امریکی فوج کے اسکولوں میں اسلام کے بارے میں پڑھائے جانے والے ایک نصاب پر ان دنوں بحث جاری ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق خود امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اس نصاب کو قابلِ اعتراض قرار دیا ہے جبکہ پینٹاگون نے تصدیق کی ہے کہ مذکورہ کورس کے بارے میں ان کی ویب سائٹ پر موجودہ نصاب اصلی ہے۔ ایک برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کسی امریکی فوجی کی شکایت سامنے آنے پر جنرل مارٹن نے اس کورس کا نوٹس لیا ہے اور اسے قابلِ اعتراض اور دوسرے مذاہب کے احترام کے بارے میں امریکی اقدار کے منافی قرار دے کر اس کی انکوائری کا حکم دیا ہے۔ مذکورہ کورس کے حوالے سے ان رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس کورس کے ذریعے امریکی فوجیوں سے کہا جاتا ہے کہ اسلام میں اعتدال پسندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ ان کے مذہب کو اپنا دشمن تصور کریں۔ کورس میں یہ بھی درج ہے کہ امریکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہے اور یہ ممکن ہے کہ امریکہ مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ کو (نعوذ باللہ) جوہری ہتھیاروں کے ذریعے تباہ کر دے۔
جنرل مارٹن ڈیمپسی کی طرف سے انکوائری کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے، اس کے بارے میں ہم کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کے غم و غصہ اور جذبات کو کم کرنے کی حکمتِ عملی کے تحت یقیناً لیپاپوتی سے کام لیا جائے گا اور وہی کچھ ہوگا جو اس قسم کی رپورٹوں میں عام طور پر ہوا کرتا ہے۔ البتہ اس کورس کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کرنے کی ضرورت بہرحال محسوس ہو رہی ہے۔
ہمیں اس کورس اور اس کے امریکی فوج کے اسکولوں میں پڑھائے جانے کے اس انکشاف پر کوئی تعجب نہیں ہوا، اس لیے کہ یہ نہ تو پہلی بار ہو رہا ہے اور نہ ہی امریکی جنرل کی طرف سے انکوائری کے آرڈر پر یہ سلسلہ رک جائے گا۔ یہ تو مغرب کی صدیوں سے چلی آنے والی پالیسی ہے جس کے سیکڑوں مظاہر و مشاہدات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں اور مغرب کی تعلیم گاہوں میں پورے اہتمام کے ساتھ اس بات کی کوشش ہوتی آ رہی ہے کہ دنیا کے سامنے، خاص طور پر مغربی دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کی ایسی تصویر پیش کی جائے جو نفرت اور کراہت کا باعث بنے اور اسے دیکھنے والوں کے ذہن اسلام کے بارے میں کوئی مثبت رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں۔
چند سال قبل جب سربیا اور بوسنیا کا تنازع عالمی سطح پر زیر بحث تھا، ان دنوں کی بات ہے کہ برطانیہ کے شہر لیسٹر میں محترم پروفیسر خورشید احمد کے ادارے ’’اسلامک فاؤنڈیشن‘‘ نے اس سلسلے میں ایک سیمینار منعقد کیا جس میں برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر جم مارشل نے بھی شرکت کی۔ میں ان دنوں وہیں تھا اور اس سیمینار میں شریک ہوا تھا۔ جم مارشل نے اس موقع پر بہت فکر انگیز گفتگو کی جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی دنیا کے ذہنوں میں جو کنفیوژن پایا جاتا ہے، اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کنفیوژن یہ ہے کہ
- ہمارے ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک تصویر وہ ہے جو ان معلومات سے قائم ہوتی ہے جو ہمارے بڑے نسل در نسل ہمیں روایتی انداز میں فراہم کرتے آ رہے ہیں اور یہ بڑی خوفناک تصویر ہے۔
- دوسری تصویر وہ ہے جو تاریخ کے مطالعہ اور مستند مواد تک رسائی سے ہمارے ذہنوں میں تشکیل پاتی ہے۔ یہ پہلی تصویر سے یکسر مختلف ہے-
