برطانیہ کے دوسرے بڑے شہر برمنگھم میں پاکستانیوں کی بڑی آبادی کے علاقہ الم راک میں ایک اسکول کو صرف لڑکیوں کے لیے مخصوص کر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اور روزنامہ جنگ لندن ۱۴ نومبر کی ایک خبر کے مطابق اس سلسلہ میں برمنگھم سٹی کونسل کی ایجوکیشن کمیٹی نے منظوری دے دی ہے جسے حتمی منظوری کے لیے برطانیہ کی وزارتِ تعلیم کے پاس بھیجا جا رہا ہے۔
یہ فیصلہ مسلمانوں کے مسلسل مطالبہ کے بعد کیا گیا ہے کیونکہ مسلمان مخلوط تعلیم کے اسکولوں کے ماحول سے پریشان ہیں اور بالخصوص لڑکیوں کے بارے میں ایک عرصہ سے اضطراب کا اظہار کر رہے ہیں، بلکہ بہت سے علاقوں میں مسلمانوں نے بھاری اخراجات برداشت کرتے ہوئے لڑکیوں کے الگ اسکول اپنے خرچے پر قائم کر رکھے ہیں جن کی طرف مسلمانوں کا رجحان دن بدن بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ برمنگھم سٹی کونسل نے اسی اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے مسلمانوں کی بڑی آبادی کے علاقہ میں ایک اسکول کو صرف لڑکیوں کے لیے مخصوص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بعض حلقے اس کے بارے میں یہ تاثر بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ مسلمانوں میں لڑکیوں کے لیے اپنے الگ اسکولوں کا بڑھتا ہوا رجحان دیکھ کر اسے کنٹرول کرنے کے لیے برطانوی محکمہ تعلیم اور سٹی کونسل کے ذمہ دار حضرات نے یہ راستہ اختیار کیا ہے، تاکہ مسلمان لڑکیاں الگ اسکولوں میں ہی تعلیم حاصل کریں لیکن کم از کم نصاب اور نظام تو سرکاری اسکولوں سے مختلف نہ ہو۔ تاہم اس کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن اتنی بات طے ہے کہ
- برطانیہ میں لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان فرق کو اصولی طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے،
- اور وہ مغرب جو مذہب اور جنس کی بنیاد پر انسانی آبادی میں کسی بھی قسم کے فرق کی مسلسل نفی کرتا چلا آ رہا ہے اس کے لیے بھی مذہب کے ساتھ ساتھ جنس میں فرق اور امتیاز کو قبول کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا۔
اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان فطری اصولوں کی فتح ہے جن کا اعلان اسلام نے چودہ سو برس پہلے کر دیا تھا، اور آسمانی تعلیمات سے بغاوت کے تلخ نتائج دیکھ کر اب مغرب بھی رفتہ رفتہ ان کی طرف واپس آ رہا ہے۔
ہمارے ہاں پاکستان میں خواتین کی الگ یونیورسٹی کا مسئلہ ایک عرصہ سے معرضِ التوا میں ہے، اور اس کی بنیادی وجہ مغرب کا خوف ہے کہ عورتوں کے لیے الگ یونیورسٹی قائم کرنے پر مغرب والے ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے؟ ہم اربابِ حل و عقد سے عرض کریں گے کہ اب یہ خوف ذہن سے نکال دیں کیونکہ جس مغرب کے خوف کو انہوں نے اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنا رکھا ہے اس مغرب کے فلسفہ کو ’’ریورس گیئر‘‘ لگ چکا ہے اور وہ خود اپنی مادر پدر آزادی سے تنگ آ کر فطرت کے سنہری اصولوں کی طرف واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے۔