خیمہ داؤد (کیمپ ڈیوڈ) کے پروٹوکول اور مذاکرات کے بعد ہمارے صدر محترم کے لہجے میں مزید نکھار آ گیا ہے اور وہ پہلے سے زیادہ واضح اور دو ٹوک لہجے میں کچھ باتیں کہنے لگے ہیں۔ مثلاً انہوں نے وطن واپسی سے قبل امریکا میں بھی یہ بات کھلے لہجے میں کہہ دی ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس بات کا فیصلہ کریں کہ ہمیں طالبان والا پاکستان چاہیے یا ایک جدید ترقی یافتہ پاکستان۔ اور انہوں نے اس امر کا بھی اعلان فرما دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ خیمہ داؤد میں دو باتوں کا فیصلہ اصولی طور پر ہو گیا ہے۔ ایک یہ کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے گا اور دوسری یہ کہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے کچھ آثار جو ابھی باقی ہیں انہیں بہرحال صاف کر دیا جائے گا۔ اور اس طرح پاکستان داخلی طور پر بھی ایک نئے اور فیصلہ کن نظریاتی معرکہ کی طرف بڑھنے لگا ہے، جس میں ایک طرف ملک کی دینی قوتیں، محب وطن اور باشعور سیاستدان اور اسلام اور پاکستان سے محبت رکھنے والے عوام ہوں گے، اور دوسری جانب ہماری موجودہ عسکری قیادت، اسٹیبلشمنٹ اور عالمی استعمار ہو گا۔ اور یہی وہ منظر ہے جس کے بارے میں ہم ایک عرصہ سے دینی حلقوں، علمی مراکز اور ارباب علم و دانش کو توجہ دلاتے آ رہے ہیں، تاکہ وہ آنے والے حالات کے لیے مناسب تیاری کر لیں اور علماء کرام، طلبہ اور دینی کارکنوں میں اس کشمکش کا شعور و ادراک پیدا کر کے اپنی صف بندی اور ترجیحات کا ازسرنو تعین کر لیں۔
ہمارے لیے اس حد تک یہ اطمینان کی بات ہے کہ اس صورتحال کا احساس بیدار ہو رہا ہے اور ماضی کے تصورات میں مست رہنے کی بجائے حال اور مستقبل کے نقشے کو سمجھنے کی ضرورت بھی کسی حد تک ہمارے دینی حلقے محسوس کرنے لگے ہیں۔ لیکن حالات بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، جبکہ ہماری سوچنے سمجھنے کی رفتار انتہائی سست ہے اور لگتا ہے کہ اگر ہم نے اپنی ترجیحات اور صف بندی کا پوری سنجیدگی کے ساتھ ازسرنو جائزہ نہ لیا تو خلافت عثمانیہ کے آخری دور کے ترک علماء کرام کی طرح شاید ہم بھی (خاکم بدہن) حالات پر اپنی کسی نہ کسی حد تک موجود گرفت کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔
جہاں تک طالبان والے اسلام یا طالبان کی طرز کے پاکستان کی پھبتی کا تعلق ہے، ہم اس سے قبل یہ بات واضح کر چکے ہیں اور پھبتی کسنے والے خود بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان کے علماء کرام اور دینی حلقوں کو یہ طعنہ دینا سراسر ناانصافی ہے اور یہ حقائق و واقعات کے سراسر منافی ہے۔ لیکن ان کی یہ مجبوری ہے کہ اس کے سوا اور کوئی الزام اور طعنہ ان کے ترکش میں باقی نہیں رہ گیا۔ پہلے پاکستان کے علماء کرام پر فرقہ پرستی کا الزام لگایا جاتا تھا اور نفاذ اسلام کے امکانات کو روکنے کے لیے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ علماء تو فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، ان میں سے کس فرقے کا اسلام نافذ کیا جائے؟ لیکن پاکستان کے علماء کرام اور دینی حلقوں نے علمی اور سیاسی دونوں محاذوں پر متحد ہو کر اس طعنے کے غبارے سے ہوا خارج کر دی ہے۔ وہ قانون سازی کے علمی فورم ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ میں بھی اکٹھے ہیں اور نفاذ اسلام کے سیاسی محاذ ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ میں بھی یکجا ہیں۔ اسلامی قوانین کی تعبیر و تشریح اور ان کے نفاذ کی عملی صورتوں کے حوالے سے ان کے درمیان کوئی ایسا خلا یا اختلاف دکھائی نہیں دے رہا جسے بہانہ بنا کر انہیں فرقہ پرستی کا طعنہ دیا جا سکے۔