- مگر آج کے ان مسلمانوں کو دیکھ کر جو ہمارے ساتھ رہتے ہیں، جو تصویر ذہنوں میں بنتی ہے، وہ ان دونوں تصویروں سے مختلف ہے۔
جم مارشل نے اس کنفیوژن کا ذکر کرتے ہوئے مسلمان دانشوروں سے کہا کہ وہ اس کنفیوژن کو دور کرنے کی کوشش کریں، اور یہ کہ اگر اس کنفیوژن کو دور کیا جا سکے تو مغربی دنیا اسلام کی بات سننے کے لیے آج بھی تیار ہے۔ جم مارشل کی اس تقریر کا حوالہ ہم نے اس لیے دیا کہ مغربی خاندانوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو تاثرات اور احساسات نسل در نسل چلے آ رہے ہیں، وہ تاریخ کے مطالعہ اور موجودہ مسلمانوں کو دیکھ کر قائم ہونے والے احساسات اور تاثرات سے بالکل مختلف ہیں، اور یہی تاثرات امریکی فوج کے اسکولوں میں پڑھائے جانے والے اس کورس کی بنیاد ہیں۔ اس لیے ہمیں اس پر افسوس ضرور ہے مگر تعجب بالکل نہیں ہے، اس لیے کہ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔ اور آج بھی مذہب سے لاتعلقی کے ٹائٹل اور سیکولرازم کے عنوان کے باوجود مغربی حکمرانوں کی مجبوری ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی کوئی ایسی تصویر دنیا کے سامنے نہ آنے دیں جو اسلام کے بارے میں مثبت سوچ پیدا ہونے کا ذریعہ بن سکے۔
کچھ عرصہ قبل جب پاکستان کے دینی مدارس کے خلاف مغربی دنیا کی پروپیگنڈا مہم عروج پر تھی، ان دنوں ایک دستاویزی فلم کا بہت شہرہ ہوا جو مختلف مغربی ممالک کے مقتدر حلقوں کو بطور خاص اہتمام کے ساتھ دکھائی گئی۔ میں نے بھی وہ فلم ان دنوں دیکھی تھی۔ اس میں پاکستان کے کسی بھی مکتبِ فکر کے کسی معیاری دینی مدرسے کا تذکرہ موجود نہیں تھا جو کم و بیش ملک کے ہر بڑے شہر میں پائے جاتے ہیں، بلکہ کسی دور دراز دیہات کے ایک مدرسے کو فوکس کیا گیا تھا جو کچھ بعید نہیں کہ اس مقصد کے لیے خاص طور پر تیار کیا گیا ہو اور دینی مدرسے کے اندرونی ماحول کو انتہائی مکروہ انداز میں پیش کر کے نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ مجھے یہ ’’دستاویزی فلم‘‘ دیکھنے کا موقع لندن میں ملا تھا اور فلم دکھانے کے بعد مجھ سے میرے تاثرات کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے عرض کیا تھا کہ میں بیسیوں نہیں بلکہ سیکڑوں ایسے مدارس کی نشاندہی کر سکتا ہوں جن میں سے ایک کو بھی اس دستاویزی فلم کا حصہ بنا لیا جائے تو وہ سارا تاثر خاک میں مل جاتا ہے جو اس فلم کی تیاری اور تشہیر کا مقصد دکھائی دیتا ہے۔
امریکی فوج کے اسکولوں میں مبینہ طور پر پڑھائے جانے والے اس کورس پر مختلف حلقوں کی طرف سے جو احتجاج جاری ہے وہ ملی حمیت کا تقاضا ہے اور ہر مسلمان کو اپنے اپنے انداز میں اس احتجاج میں ضرور شریک ہونا چاہیے، لیکن اس سے کہیں زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے ابلاغ کے وسیع تر ذرائع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات اور آج کے حالات میں قرآن و سنت اور خلافت راشدہ کے احکام و قوانین کی تطبیق کی قابل عمل صورتوں کو اجاگر کیا جائے۔ اپنی بات اپنے انداز میں کہنے اور اسے دنیا کے ہر کونے میں پہنچانے کی جو سہولتیں آج میسر ہیں، اس سے پہلے کبھی وہ ہماری دسترس میں نہیں تھیں۔ اس لیے مغرب کی علمی و فکری دھاندلی کے خلاف احتجاج اور غم و غصہ کے اظہار کے ساتھ ساتھ ہمارے علمی اداروں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ آج کے عالمی حالات کے تناظر میں اور مستقبل کی فکری و علمی ضروریات کے پیش نظر سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے۔