کلہ بہ زئی (واپس کب جاؤ گے؟)

   
یکم فروری ۲۰۰۰ء

محترم میجر (ر) سہیل پرویز نے گزشتہ روز اپنے کالم میں افغان مہاجرین کے حوالہ سے ایک خوبصورت سوال اٹھایا ہے کہ ’’کلہ بہ زئی؟‘‘ (یعنی واپس کب جاؤ گے؟)۔ میجر صاحب کا ارشاد ہے کہ افغان مہاجرین جب روسی جارحیت کا شکار ہونے کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے ان کا خیرمقدم کیا تھا لیکن ان مہاجرین میں ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں آگئے جنہوں نے پاکستان میں جائیدادیں خریدنے اور کاروبار بڑھانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ اور اب یہ لوگ پاکستانی قوم کے لیے وبال جان بنتے جا رہے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اس مبینہ عوامی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ

’’بائیس سال پہلے سرحد پار سے آنے والے اپنے مہمانوں کی آمد پر اگر ہم خوش ہوئے تھے تو للہ اب ہمیں یہ موقع بھی کوئی فراہم کرے کہ ہم ان کی رخصتی پر بھی مسرور ہوں‘‘۔

جہاں تک ہجرت کا تعلق ہے میجر صاحب کو یہ بات یقیناً معلوم ہوگی کہ شرعاً ہجرت کے ساتھ ہی مہاجر کا تعلق اپنے وطن کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ فقہی احکام کی رو سے شرعی ہجرت کی صورت میں اپنے سابقہ مکانوں اور جائیدادوں کے ساتھ ان کا کوئی تعلق باقی نہیں رہ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے رفقاء کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی تو اگرچہ صرف آٹھ برس کے بعد مکہ مکرمہ میں ان کا اقتدار قائم ہوگیا تھا اور وہ فاتح کی حیثیت سے دوبارہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوگئے تھے لیکن جناب رسول اللہؐ سمیت ان مہاجرین میں سے کسی نے مدینہ منورہ کو چھوڑ کر دوبارہ مکہ مکرمہ کو وطن نہیں بنایا تھا اور اپنی ہجرت پر قائم رہے تھے۔ انہیں فتح مکہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی مدینہ منورہ کی آبادی کے ایک حصے کی طرف سے مسلسل یہ طعنے سننے پڑے تھے کہ یہ مہاجرین ہم پر بوجھ بن گئے ہیں اور انہیں اب مدینہ منورہ سے چلے جانا چاہیے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کی صفوں میں شامل ایسے بعض افراد کے طعنوں کا خود قرآن کریم نے بھی تذکرہ کیا ہے۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود رسول اکرمؐ اور ان کے مہاجر ساتھیوں نے مکہ مکرمہ واپس جانا قبول نہیں کیا تھا اور ہجرت کا شرعی مسئلہ بھی یہی ہے۔

اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جو اپنے وطن کے حالات کچھ بہتر ہونے پر واپس چلی گئی ہے ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے ورنہ اگر وہ اڑ جاتے اور ہجرت کے شرعی احکام کا عذر ہمارے سامنے رکھ دیتے تو ہمارے پاس انہیں زبردستی واپس بھیجنے کا کوئی شرعی جواز نہ تھا۔ ہم اصولاً اس بات سے متفق ہیں کہ افغانستان کے حالات سازگار ہونے پر افغان مہاجرین کو وطن واپس لوٹ جانا چاہیے اور ہمارے خیال میں جن علاقوں کے حالات سازگار ہوئے ہیں وہاں کے مہاجرین کی اکثریت واپس جا چکی ہے۔ اور اب صرف ان صوبوں کے لوگ یہاں رہ گئے ہیں جہاں کے حالات ابھی مہاجرین کی واپسی کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ یا ایسے لوگ باقی ہیں جو شروع سے ہی ہجرت کی نیت سے نہیں بلکہ ہجرت کے نام پر مفادات اٹھانے، کاروبار چمکانے، اسلحہ و منشیات کی سمگلنگ کرنے اور گند پھیلانے کے لیے آئے تھے۔ اور ان کے تعلقات یہاں اپنے مزاج اور قماش کے لوگوں سے ہوگئے تھے اس لیے انہیں اپنے مقاصد پورے کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی اور نہ ہی وہ اب وہ یہاں سے واپس جانے کے لیے تیار ہیں کیونکہ ان کے بھائی بند یہاں ہر شعبے میں موجود ہیں اور انہیں پورا تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ اس لیے اگر اس قسم کے مفاد پرست افراد کو یہاں سے نکل جانے کے لیے کہا جائے بلکہ ان کے اخراج کے لیے قانون سازی کا بھی کوئی مرحلہ آئے تو ہم اس کی حمایت کریں گے۔

لیکن ایسا کوئی افغان بھائی جو واقعتاً ہجرت کی نیت سے پاکستان آیا تھا، اس نے یہاں پاکستان کے عوام اور حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بجائے شریف شہری کے طور پر وقت گزارا ہے اور اس کا ریکارڈ درست ہے تو اگر وہ یہاں رہنا چاہتا ہے تو یہ نہ صرف اس کا شرعی حق ہے بلکہ آج کے مروجہ بین الاقوامی قوانین بھی اسے یہ حق دیتے ہیں کہ اتنا عرصہ پاکستان میں شریف اور قانون کا احترام کرنے والے شہری کے طور پر رہنے کے بعد وہ یہاں کی شہرت حاصل کر سکے۔

پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ افغان مہاجرین ہمارے پاس پاکستان میں آنے والے پہلے مہاجرین نہیں ہیں، اس سے قبل مشرقی پنجاب، یوپی، بہار اور مقبوضہ کشمیر کےلاکھوں مہاجرین یہاں آچکے ہیں اور پاکستانی معاشرہ میں ضم ہو کر شریف شہریوں کے طور پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ کاروبار بھی کرتے ہیں، انہوں نے جائیدادیں خرید رکھی ہیں، ان میں سے بہت سے لوگ ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور ان کے کچھ افراد بھی سمگلنگ، لاقانونیت اور دیگر غیر قانونی و غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ کشمیر جلد آزاد ہو اور ہمارے کشمیری بھائی قومی آزادی کی نعمت عظمیٰ سے جلد از جلد سرفراز ہوں، لیکن کیا کشمیر کے آزاد ہو جانے کے بعد پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں کشمیری بھائیوں کے لیے بھی محترم میجر (ر) سہیل پرویز صاحب انہیں وبال جان قرار دیتے ہوئے ان سے سوال کریں گے کہ ’’وہ کب واپس جا رہے ہیں؟‘‘

اس لیے اس حوالہ سے ہمارا موقف یہ ہے کہ ہمارے جو بھی مسلمان بھائی خواہ کشمیری ہوں یا افغان، پاکستان آگئے ہیں اور ہمارے قانون اور اقدار و رواایت کی پابندی قبول کرتے ہیں، انہیں یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ملک کے حالات درست ہونے کے بعد بھی اگر یہاں رہنا چاہیں تو آزادی کے ساتھ رہ سکیں۔

البتہ میجر (ر) سہیل پرویز صاحب کا یہ خوبصورت سوال ’’کلہ بہ زئی؟‘‘ کچھ اور لوگوں کے سامنے پیش کرنے کو جی چاہتا ہے جو دو صدیاں قبل تجارت کے بہانے یہاں آئے تھے اور مسلسل سازشیں کر کے ہماری آزادی اور خودمختاری غصب کرنے کے بعد ہمارے مالک بن بیٹھے تھے۔ انہوں نے ہمارے قانون اور اقدار و روایات کی پابندی کرنے کی بجائے انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اپنا پورا زور صرف کیا اور اپنے نظام و قوانین کو طاقت کے زور سے ہم پر مسلط کر دیا۔ انہوں نے ہماری صنعت و تجارت کے نظام کو تباہ و برباد کر کے اپنی تجارت اور صنعت کا سکہ جمایا، ہمارے وسائل اور دولت کی وحشیانہ لوٹ مار کر کے اپنی تجوریاں بھریں اور ہمیں اپنے ہی ملک میں خود اپنے وسائل اور دولت سے براہ راست اور آزادانہ استفادہ کرنے کے حق سے محروم کر دیا۔ انہوں نے جب یہ سمجھا کہ اب ان کا خود یہاں زیادہ دیر رہنا ممکن نہیں رہا تو اپنی جگہ اپنی ’’پونگ‘‘ کو ہماری گردنوں پر سوار کر دیا جو پیر تسمہ پا بن کر ہمارے کندھوں مسلط ہے۔ اور اس کی راہنمائی اور نگرانی و کنٹرول کے لیے بدیشی آقاؤں کی ایک پوری فوج ظفر موج سفارت کاروں، اقتصادی مشیروں، این جی اوز، فنی ماہرین اور دانشوروں کی شکل میں ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے۔ ان کا ہمارے ساتھ اعتقادی، فکری، تہذیبی یا جغرافیائی کسی لحاظ سے کوئی رشتہ نہیں ہے لیکن وہ زبردستی ہمارے مہمان بلکہ وی وی آئی پی مہمان بنے بیٹھے ہیں۔ اس لیے جی چاہتا ہے کہ راقم الحروف اور محترم میجر (ر) سہیل پرویز مل کر ایک مشترکہ کالم لکھیں جس میں زبردستی کے اس ’’مہمان وبال جان‘‘ کی چیرہ دستیوں اور ستم ظریفیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس سے یہ سوال کیا جائے کہ ’’کلہ بہ زئی؟‘‘ واپس کب جاؤ گے؟

   
2016ء سے
Flag Counter