البتہ طالبان کے خلاف گزشتہ دو سال کے دوران جو فضا جان بوجھ کر عالمی سطح پر بنائی گئی ہے اور صرف اس لیے بنائی گئی ہے کہ اس کی آڑ میں اسلام کی مخالفت کی جا سکے، دینی قوتوں کو گالی دی جا سکے اور اسلامی احکام کا مذاق اڑایا جا سکے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی دینی قوتوں اور ملک کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے خلاف نئی مہم کی منصوبہ بندی کا آغاز ہو گیا ہے، ورنہ نہ طالبان نے اسلام کا کوئی نیا نقشہ پیش کیا ہے کہ انہوں نے کوئی ایسا حکم یا قانون افغانستان میں نافذ کیا ہو جو ان کا خود ساختہ ہو، اور جس کا تذکرہ قرآن و سنت اور امت کے چودہ سو سالہ فقہی ذخیرے میں پہلے سے موجود نہ ہو، اور نہ ہی پاکستان کی دینی قوتوں نے نفاذ اسلام کے لیے طالبان کا طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ اس لیے کہ ’’قرارداد مقاصد‘‘ سے لے کر سرحد اسمبلی کے حالیہ ’’شریعت ایکٹ‘‘ تک کے لیے جتنے اقدامات بھی ہوئے ہیں، جمہوری طریق کار کے مطابق ہوئے ہیں، منتخب اسمبلیوں کے ذریعے ہوئے ہیں، اور عوامی ووٹ اور مینڈیٹ کی بنیاد پر ہوئے ہیں۔
- قرارداد مقاصد میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا تو اسے تسلیم کرنے والے اور پاکستان کے دستور کی بنیاد بنانے والے دستور ساز اسمبلی کے منتخب ارکان تھے۔
- ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلام کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دیا گیا، اسلام کے خلاف کوئی قانون نہ بنائے جانے کی گارنٹی دی گئی، تمام مروجہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کا وعدہ کیا گیا، اور اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی تو ایسا کرنے والے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے تھے اور عوام نے انہیں دستور سازی کے اختیارات دے کر اسمبلی میں بھیجا تھا۔
- ۱۹۷۲ء میں مولانا مفتی محمودؒ نے صوبہ سرحد کی وزارت اعلیٰ کے مختصر دور میں چند اسلامی اصلاحات کیں تو ان کی پشت پر منتخب سرحد اسمبلی کی اکثریت تھی۔
- صدر ضیاء الحق مرحوم نے قرارداد مقاصد کو دستور کا واجب العمل حصہ قرار دیا اور قوانین کی قرآن و سنت کی روشنی میں تشریح کے لیے وفاقی شرعی عدالت قائم کی تو ان اقدامات کو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی اسمبلی نے باقاعدہ ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنا دیا تھا۔
- اور اب سرحد اسمبلی نے شریعت ایکٹ پاس کیا ہے تو اس کے پیچھے جمہوری پراسس کا تسلسل ہے، اسمبلی کی اکثریت ہے اور عوامی ووٹ کا مینڈیٹ ہے۔
لیکن چونکہ یہ سب کچھ مغرب کی مرضی کے خلاف ہے، اس لیے ’’جمہوریت کے منافی‘‘ ہے اور ’’طالبانائزیشن‘‘ ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ مغرب اور اس کے ہمنوا مسلم حکمرانوں کے نزدیک جمہوریت کا معنیٰ یہ نہیں کہ ملک کے عوام کیا چاہتے ہیں اور منتخب اسمبلیاں کیا فیصلہ کرتی ہیں؟ بلکہ جمہوریت کا مطلب صرف یہ ہے کہ مغرب کیا چاہتا ہے اور اس کے فلسفہ اور مفادات سے کون سی چیز مطابقت رکھتی ہے؟
یہی معاملہ اسرائیل کے حوالے سے بھی ہے۔ بظاہر اس جملہ کو معروضی حقائق کے خوبصورت لیبل کے ساتھ بعض حلقوں میں ضرور سراہا جائے گا کہ ’’ہمارا اسرائیل کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے‘‘ لیکن کیا واقعی ہمارا اسرائیل کے ساتھ کوئی تنازع نہیں ہے؟ ہمارا عقیدہ، قرآنی تعلیمات، سنت نبویؐ اور چودہ سو سالہ تاریخ اس کی نفی کرتے ہیں۔
- قرآن کریم نے یہودیوں کو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے اور مسلمانوں کے بارے میں یہودیوں اور اسرائیل کا طرز عمل روز روشن کی طرح قرآن کریم کے اس ارشاد کی صداقت کی گواہی دے رہا ہے۔
- جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں کہ کسی ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم اسے محسوس کرتا ہے۔ اسی فلسفہ اور عقیدہ کی وجہ سے محمد بن قاسمؒ نے سندھ میں مسلمان بیٹیوں کی بے حرمتی کا نوٹس لیا تھا اور اسلامی لشکر کے ساتھ ملتان تک آ پہنچا تھا۔ اور اسی فلسفہ و عقیدہ کی وجہ سے مشرقی یورپ میں بلقان کے مسلمانوں کی مظلومیت پر ہمارے اکابر جنوبی ایشیا کے اس خطے میں تڑپ اٹھے تھے۔
لیکن یورپ نے وطنی اور لسانی قومیت کے دائروں میں ہمیں ایسے الجھا دیا کہ ہم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی پر ایمان قائم رکھنے کی بجائے یورپ کے وطنی قومیت کے فلسفہ پر ایمان لے آئے ہیں۔ اور اس نیشنلزم پر ہمارا ایمان اس قدر پختہ ہو گیا ہے کہ ہم نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر اپنے پڑوس میں اپنے بھائیوں، دوستوں اور بہی خوابوں کا گلا کٹوا دیا ہے۔ اور اب فلسطینیوں سے ان کا وطن چھیننے والے یہودیوں اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے والے اسرائیل کے ساتھ ہمارا کوئی تنازع باقی نہیں رہا۔
بہرحال یہ اسلام اور مغرب کے درمیان گزشتہ دو سو برس سے جاری نظریاتی، فکری اور تہذیبی کشمکش کا تازہ ترین منظر ہے اور اس کے مستقبل کا رخ بھی کسی باشعور سے مخفی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مغرب کی اس نئی یلغار کے مقابلہ میں ہمارا موجودہ اور روایتی طرز عمل کفایت کر جائے گا؟ ہم نتائج کے حوالے سے یہ گزارش نہیں کر رہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں، اور ہم نتائج کی بجائے صرف صحیح رخ پر اپنی استطاعت کے مطابق جدوجہد کے مکلف ہیں۔ مگر اس قدر درخواست اپنے علمی مراکز، دینی قیادت اور ارباب فکر و دانش سے کرنا چاہیں گے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیشی اور جواب طلبی کا منظر سامنے رکھتے ہوئے ہم میں سے ہر شخص کو یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق صحیح رخ پر جدوجہد کے جو تقاضے ہیں کیا ہم وہ پورے کر رہے ہیں؟ اور کیا انہیں پورا کرنے میں ہم سنجیدہ بھی ہیں؟ خدا کرے کہ ہم وقت کی اس ناگزیر ضرورت کو بروقت سمجھ سکیں، آمین یا رب العالمین۔