مولانا فضل الرحمٰن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ دینی جماعتوں کے متحدہ سیاسی محاذ ایم ایم اے کو قائم رکھنے اور دوبارہ متحرک بنانے کے لیے تمام جماعتوں سے رابطے کریں گے اور متحدہ مجلس عمل کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی جائے گی، جبکہ قاضی حسین احمد صاحب ابھی گومگو کی کیفیت میں نظر آتے ہیں اور ان کے بعض بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ متحدہ مجلس عمل کی بجائے دینی جماعتوں کے کسی نئے اتحاد کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔
ہم اس سے قبل ان کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل کے پانچ سالہ دورِ حکومت اور اس دوران وفاقی سطح پر قومی سیاست میں اس کے کردار کے بارے میں ہم بھی بہت سے تحفظات رکھتے ہیں، جن میں سے بعض کا ہم اس کالم میں اظہار کر چکے ہیں اور بہت سے امور پر گفتگو کی ضرورت باقی ہے اور ہماری خواہش ہے کہ متحدہ مجلس عمل کا دائرہ ہو، جمعیت علماء اسلام کا سیاسی کردار ہو یا جماعت اسلامی کا سیاسی طرز عمل ہو، گزشتہ پانچ سالہ دور کے حوالے سے ان تینوں پہلوؤں پر کھلے بندوں تبادلہ خیالات ہونا چاہیے اور نہ صرف ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اربابِ علم و دانش کو کھلے دل سے اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بات کرنی چاہیے، بلکہ وہ حضرات جو ان جماعتوں میں شامل نہیں ہیں، لیکن ان کے مقاصد سے اتفاق اور ہمدردی رکھتے ہیں، انہیں بھی اس عمومی مشاورت میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جب تک حالیہ الیکشن میں ایم ایم اے کی پسپائی کے اسباب و عوامل کا پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ جائزہ نہیں لیا جائے گا اور ان کی نشاندہی کر کے انہیں دور کرنے کی سنجیدگی کے ساتھ محنت نہیں کی جائے گی، اس وقت تک نہ متحدہ مجلس عمل اپنا کردار صحیح طور پر ادا کر سکے گی، نہ جمعیت علماء اسلام اپنی سیاسی صف بندی درست کر سکے گی اور نہ ہی جماعت اسلامی کی سیاسی ترجیحات کی صحیح درجہ بندی ممکن ہو گی۔
اس لیے کہ مسئلہ صرف جمعیت علماء اسلام یا جماعت اسلامی کے سیاسی کردار اور قومی سیاست میں ان کے مقام و مرتبہ کا نہیں ہے۔ اگر صرف اتنی بات ہوتی تو ہم بڑے آرام سے یہ کہہ کر کنارہ کشی پر قناعت کر لیتے کہ یہ ان جماعتوں کا آپس کا معاملہ ہے یا ان کا داخلی مسئلہ ہے اور وہ اپنے اپنے نفع و نقصان کو ہم سے بہتر سمجھتی ہیں، لیکن بدقسمتی اور سوءِ اتفاق سے قومی سیاست میں دینی جماعتوں کا مجموعی کردار اور دینی اقدار و روایات کے خلاف مغرب کی منظم ثقافتی و فکری یلغار کے مقابلہ میں دینی محاذ کا مستقبل بھی ان دو جماعتوں کے طرز عمل سے وابستہ ہو گیا ہے اور ان دونوں کی اب تک صورت حال یہ ہے کہ یہ نہ ایک دوسرے کے ساتھ چلنے میں مخلص اور سنجیدہ ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا دینی محاذ قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی سیاست اور انتخابی جدوجہد کو چھیڑے بغیر کوئی دینی محاذ خالصتاً علمی و فکری بنیاد پر وجود میں لانے کی کوشش ہوتی ہے تو یہ اسے بھی قومی سیاست میں دینی نمائندگی کے حوالے سے اپنے لیے چیلنج قرار دیتے ہوئے اسے روکنے کے لیے متحرک ہو جاتی ہیں اور ان دونوں جماعتوں کے اسی طرز عمل اور اندازِ سیاست کا نتیجہ ہم سب آج دیکھ رہے ہیں، بلکہ بھگت رہے ہیں۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود ہم متحدہ مجلس عمل کو باقی دیکھنا چاہتے ہیں اور اصلاح احوال کی مخلصانہ مساعی کے ساتھ اسے قومی سیاست میں دوبارہ متحرک دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ خدا کرے کہ مولانا فضل الرحمٰن اور قاضی حسین احمد بھی معاملات کو اس رخ سے دیکھنے کی زحمت کر لیں، کیونکہ اصل معاملہ ان دو شخصیتوں پر ہی موقوف ہے۔
