ڈیرہ اسماعیل خان کا ایک سفر

   
۸ اکتوبر ۲۰۱۰ء

کئی برسوں کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان جانے کا اتفاق ہوا۔ جمعیت علماء اسلام کے دو سرگرم راہ نماؤں مولانا قاضی عبد اللطیفؒ اور خواجہ محمد زاہد شہیدؒ کی وفات پر تعزیت کے لیے جانا تھا۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی اور مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر کے ساتھ طے پایا کہ ۲۴ ستمبر کو نماز جمعہ سے فارغ ہو کر سفر شروع کیا جائے۔ عزیزم حافظ محمد زبیر جمیل بھی ہمراہ تھے۔ ہماری پہلی منزل خانقاہ سراجیہ تھی، راستے میں جوہر آباد کے ایک مدرسے میں مختصر قیام کر کے رات دس بجے کے لگ بھگ خانقاہ شریف پہنچے، صبح نماز فجر کے بعد خانقاہ سراجیہ کے معمولات میں شرکت ہوئی اور یہ دیکھ کر بے حد اطمینان ہوا کہ خانقاہ شریف کے قدیمی معمولات بدستور جاری ہیں۔ ذکر و اذکار کے اس منظر نے کم و بیش چالیس سال پہلے کی ایک حاضری کی یاد تازہ کر دی، جب ایک رات خانقاہ میں بسر کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا اور نماز فجر کے بعد ذکر و اذکار کا اسی قسم کا ماحول روح کی بالیدگی کا باعث بنا تھا۔ حضرت صاحبزادہ خلیل احمد صاحب سے ملاقات ہوئی اور ناشتے کے بعد ہم آگے روانہ ہو گئے۔

ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا قاری عبد الحفیظ محمدی ہمارے ساتھ قافلے میں شامل ہو گئے، جو ہمارے پرانے دوست اور رفیق کار مولانا عبد العزیز محمدیؒ کے فرزند و جانشین ہیں اور اسلامیہ کالونی میں ان کی جگہ مسجد و مدرسے کا نظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ مولانا عبد العزیز محمدیؒ پاکستان شریعت کونسل کے صوبائی ذمہ دار تھے اور مولانا عبد الحفیظ محمدی اس روایت کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

ظہر سے قبل ہم کلاچی پہنچے۔ حضرت مولانا قاضی عبد الکریم صاحب دامت برکاتہم کی زیارت کی اور ان سے ان کے بھائی مولانا قاضی عبد اللطیفؒ اور بیٹے مولانا قاضی عبد الحلیمؒ کی وفات پر تعزیت کی۔ مولانا قاضی عبد اللطیفؒ کے ساتھ میری طویل جماعتی رفاقت رہی ہے۔ مگر یہ بات یہاں آ کر مختلف واقعات کو کریدتے ہوئے معلوم ہوئی کہ وہ بھی دارالعلوم دیوبند میں میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ دورۂ حدیث میں شریک تھے اور کرک بنوں کے مولانا صدر الشہیدؒ نے بھی ان کے ساتھ ہی دورۂ حدیث کیا تھا۔

علاقے میں اس خاندان کی علمی وجاہت اور مرجعیت معروف ہے اور فقر و درویشی کی روایت بھی قائم ہے۔ سادہ سی مسجد کے ساتھ کچے مکانات ان کا مسکن ہیں اور پورا خاندان قناعت اور درویشی کے ماحول میں دینی خدمات میں مصروف ہے۔ مولانا قاضی عبد اللطیفؒ چھ سال تک سینیٹر رہے ہیں، جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے تھے اور صوبہ خیبر پختون خواہ میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے دوران صوبائی متحدہ مجلس عمل کے صدر تھے، مگر ان کی رہائش گاہ وہی سادہ سی تھی جو ان مراحل سے گزرنے سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ ہم ان کے حجرے میں، جو ان کی لائبریری بھی تھی اور نشست گاہ بھی، بیٹھے ہوئے تھے اور میری نظریں بار بار ان کی کچی دیواروں اور کانوں کی چھت کا طواف کر رہی تھیں کہ کیا پاکستان میں کسی سینیٹر کا چوکیدار بھی اس قسم کے مکان میں رہتا ہو گا؟

بہرحال دو تین گھنٹے اس ماحول میں گزار کر ڈیرہ اسماعیل خان واپس پہنچے تو پہلی خبر یہ ملی کہ یہاں شہر کی حدود میں موبائل فون کی سروس ایک عرصہ سے معطل ہے، اس لیے کل دوپہر تک اس سہولت سے محروم ہی رہنا ہو گا۔ مغرب کے بعد پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام علماء کرام کی ایک بھرپور نشست مسجد امان، اسلامیہ کالونی میں ہوئی، جس سے مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر اور مولانا عبد الحفیظ محمدی کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر بہت سے پرانے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور جامعہ نصرۃ العلوم کے دو قدیمی فضلاء مولانا احمد شعیب اور مولانا محمد عبد اللہ کی زیارت بھی ہو گئی۔

اتوار کے روز دن کا آغاز مسجد امان میں درس قرآن کریم سے ہوا اور مدرسہ اسلامیہ امتیہ للبنات میں طالبات کو بخاری شریف کا اختتامی سبق پڑھانے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ مدرسہ مولانا عبد العزیز محمدیؒ کی والدہ محترمہ نے ۱۹۶۶ء میں باقاعدہ طور پر شروع کیا تھا اور غالباً صوبہ خیبر پختون خواہ میں طالبات کا قدیم ترین باقاعدہ مدرسہ ہے۔ اس بزرگ خاتون نے حضرت مولانا عبد الحق دامانیؒ، حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ، حضرت مولانا صالح محمدؒ اور اپنے والد گرامی مولانا قاری محمد نوازؒ سے دینی تعلیم حاصل کی اور زندگی بھر تعلیم و تدریس کو اپنا شعار بنا لیا۔ پہلے غیر رسمی طور پر گھر میں طالبات کو تعلیم دیتی رہیں، پھر ۱۹۶۶ء میں مکان کرائے پر لے کر باقاعدہ مدرسہ بنایا، جو اب تک قائم ہے اور اس سال مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی تعداد تیرہ سو سے زائد بتائی جاتی ہے۔ دورہ حدیث بھی ہوتا ہے، جبکہ طالبات سب کی سب غیر رہائشی ہیں، صبح آ کر دوپہر کے بعد واپس گھروں میں چلی جاتی ہیں اور مدرسہ کے تعارفی بورڈ پر باقاعدہ تحریر ہے کہ زکوٰۃ اور صدقات واجبہ اس مدرسہ میں وصول نہیں کیے جاتے، اس لیے کہ ان کا یہاں کوئی مصرف نہیں ہے۔ یہ بزرگ خاتون ابھی حیات ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت و سلامتی کے ساتھ تادیر اپنے اس گلشن کی سرپرستی کی توفیق دیں، آمین۔

اس کے بعد عازمینِ حج کے ایک بھرپور تربیتی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا اور کچھ گزارشات پیش کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ پھر ہم مدرسہ نعمانیہ میں حاضر ہوئے، جو ڈیرہ اسماعیل خان کی قدیم ترین دینی درسگاہ ہے۔ حضرت مولانا علاء الدین مدظلہ دارالعلوم دیوبند کے پرانے فضلاء میں سے ہیں، انہوں نے اپنے بھائی حضرت مولانا سراج الدینؒ کے ساتھ مل کر ایک عرصہ تک مدرسہ نعمانیہ میں دینی اور تعلیمی خدمات سرانجام دی ہیں اور مدرسہ کے بہت سے فضلاء علاقہ بھر میں دینی تعلیمی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اب حضرت مولانا سراج الدینؒ کے فرزندان گرامی خلیل احمد سراج اور مولانا احمد علی سراج نے ”جامعہ سراج العلوم“ کے نام سے ایک الگ دینی درسگاہ قائم کر رکھی ہے، جو کئی برسوں سے تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ مدرسہ نعمانیہ میں ایک عرصہ تک میری مسلسل حاضری ہوتی رہی ہے اور حضرت مولانا علاء الدین مدظلہ اور حضرت مولانا سراج الدینؒ کی شفقتوں اور دعاؤں کا فیض حاصل کرتا رہا ہوں۔

اس کے بعد ہم خواجہ محمد زاہد شہیدؒ کے گھر حاضر ہوئے اور ان کی شہادت پر اہل خانہ سے تعزیت کی۔ خواجہ محمد زاہد شہیدؒ جمعیت علماء اسلام کے بہت پرانے راہنماؤں میں تھے اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے معتمد ترین رفیقِ کار رہے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام میں ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور میرے ذاتی دوستوں میں سے تھے۔ ان کے ایک فرزند نے جامعہ نصرۃ العلوم میں دورۂ حدیث کیا ہے اور اب تحصیل خطیب کے طور پر ڈیرہ اسماعیل خان میں مصروفِ خدمت ہیں۔ اس سے قبل ناشتہ ہم نے شیخ محمد ایاز شہیدؒ کے گھر میں کیا اور ان کے اہل خاندان سے تعزیت کی۔ خواجہ محمد زاہد شہیدؒ اور شیخ محمد ایاز شہیدؒ گزشتہ ضمنی انتخابات کے دوران بم دھماکے میں جام شہادت نوش کر گئے تھے۔

ڈیرہ اسماعیل خان سے واپسی سے قبل ہم نے جامعہ سراج العلوم میں حاضری دی اور مولانا قاری خلیل احمد سراج سے ان کے بھائی کی شہادت پر تعزیت و دعا کے علاوہ جمعیت علماء اسلام کے چند دوستوں سے ملاقات بھی ہو گئی، جو تحصیل جمعیت کے اجلاس کے حوالے سے وہاں جمع تھے۔ اس دوران ہمارا جی چاہا کہ مولانا نور محمؒد کی شہادت پر تعزیت کے لیے اگر وانا حاضری ہو سکے تو پروگرام بنا لیا جائے، مگر حالات کی نامساعدت کے باعث دوستوں کے مشورہ پر ارادہ ترک کر دیا اور یہ حسرت لے کر ڈیرہ اسماعیل خان سے سرگودھا کی طرف روانہ ہو گئے۔ مگر اس دو روزہ تعزیتی سفر سے فارغ ہو کر ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی حدود سے نکلے ہی تھے کہ موبائل فون سروس بحال ہونے پر پہلی خبر یہ ملی کہ وفاقی شرعی عدالت کے جج جناب جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ انتقال کر گئے ہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ہمارے ملک کی معروف دینی اور علمی شخصیت تھے۔ حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کے علمی خاندان سے ان کا ددھیال اور ننھیال کا تعلق تھا۔ انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ علوم اسلامیہ، بنوری ٹاؤن کراچی میں حاصل کی اور دورۂ حدیث دارالعلوم تعلیم القرآن، راجہ بازار راولپنڈی میں حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ سے کیا۔ دینی اور عصری علوم پر یکساں عبور رکھتے تھے اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں مختلف مناصب پر سالہا سال تک خدمات سرانجام دیتے رہے۔ میرے ذاتی دوستوں میں سے تھے اور دینی، تعلیمی اور فکری مسائل میں ہماری مسلسل رفاقت و مشاورت رہی ہے۔ اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter