہ" کے عنوان پر کچھ معروضات پیش کیں، جنہیں ہمارے فاضل ساتھی مولانا محمد سعد سعدی نے ریکارڈنگ کی مدد سے صفحہ قرطاس پر منتقل کر کے زیر نظر کتاب کی صورت میں مرتب کیا ہے، جو ان کے حسنِ ذوق اور مخلصانہ جذبات کی عکاس ہے۔ میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ان کی اس کاوش کو قبولیت و ثمرات سے نواز میں اور ہم سب کے لیے ذخیرہ آخرت بنائیں۔
حسنِ اتفاق سے گزشتہ رمضان المبارک کے دوران مجھے رابطہ عالمِ اسلامی کی دعوت پر ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے مکہ مکرمہ جانے کی سعادت حاصل ہوئی اور اس موقع پر مدینہ منورہ میں جبل احد کے دامن میں امامت و تدریس کی خدمت سر انجام دینے والے اپنے ایک عزیز شاگرد قاری ابوبکر یحیٰی صاحب فاضل جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ہاں تین روز قیام کی ترتیب بن گئی، تو میں نے اس مسودہ پر نظرثانی وہیں کی اور اس طرح ریاست مدینہ پر اپنی گزارشات کے تحریری مجموعے کو مدینہ منورہ میں ہی آخری شکل دینے کا خوب صورت اتفاق ہو گیا۔ جسے میں اس چھوٹی سی خدمت کی قبولیت کی علامت سمجھتا ہوں اور تمام احباب سے اس شرف و سعادت کے تسلسل کے لیے دعاؤں کی درخواست کر رہا ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