اس پس منظر میں مولانا فضل الرحمٰن پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ وفاق کی سطح پر قائم ہونے والے حکمران اتحاد میں شامل ہوئے ہیں اور نئی حکومت میں شمولیت کی تیاری کر رہے ہیں۔ قریبی حلقوں کے مطابق حکمران اتحاد میں شمولیت کے لیے انہوں نے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین کے سامنے یہ شرائط اور ترجیحات رکھی ہیں کہ
- اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں قانون سازی کی جائے۔
- قرآن و سنت کے منافی بنائے جانے والے قوانین کی اصلاح کی جائے۔
- آزاد خارجہ پالیسی اختیار کی جائے، جس کی اولین ترجیح افغانستان کے مسئلہ کا حل اور اتحادی افواج کا وہاں سے انخلاء ہو، اور اس کے ساتھ پڑوسی ممالک سے دوستانہ، مسلم ممالک سے برادرانہ اور عالمی برادری سے مساویانہ تعلقات کو بنیاد بنایا جائے۔
- صوبائی خود مختاری کی دستور کے مطابق ضمانت دی جائے، ضلعی حکومتوں کو صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں شامل کیا جائے اور صوبوں کو گیس، بجلی وغیرہ کی رائیلٹی دی جائے۔
- میڈیا کو آزادی دی جائے اور میڈیا اپنا ضابطہ اخلاق خود طے کرے۔
- عدلیہ کو بحال کیا جائے اور دستور کے مطابق اس کی بالادستی کو قبول کیا جائے۔
- بلوچستان اور قبائلی و شمالی علاقہ جات سے فوجی آپریشن ختم کر کے فوجوں کو واپس بلایا جائے۔
- گرفتار شدہ سیاسی کارکنوں اور وکلاء کو رہا کیا جائے۔
- سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق اسلام آباد کے جامعہ حفصہ کو دوبارہ تعمیر کیا جائے اور جامعہ فریدیہ کی تعلیمی سرگرمیاں حسبِ سابق بحال کی جائیں، نیز لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کو رہا کیا جائے۔
ان مقاصد کے لیے مولانا فضل الرحمٰن نے وفاقی حکومت میں شامل ہونے اور حکمران اتحاد کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے تو ان سے کسی درجہ میں بھی اختلاف نہیں کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ اپنی اس نئی سیاسی پالیسی کے ذریعہ ان مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ پوری قوم کی طرف سے شکریہ کے مستحق بھی ہوں گے اور مبارک باد کے حقدار بھی کہلائیں گے، لیکن کیا موجودہ صف بندی میں موجودہ پوزیشن کے ساتھ وہ ان مقاصد کی طرف کوئی عملی پیشرفت کر پائیں گے؟ ہمیں اس کا جواب اثبات میں دینے کی گنجائش بہت کم نظر آتی ہے اور ہمارے لیے یہی بات اس حوالے سے سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ جب تک اس ایجنڈے کی پشت پر، جو موجودہ حالات میں بلاشبہ موزوں اور بامقصد ایجنڈا ہے، دینی اتحاد کی قوت اور رائے عامہ کی بھرپور طاقت نہیں ہو گی، مولانا فضل الرحمٰن کے لیے صرف اپنی بھاری بھر کم شخصیت اور موجودہ اسمبلیوں میں جمعیت علماء اسلام کی نمائندگی کی بنیاد پر ان مقاصد کے لیے عملی پیشرفت کرنا آسان کام نہیں ہو گا۔ یہ ایجنڈا اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے تمام دینی مکاتب فکر کی مجموعی حمایت حاصل ہو اور دینی جماعتیں ایک فورم پر جمع ہو کر نہ صرف اسے اپنا مشترکہ ایجنڈا قرار دیں، بلکہ اس کے لیے رائے عامہ کو تیار کر کے اسٹریٹ پاور کے بھرپور اظہار کا بھی اہتمام کریں۔ اس کے بغیر یہ اہداف اور مقاصد، جن کو مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی نئی سیاسی پالیسی کی ترجیحات قرار دیا ہے، ایک رسمی ایجنڈے سے زیادہ کوئی مقام حاصل نہیں کر پائیں گے۔
اس کے ساتھ ہی ہم متحدہ عرب امارات سے موصول ہونے والا ایک مکتوب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں، جو متحدہ عرب امارات میں مقیم متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کے راہنماؤں کی طرف سے مشترکہ طور پر لکھا گیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مختلف دینی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور دینی کارکن کیا سوچتے ہیں اور ان کے جذبات و احساسات کیا ہیں؟
’’محترم قائدین متحدہ مجلس عمل پاکستان!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے ساٹھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ کئی نشیب و فراز کے باوجود وطن عزیز ابھی تک اپنی منزل تک رسائی حاصل نہیں کر سکا۔ ملک کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ہر پاکستانی گومگو کی صورت حال سے دوچار ہے۔ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک موقع آیا جب دینی قوتوں کے اتحاد کو عوام کی بھرپور پذیرائی ملی، اتحاد و یگانگت کی ایسی فضا قائم ہوئی جس سے یہ محسوس ہونے لگا کہ مستقبل میں اسلام دشمن عناصر کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ بھرپور انداز میں کیا جا سکے گا، مگر اب اسلام دشمن عناصر دینی قوتوں کے اس اتحاد کو توڑنے میں کافی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔
حالات کا تقاضا یہ ہے کہ دینی قوتوں کے اتحاد کے شیرازہ کو بکھرنے سے بچایا جائے، تاکہ اسلامی اقدار کے فروغ کی جو کاوشیں کی جا رہی ہیں وہ کامیاب و مکمل ہو سکیں۔ اس ضمن میں متحدہ مجلس عمل کے مرکزی قائدین کی خدمت میں چند ضروری گزارشات پیش کی جا رہی ہیں، ”گر قبول افتدز ہے عز و شرف“:
- ایم ایم اے کے قائدین غلط فہمی کی بنیاد پر جماعتی یکجہتی کو پارہ پارہ ہونے سے بچانے کے لیے اتحاد و یگانگت کو یقینی بنائیں۔
- الیکشن ۲۰۰۲ء میں عوام نے جس اعتماد کا اظہار کیا تھا، اسے بحال و برقرار رکھنے کے لیے ایک دفعہ پھر متحد ہو کر بھرپور عوامی رابطہ مہم چلائی جائے۔
- اپنے عالی مقصد و منزل کے حصول کے لیے آپس کے اختلافات کو ختم کیا جائے اور ماضی کی غلطیوں کو پھر سے نہ دہرایا جائے۔
- دیگر گروپوں سے اشتراک کی بجائے مزید دینی و مذہبی جماعتوں کو اتحاد میں شامل کر کے اسے مزید مؤثر بنایا جائے۔
- اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو نمائندگی اور یکساں اہمیت دے کر اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا جائے۔
- اختلافات کو میڈیا کے سامنے پیش کر کے اتحاد کو سبوتاژ کرنے کی بجائے آپس میں مل بیٹھ کر جذبہ ایثار سے کام لیتے ہوئے مجلس عمل کی یکجہتی کو ہر جماعت اپنی اولین ترجیح قرار دے۔
- الیکشن ۲۰۰۸ء میں جس طرح مذہبی قوتیں پسپا ہوئیں، قائدین کو اس واقعہ سے سبق لینا چاہیے۔
والسلام،
قاری عبید الرحمٰن قریشی (ایم ایم اے، امارات)، حاجی محمد یعقوب (جماعت اسلامی)، عبدالحکیم، رحمت اللہ خاور (جمعیت علماء اسلام پاکستان)، محمد تنویر (جمعیت اہل حدیث)، علی جعفر (تحریک فقہ جعفریہ)، مفتی بشیر قادری (جمعیت علماء اسلام سینئر گروپ)، شیخ عبدالجبار ( صدر ایم ایم اے یوتھ ونگ یو، اے، ای)، فضل امین ( صدر یوتھ ونگ شارجہ)، احمد زئی (صدر یوتھ ونگ عجمان)‘‘