(امام شمس الدین الذہبیؒ کی کتاب الکبائر ۔ قسط ۱۰)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے سوال کیا گیا کہ اعراف کیا ہے اور وہاں کون سے لوگ جائیں گے؟ آپؓ نے فرمایا:
’’اعراف جنت اور جہنم کے درمیان ایک پہاڑ ہے، اس پر درخت ہیں، نہریں ہیں، چشمے ہیں اور پھل بھی ہیں، اور اس جگہ وہ لوگ ہوں گے جو ماں باپ کی اجازت کے بغیر جہاد پر چلے گئے اور وہاں اللہ کی راہ میں شہادت پائی۔ تو اب شہادت انہیں جہنم میں جانے سے مانع ہے اور ماں باپ کی عدمِ اطاعت جنت میں جانے سے روکتی ہے، اس لیے انہیں اعراف میں ٹھہرایا جائے گا۔‘‘ (رواہ ابن منصور)
صحیحین میں روایت ہے، ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور سوال کیا، یا رسول اللہ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا، تیری ماں۔ اس نے پوچھا، اس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا، تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا، اس کے بعد؟ آپؐ نے پھر ارشاد فرمایا، تیری ماں۔ اس نے پھر سوال کیا، اس کے بعد میرے حسنِ سلوک اور حسنِ صحبۃ کا کون مستحق ہے؟ آپؐ نے فرمایا، تیرا باپ۔ یہ اس لیے کہ ماں نے اسے جننے اور پالنے میں بڑی تکلیف اٹھائی ہے اور وہ اس کے لیے ساری ساری رات جاگتی رہتی تھی۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنی ماں کو کندھوں پر اٹھائے بیت اللہ شریف کا طواف کرا رہا تھا۔ اس نے آپؓ سے پوچھا، اے ابن عمرؓ! کیا میں نے ماں کا حق ادا کر دیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا، یہ تو اس کی تکلیفوں میں سے ایک تکلیف کا بدلہ بھی نہیں ہے جو اس نے تجھے جننے اور پالنے میں اٹھائی ہیں۔ ہاں تو نے نیکی کی ہے اور خدا تعالیٰ تجھے تھوڑے عمل پر زیادہ ثواب دیں گے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’چار آدمی ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ نہ وہ ان کو جنت میں داخل کرے گا اور نہ جنت کی کوئی نعمت ان کو چکھائے گا: (۱) شراب کا عادی (۲) سود خور (۳) یتیم کا مال ظلماً کھانے والا (۴) ماں باپ کا نافرمان۔ ہاں اگر توبہ کر لے تو پھر بات الگ ہے۔‘‘ (رواہ الحاکم و قال صحیح الاسناد)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔‘‘ (رواہ الحاکم والنسائی)
ایک شخص حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور پوچھا حضرت! میں نے ایک عورت سے نکاح کیا ہے مگر میری والدہ مجھے کہتی ہیں کہ اس کو طلاق دے دو۔ اب میں کیا کروں؟ آپؓ نے فرمایا:
’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ ماں باپ جنت کے دروازوں میں سے درمیان کا دروازہ ہیں، اگر تو چاہے تو اس دروازہ کو (نافرمانی کر کے) گرا دے اور اگر چاہے تو باقی رہنے دے۔‘‘ (رواہ ابن ماجہ والترمذی)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین دعاؤں کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں: (۱) مظلوم کی دعا (۲) مسافر کی دعا (۳) ماں باپ کی بد دعا اولاد کے بارے میں۔‘‘ (رواہ الترمذی و ابو داؤد)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خالہ بھی بمنزلہ ماں کے ہے‘‘ (صحیحہ الترمذی)
یعنی اس کے ساتھ بھی نیکی، صلہ رحمی، عزت و احترام اور خدمت کا ماں جیسا سلوک کرنا چاہیے۔
حضرت وہب بن منبہؒ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ اے موسیٰ علیہ السلام! اپنے ماں باپ کی توقیر کرو کیونکہ جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت کرتا ہے میں اس کی عمر لمبی کر دیتا ہوں اور اسے عزت و احترام کرنے والی اولاد دیتا ہوں۔‘‘
حضرت ابوبکر بن ابی مریمؒ فرماتے ہیں:
’’میں نے تورات میں پڑھا کہ جو شخص اپنے باپ کو مارے اسے قتل کر دیا جائے۔‘‘
اور حضرت وہب بن منبہؒ فرماتے ہیں:
’’میں نے تورات میں پڑھا کہ جو شخص اپنے باپ کو مارے اسے (سنگسار) کر دیا جائے۔‘‘
حضرت عمرو بن مرۃ الجہنیؓ فرماتے ہیں:
’’ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور پوچھا یا رسول اللہ! میں اگر پانچ نمازیں پابندی سے پڑھوں، رمضان المبارک کے روزے رکھوں، زکوٰۃ ادا کروں، اور بیت اللہ کا حج کروں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا، جس شخص نے یہ عمل کیے اور ماں باپ کی نافرمانی نہ کی وہ نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحوں کے ساتھ ہو گا۔‘‘ (رواہ احمد والطبرانی باسناد صحیح)
ایک روایت میں یہ ہے کہ جس نے ماں باپ کو گالی دی اس کی قبر میں اتنے جلتے ہوئے کوئلے ڈالے جاتے ہیں جتنے قطرے بارش میں آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ماں باپ کے نافرمان کو جب قبر میں ڈالا جاتا ہے تو قبر آپس میں مل کر اس کو نچوڑ ڈالتی ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے کے اندر گھس جاتی ہیں۔ اور قیامت کے روز سب سے زیادہ عذاب تین آدمیوں کو ہو گا: (۱) مشرک (۲) زانی اور (۳) ماں باپ کا نافرمان۔
حضرت بشرؒ نے فرمایا:
’’جو شخص والدہ کی بات سننے کے لیے اس کے قریب ہوا، وہ تلوار کے ساتھ جہاد کرنے والے سے افضل ہے، اور ماں کی طرف شفقت سے دیکھنا ہر چیز سے افضل ہے۔‘‘
ایک مرد اور عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے جو ایک بچے کے بارے میں جھگڑا کر رہے تھے۔ مرد نے کہا یا رسول اللہ! یہ میرا بیٹا ہے جو میری صلب (پشت) سے نکلا ہے۔ عورت نے کہا، یا رسول اللہ! اس نے تو اس کو اٹھانے میں کوئی تکلیف نہیں برداشت کی اور اس نے وضع بھی شہوت کے ساتھ کیا ہے، جبکہ میں نے اس بچے کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں اٹھایا اور تکلیف کے ساتھ جنا اور پھر دو سال تک اسے دودھ بھی پلایا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فیصلہ ماں کے حق میں دے دیا (رواہ احمد و ابوداؤد)۔