پاکستان بار کونسل کی ایک قرارداد قومی اخبارات کے ذریعے سامنے آئی ہے جس میں وفاقی شرعی عدالت اور حدود آرڈیننس کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بار کونسل کے وائس چیئرمین رانا اعجاز احمد خان کے مطابق پاکستان بار کونسل نے وفاقی شرعی عدالت اور حدود آرڈیننس کو امتیازی قوانین کے زمرے میں شمار کرتے ہوئے انہیں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دستورِ پاکستان میں اس امر کی صراحتاً ضمانت دی گئی ہے کہ ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالا جائے گا۔ اور وفاقی شرعی عدالت کا قیام اسی مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا ہے کہ وہ ملکی قوانین کا جائزہ لے کر قرآن و سنت کے منافی قوانین کی نشاندہی کرے اور حکومت کو ان کے خاتمہ کی طرف توجہ دلائے۔ وفاقی شرعی عدالت میں ملک کے ممتاز جج صاحبان اور سرکردہ علماء کرام شامل ہیں جو مشترکہ طور پر قوانین کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور اگرچہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد کی کوئی ضمانت موجود نہیں، تاہم وفاقی شرعی عدالت نے اپنے قیام کے بعد سے اب تک سود کے خاتمہ اور انتخابی نظام کی اصلاح سمیت بہت سے اہم فیصلے صادر کیے ہیں جو پاکستان کی عدالتی تاریخ کے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح حدودِ شرعیہ مثلاً زنا، شراب، قذف وغیرہ جرائم کی شرعی سزاؤں کے قوانین ملک میں نافذ ہیں، جن پر عملدرآمد اس لیے نہیں ہو رہا کہ ان کے نفاذ کا انتظامی و عدالتی ڈھانچہ نوآبادیاتی ہے، اور ملک کے قانونی نظام پر بالادستی فرنگی قانونی نظام کو حاصل ہے، لیکن اس رکاوٹ کے باوجود حدودِ شرعیہ کا آرڈیننس نفاذ کی حد تک ملک میں موجود ہے۔
پاکستان بار کونسل اور اس سے پہلے انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان اور دیگر اداروں کی طرف سے وفاقی شرعی عدالت اور حدود آرڈیننس کو امتیازی قوانین کے زمرہ میں شمار کر کے ان کے خاتمہ کا جو مطالبہ کیا جا رہا ہے، اس کا پس منظر یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ’’انسانی حقوق کے چارٹر‘‘ میں دنیا بھر کے ممالک سے یہ ضمانت طلب کی گئی ہے کہ وہ اپنے ملک میں رہنے والے مختلف طبقات بالخصوص مردوں اور عورتوں کے درمیان مذہب یا رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی امتیاز روا نہیں رکھیں گے، اور نہ ہی کوئی ایسا قانون نافذ کریں گے جو ان کے درمیان کسی قسم کا امتیاز قائم کرتا ہو۔ جبکہ حدود آرڈیننس میں مردوں اور عورتوں کے حوالے سے بعض امتیازات موجود ہیں اور وفاقی شرعی عدالت مذہبی بنیاد پر دیے گئے امتیازات کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اس لیے یہ قوانین اور شرعی عدالت انسانی حقوق کے اداروں کے نزدیک انسانی حقوق کے عالمی تصور کے منافی قرار پاتے ہیں۔
ملک کے قانون دان حلقے کی یہ الجھن ہمارے پیش نظر ہے، اور مروجہ بین الاقوامی قوانین کے ساتھ پاکستان کے بعض اسلامی قوانین کے تضاد کو بھی ہم سمجھتے ہیں۔ لیکن اس الجھن کا حل یہ نہیں کہ ہم اقوام متحدہ کے منشور اور مروجہ بین الاقوامی قوانین پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئیں، اور ان کی بنیاد پر ملک میں رائج چند برائے نام اسلامی قوانین اور اداروں کے خاتمہ کے بھی درپے ہو جائیں۔ بلکہ اس کا اصل حل یہ ہے کہ ہم قرآن و سنت پر اپنا ایمان مضبوط رکھیں، اور اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں کہ دنیا کے سوا ارب سے زیادہ مسلمانوں کے معتقدات و جذبات اور تہذیب و کلچر کا احترام کرتے ہوئے انسانی حقوق کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے مروجہ ڈھانچے پر نظرثانی کی جائے۔
اس لیے ہم پاکستان بار کونسل کے اس مطالبہ کو رد کرتے ہوئے بار کونسل کے ذمہ دار حضرات سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے مسلمانوں کے سامنے عالمی اداروں کی نمائندگی کرنے کی بجائے بین الاقوامی اداروں کے سامنے اسلام، پاکستان اور مسلمانوں کی نمائندگی کا فریضہ سرانجام دیں۔ یہ ان کے لیے یقیناً زیادہ باوقار اور شایانِ شان بات ہو گی۔