قوتِ اتحاد کا تحفظ کیجئے!

   
۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء

مشرق وسطیٰ میں عرب عوام سامراج اور اس کے پروردہ غنڈے اسرائیل کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں مصروف ہیں۔ سینا کے محاذ پر مصر کی بہادر افواج دشمن کو دھکیلتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ تاریخ میں ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ بھی اسی میدان میں اسرائیل کے عبرتناک حشر کی یادگار بن چکی ہے۔ گولان کے محاذ پر شام، عراق، سعودی عرب، اردن اور مراکش کے غیور مجاہدین اسرائیل سے نبرد آزما ہیں۔

اس جنگ کا سب سے زیادہ خوشنما پہلو یہ ہے کہ جس عرب عوام کو سامراج نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر رکھا تھا، آج وہ بھائیوں کی طرح متحد ہو کر اسلام کی سربلندی، اپنے وقار کی بحالی اور اسرائیل کی سرکوبی کے لیے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں، اور اسی اتحاد کی برکت ہے کہ ہر نیا دن ان کے لیے فتح و کامران کی نوید لاتا ہے۔

عرب عوام کا مثالی اتحاد اور فاتحانہ پیشقدمی جہاں دنیا بھر کے فرزندانِ توحید کے لیے مسرت و شادمانی کا ذریعہ بنی ہے وہاں سامراج کے سینے پر بھی مونگ دل گئی ہے، اور عالمِ اسلام کا صدیوں تک خون نچوڑنے والا گورا سامراج آج فرزندانِ توحید کے دلوں کو ایک ساتھ دھڑکتا دیکھ کر ’’موتوا بغیضکم‘‘ کی عملی تصویر بنا ہوا ہے۔

ہم اس سے قبل بھی یہ عرض کر چکے ہیں کہ اسرائیل کا اپنا کوئی وجود نہیں، یہ تو صرف ایک لیبل ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں سامراج کے مفادات کا تحفظ کرنے والے غنڈوں کی ٹولی پر چسپاں کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے وجود میں پیوست ہونے والی ہر گولی سامراج کو براہ راست اپنے سینے میں گھستی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اور ۱۹۶۷ء میں عربوں کی وقتی ہزیمت پر قہقہوں سے گونجنے والا واشنگٹن وائٹ ہاؤس ۱۹۷۳ء میں اسرائیل کی پٹائی پر ماتم کدہ بنا ہوا ہے۔

عرب عوام کو جنگ کا جنون نہیں ہے اور نہ وہ شوقیہ لڑائی لڑ رہے ہیں، انہیں اگر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ پر عمل کرنا پڑا ہے تو اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ اور وہ اگر سامراج کو دشمن نمبر ۱ سمجھتے ہیں تو اس کی ایک بنیاد ہے۔ آخر وہ سامراج کے ان چرکوں کو کس طرح بھلا سکتے ہیں جس کے باعث انہیں آگ اور خون کے دریا عبور کر کے اپنی عزت و وقار اور وجود کا تحفظ کرنا پڑ رہا ہے۔ خود اسرائیل کا وجود ہی ایک زہر آلود خنجر ہے جو عربوں کے سینے میں گھونپ دیا گیا ہے۔

  • فلسطین کے مظلوم و مقہور عوام کو بے وطن کر کے دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لا کے بسانا کون سے قانون و انصاف کا تقاضا تھا؟
  • اور سرزمینِ عرب کو حصوں بخروں میں تقسیم کر کے سامراج نے کون سے بین الاقوامی اصول پر عمل کیا تھا؟
  • اسرائیل کی مسلسل پشت پناہی کر کے اور اس کے ہاتھوں میں جدید ترین ہتھیار تھما کر سامراج نے امن و سلامتی کی کونسی خدمت کی ہے؟
  • اور اسرائیل کے ہاتھوں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں بکھرتے دیکھ کر بھی اس کی پیٹھ ٹھونک کر اقوام متحدہ کے چارٹر کی کس شق پر عمل کیا گیا ہے؟

کوریا، لاؤس، کمبوڈیا اور ویتنام کے کروڑوں مظلوم عوام کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد آج وائٹ ہاؤس مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں کودنے کے لیے پر تول رہا ہے، اور اپنے علاقوں کی بازیابی کے لیے جائز جدوجہد کرنے والے عربوں کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے ’’امن کے ہتھیار‘‘ امریکہ سے دھڑا دھڑ اسرائیل پہنچ رہے ہیں۔

امریکہ کا کردار اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سینا اور گولان کے محاذ پر اسرائیل نہیں امریکہ عربوں کے خلاف صف آرا ہے۔ اور شکوک و شبہات کی دھند چھٹ جانے کے بعد اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ عالمِ اسلام نئے سرے سے صف بندی کرے اور امریکی سامراج کے کھلم کھلا اسلام دشمن کردار کے پیش نظر واضح اور دوٹوک پالیسی اختیار کی جائے۔ وہ مسلم ممالک جو امریکہ کے دوست سمجھے جاتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ امریکہ سے دوٹوک بات کریں اور اس پر واضح کر دیں کہ اگر اسے مسلم ممالک کی دوستی عزیز ہے تو اسے عرب دشمن رویہ ترک کر کے اسرائیل کو عرب علاقے خالی کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔

آخر میں ہم اس خدشہ کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اور اس کے سامراجی آقا عرب عوام کے سب سے مؤثر اور کارگر ہتھیار ’’اتحاد و یگانگت‘‘ پر ہر ممکن ضرب لگائیں گے اور ڈپلومیسی اور وسائل کی تمام تر قوت اس مقصد کے لیے صَرف کریں گے۔ اس لیے اس قوتِ اتحاد کا تحفظ تمام امور پر مقدم ہے۔ اگر عرب عوام اس اتحاد کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو ’’عرب اتحاد‘‘ عالمِ اسلام کے عظیم تر اتحاد اور شاندار مستقبل کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ اس کے لیے ہم سب کو اپنے وسائل و ذرائع کی حد تک کوشش بھی کرنی چاہیے اور انتہائی عاجزی کے ساتھ دعا بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اتحاد و اتفاق کی دولت سے مالامال کریں اور اسلام اور عالمِ اسلام کی عظمتِ رفتہ بحال کرنے کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter