ایمل کانسی مرحوم

   
۲۷ نومبر ۲۰۰۲ء

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان نے میر ایمل کانسی شہید کے گھر جا کر اور اس کے خاندان سے تعزیت کرکے پورے ملک کے علماء کرام اور دینی حلقوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے، ورنہ یہ ملک کے ہر عالم دین اور دینی کارکن کے ذمے تھا کہ وہ میر ایمل کانسی شہید کے گھر جاکر اس خاندان سے تعزیت کرتا اور ایمل کانسی شہید کے بھائیوں کو یقین دلاتا کہ ان کے دلیر اور جرأت مند بھائی نے جس حوصلے اور استقامت کے ساتھ قومی خود مختاری اور ملک کی آبرو کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے، اس پر قوم کا ہر باغیرت شخص فخر کرتا ہے اور یہ سمجھتاہے کہ ایمل کانسی شہید نے جھکنے اور کمزوری دکھانے کے بجائے آ برومندانہ طریقے سے جام شہادت نوش کر کے نہ صرف پاکستانی عوام کو ایک نئے حوصلے سے نوازا ہے بلکہ امریکی استعمار کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے غیرت مند نوجوان اس کے جبر وتشدد کے ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ اپنے دین کی سربلندی، ملک کی سالمیت اور قوم کی خود مختاری کے لیے پہلے سے زیادہ عزم اور جذبے سے سرشار ہیں۔

ایمل کانسی کو میاں نواز شریف حکومت کے دور میں ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل سے اغوا کرکے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تھا جہاں اس پر اس الزام میں مقدمہ چلا کہ اس نے چند سال قبل امریکہ میں قیام کے دوران سی آئی اے کے دو اہل کاروں کو قتل کر دیا تھا۔ اس الزام میں اس پر مقدمہ چلا اور اسے موت کی سزا سنا دی گئی۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق موت کی سزاسے پہلے ایمل کانسی مرحوم نے قرآ ن مجید کی تلاوت کی اور آخر میں کلمہ طیبہ زبان سے دہرایا جس کے بعد زہر کا ٹیکہ لگا کر اسے موت کی نیند سلا دیا گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اخباری رپورٹوں کے مطابق سزائے موت سے قبل اپنے آخری انٹر ویو میں میر ایمل کانسی شہید نے کہاکہ اس نے جو کچھ کیا، وہ ان امریکی مظالم کا ردعمل تھا جو امریکہ پورے عالم اسلام بالخصوص فلسطین میں جاری رکھے ہوئے ہے اور امریکی سی آئی اے مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔ اس لیے وہ یہ سمجھتا ہے کہ ظالموں کے ظلم و جبر کے ردعمل میں ہتھیا ر اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس نے جو کچھ کیا ہے، اس پر اسے کوئی ندامت نہیں ہے۔

میر ایمل کانسی نے امریکی سی آئی اے کے اہل کاروں کو کس مقصد سے قتل کیاتھا اور اس کاپس منظر کیا تھا، یہ بات واضح نہیں ہے، لیکن شہید کے انٹرویو سے معلوم ہوتاہے کہ وہ امریکہ کے اسلام دشمن طرزعمل اور پالیسیوں کے خلاف عالم اسلام میں ابھرنے والے ردعمل کا حصہ ہے اور اس کے قلب و ذہن میں وہی جذبات و خیالات کار فرما رہے ہیں جو عالم اسلام کے مختلف حصوں میں امریکی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کی غیر ت وحمیت کے اظہار کا عنوان بن گئے ہیں۔

میر ایمل کانسی شہید کو جس انداز سے ڈیرہ غازی خان سے گرفتار کیا گیا وہ اپنی جگہ خود ایک مسئلہ ہے۔ اس پر پاکستان کے قومی اور دینی حلقوں کی طرف سے جذبات کا اظہار کیا گیا اور اس کا مکمل ترین اظہار قومی اسمبلی میں اس وقت سامنے آیا جب بلوچستان سے قومی اسمبلی کے رکن حافظ حسین احمد نے میر ایمل کانسی شہید کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوئے اپنی دعا میں یہ جملے شامل کیے کہ ”یااللہ! ایمل کانسی کو امریکہ کے حوالے کرنے والوں کا بیڑ ہ غرق فرما ‘‘۔ یہ الفاظ حافظ حسین احمد کے تھے اور اس کے پیچھے پوری قوم کے جذبات تھے۔ اس لیے امریکہ پر یہ بات اب پوری طرح واضح ہو جانی چاہیے کہ عالم اسلام میں امریکی پالیسیوں کے خلاف مسلم نوجوانوں کے جائز اور فطری ردعمل کو جبر کے ذریعے دبانے اور تشدد کے ذریعے باغیرت مسلمانوں کے منہ بند کرنے کے سارے حربے ناکام ہوگئے ہیں اور یہ حربے تاریخ کے کسی بھی دورمیں کامیاب نہیں ہوئے۔ زندہ قوموں کو ان کے ا یمان وعقیدہ، آزادی و خودمختاری اور جذبات و احساسات سے نہ اس سے قبل کبھی طاقت اور جبر کے ذریعے محروم کیا جا سکا ہے او رنہ اب کسی طاقت کے ذریعے کرنا ممکن ہے۔ امریکہ کو اسی سے اندازہ کر لینا چاہیے کہ جس شخص کو اس نے مجرم قرار دیا اور اپنے قانونی نظام کے تحت مجرم ثابت کردیا اور عدالتی سسٹم کے ذریعے اسے موت کی سز ادلوا دی، سز ایافتہ قاتل جب تدفین کے لیے اپنے وطن پہنچا تو وہ قوم کا ہیرو قرار پایا ہے، قومی اسمبلی میں اس کے لیے دعائے مغفرت ہوئی ہے، بلوچستان کے گورنر نے اس کے گھر جا کر اس کے خاندان سے تعزیت کی، لاکھوں مسلمانوں نے اس کی میت کا استقبال کیا اور کم و بیش قوم کے ہر طبقے کی طرف سے اس کی سزائے موت کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter