مذاکرات کے سائے میں

   
۲۷ مئی ۱۹۷۷ء

بھٹو صاحب ریفرنڈم کے طمطراقانہ اعلان، قومی اسمبلی سے آئین میں ترمیم کی منظوری، اور قومی اسمبلی کے دوبارہ انتخابات کو یکسر مسترد کر دینے کے بعد ایک روز اچانک تین وفاقی وزراء کے ساتھ سہالہ پہونچے اور ’’قومی اتحاد‘‘ کے سربراہ مولانا مفتی محمود سے ازسرنو مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ اس گفتگو کے نتیجے میں سردار عبد القیوم رہا ہوئے اور قومی اتحاد کے دیگر رہنماؤں سے انہوں نے مختلف جیلوں میں جا کر نئی صورتحال کے بارے میں گفت و شنید کی اور انہیں مفتی صاحب کا پیغام پہنچایا۔

ہم ان مذاکرات کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے اور ان کی کامیابی کے لیے تہ دل سے دعاگو ہیں، لیکن ان مذاکرات کے سائے میں قومی اتحاد کے مرکزی قائدین اور مرکزی کونسل کے اسیر ارکان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس کے ضمن میں ضرور کچھ گزارش کریں گے۔

پاکستان قومی اتحاد کے مرکزی قائدین سردار شیر باز خان مزاری، مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفور احمد کو میانوالی، گڑھی خیرو اور دادو میں جن جگہوں میں نظر بند رکھا گیا ہے وہ سی کلاس کے معیار کی بھی نہیں ہیں، اور قومی سطح کے ان سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور انہیں جس طرح ذہنی اذیت دی جا رہی ہے وہ از حد افسوسناک ہے۔ اسی رویہ کے پیش نظر سردار شیر باز خان مزاری جیسے سنجیدہ اور بردبار رہنماؤں کو میانوالی جیل میں پانچ روز تک بھوک ہڑتال کرنا پڑی۔

علاوہ ازیں قومی اتحاد کی پوری مرکزی کونسل کو ۵ مئی کو قومی اتحاد کے مرکزی دفتر ڈیوس روڈ لاہور سے گرفتار کر لیا گیا، اور ان میں سے بیشتر ارکان جن میں مولانا اجمل خان جیسے علیل بزرگ بھی شامل ہیں، کیمپ جیل میں سی کلاس میں رکھا گیا ہے۔ اور مسلسل عوامی مطالبات کے باوجود مرکزی کونسل کے ارکان کو اے کلاس دینے سے احتراز کیا جا رہا ہے۔

ہم صرف اتنا عرض کریں گے کہ قومی اتحاد کے مرکزی قائدین اور مرکزی کونسل کے ارکان کو جیلوں میں بند رکھنے اور انہیں ان کی سیاسی حیثیت کے مطابق مقام و سلوک سے محروم کرنے سے سیاسی فضا مذاکرات کے لیے آخر کس طرح خوشگوار ہو سکتی ہے۔ کیا حکومتی حلقے مسئلہ کے اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت فرمائیں گے؟

   
2016ء سے
Flag Counter