روزنامہ جنگ لندن ۳۰ جون ۱۹۹۸ء کے مطابق امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے حالیہ دورۂ چین کے موقع پر بیجنگ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کسی بھی ملک پر اپنے نظریات نہیں ٹھونسنا چاہتا، البتہ کئی حق ایسے ہیں جن کا بین الاقوامی سطح پر احترام کیا جانا چاہیے، ہر ملک میں لوگوں کو عزت سے رہنے، اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے، اور سیاسی آزادی کا حق ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی بھی ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ امریکی یا یورپی حقوق نہیں بلکہ ہر جگہ کے لوگوں کے بنیادی حقوق ہیں۔
ادھر جنگ لندن ۳ جولائی ۱۹۹۸ء کے مطابق مشرقی امور کے امریکی نائب وزیرخارجہ رائیل نیوض نے واشنگٹن میں سی ایس آئی ایس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی حقوق اور بعض عالمی اقدار مشترک ہیں، ان پر امریکہ کی اجارہ داری نہیں ہے، البتہ ہم ان کے علمبردار ضرور ہیں۔
جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے، آج کی دنیا میں اصولاً کسی کو بھی اس سے اختلاف نہیں ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی اور ان کا تحفظ ہر مملکت کی ذمہ داری ہے، اور جن انسانی حقوق کا امریکہ کے صدر محترم نے ذکر کیا ہے ان پر ان کا اطلاق ضرور مختلف فیہ ہے۔ اور دنیا کی مختلف اقوام بالخصوص عالمِ اسلام کو امریکہ اور دیگر مغربی اقوام سے یہی شکایت ہے کہ انہوں نے انسانی حقوق کی تعبیر و تشریح پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، اور وہ بنیادی حقوق کے نام سے اپنا فلسفہ اور کلچر دنیا کی دوسری اقوام پر ٹھونسنا چاہتی ہیں۔
چنانچہ گزشتہ نصف صدی سے اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر، اور اس کی تشریح میں اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کی قراردادوں کے نام پر جو کچھ دنیا سے منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ اسی مہم کا حصہ ہے۔ مثلاً انسانی حقوق کے حوالے سے مغربی کیمپ ہم سے جو مسلسل تقاضے کر رہا ہے وہ یہ ہیں کہ
- ہم اسلامی قوانین کے نفاذ کے اقدامات سے باز آجائیں،
- قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کر لیں،
- توہین رسالت کی سزا کا قانون ختم کریں،
- نکاح و طلاق اور وراثت کے شرعی قوانین سے دستبردار ہو جائیں،
- اور معاشرہ میں اسلام کے اجتماعی کردار کا عقیدہ ترک کر دیں۔
یہ انسانی حقوق کی تعبیر و تشریح پر مغرب کی اجارہ داری اور اسے دوسرے ملکوں پر زبردستی ٹھونسنے کا طرزعمل نہیں تو اور کیا ہے؟
ملائیشیا کے وزیراعظم جناب مہاتیر محمد نے چند سال قبل کہا تھا کہ اقوام متحدہ کا بنیادی حقوق کا چارٹر نصف صدی قبل ترتیب پایا تھا، اس وقت حالات اور تھے اور اب عالمی صورتحال بالکل بدل چکی ہے، اس لیے اس چارٹر پر نظرثانی ضروری ہو گئی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس تجویز کو آگے بڑھانے کا وقت آ گیا ہے۔ عالمِ اسلام اب نصف صدی قبل کی پوزیشن میں نہیں ہے اور تمام تر خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود عالمی برادری میں وہ اس مقام پر آ گیا ہے کہ مغرب سے دوٹوک طور پر کہہ دے کہ اسے مغرب کا فلسفہ قبول نہیں ہے، اس لیے اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی اب تک کی جانے والی تعبیرات و تشریحات پر مکمل طور پر نظرثانی کی جائے، اور عالم اسلام کو اعتماد میں لے کر انسانی حقوق کا نیا عالمی فریم ورک طے کیا جائے۔ بلکہ اگر صدر امریکہ اور ان کے رفقاء دوسروں پر اپنے نظریات نہ ٹھونسنے اور انسانی حقوق پر اجارہ داری کی نفی میں سنجیدہ ہیں تو انہیں خود نصف صدی کے دوران رونما ہونے والے نئے واقعات اور حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اس سمت پیشرفت کرنی چاہیے۔