صدر قذافی کا جنرل اسمبلی سے خطاب

   
اکتوبر ۲۰۰۹ء

لیبیا کے صدر معمر القذافی نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا جو ان کے چالیس سالہ دور اقتدار میں اس عالمی فورم پر ان کا پہلا خطاب تھا۔ انہوں نے مغربی ملکوں کی پالیسیوں اور اقوام متحدہ کے کردار پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل کی طرفداری کر رہے ہیں اور انہوں نے عراق اور افغانستان پر ناجائز فوج کشی کی ہے، انہوں نے سوال کیا کہ اگر وٹیکن میں مذہبی ریاست ہو سکتی ہے تو طالبان کی مذہبی حکومت کو کیوں برداشت نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا شق وار جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ خود اقوام متحدہ اور مغربی ممالک اس منشور کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، یہ کہہ کر انہوں نے اقوام متحدہ کا منشور خطاب کے دوران پھاڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کو بے عمل ادارہ قرار دیتے ہوئے اس کی جنرل اسمبلی کو لندن کے ہائیڈ پارک کارنر سے تشبیہ دی جہاں صرف تقریریں کی جاتی ہیں اور لوگ آکر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔

صدر معمر القذافی نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جن خیالات کا جرأتمندانہ اظہار کیا ہے، ان کے بعض پہلوؤں سے اختلاف کے باوجود ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ انہوں نے عالم اسلام کی رائے عامہ کی ترجمانی کی ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو اس عالمی فورم کے ذریعہ بین الاقوامی حلقوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔

لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ خطاب بھی عملاً ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ ہی کی ایک تقریر ہے جس کا عملی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم صدر قذافی کے اس جرأتمندانہ خطاب کو سراہتے ہوئے ان سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان باتوں کی اصل جگہ اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کا سربراہی اجلاس اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہے، کیا ہم ان پالیسی ساز فورموں میں اس طرح کا جرأتمندانہ موقف پہنچانے کی کوئی صورت نہیں نکال سکتے؟

   
2016ء سے
Flag Counter