فرقہ وارانہ واقعات اور دینی راہنماؤں کی ذمہ داری

   
۵ فروری ۱۹۸۸ء

گزشتہ روز پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بیگم کوٹ کے مقام پر فرقہ وارانہ دہشت گردی کا ایک اور افسوسناک سانحہ رونما ہوا اور ایک مکتبِ فکر کی مسجد پر دوسرے مکتبِ فکر کے قبضہ کی کوشش نے ایک نوجوان کی جان لے لی۔

مبینہ طور پر بیگم کوٹ لاہور کی مسجد طیبہ اہل السنت والجماعۃ حنفی دیوبندی مکتبِ فکر کے لوگوں کے زیر انتظام چلی آتی ہے، اس مسجد پر قبضہ کے لیے بریلوی مکتبِ فکر کے افراد نے دھاوا بول دیا اور اس موقع پر فائرنگ سے ایک نوجوان محبوب عالم جس کا تعلق جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے جاں بحق ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

مساجد پر مخالفانہ قبضہ اور فرقہ وارانہ بالادستی کے اظہار کے لیے دہشت گردی اور مسلح کارروائیوں کا سلسلہ کچھ عرصہ سے بڑھتا جا رہا ہے، اور ملک کے مختلف حصوں میں یہ جنون در جنوں بے گناہوں کے خون کی بھینٹ وصول کر چکا ہے۔ لیکن اس مسئلہ کا سب سے افسوسناک اور کرب انگیز پہلو یہ ہے کہ حکومت یا متعلقہ مکاتبِ فکر کے سنجیدہ قائدین کو بھی اس سلسلے کی روک تھام کے لیے کسی ٹھوس اور مؤثر حکمتِ عملی کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی، بلکہ اس قسم کے واقعات میں جارحیت کا ارتکاب کرنے والے عناصر کی حوصلہ افزائی مستقبل میں اس سے زیادہ سنگین صورتحال پیش آنے کے خدشات کی تائید کر رہی ہے۔

ملک کے حالات اس قسم کی فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی متحمل نہیں ہیں۔ کفر و الحاد کا ریلا فرقوں کی تمیز کیے بغیر مذہب کے تمام نام لیواؤں کو لپیٹ میں لینے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے، اور وطنِ عزیز کو زبان، علاقہ اور نسل کی بنیاد پر مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ ان حالات میں تمام مکاتبِ فکر کے راہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کوشش کریں اور فرقہ پرست جنونیوں کو ملک کا امن تباہ کرنے سے باز رکھیں۔

اس پس منظر میں ہم بیگم کوٹ کے مذکورہ واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مسجد پر حملہ اور ایک نوجوان کو شہید کرنے والے دہشت گردوں کو خصوصی عدالت کے ذریعہ جلد از جلد عبرتناک سزا دے کر فرقہ وارانہ دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter