کشمیر اور افغانستان کی تازہ صورتحال پر ایک نظر

   
۱۲ ستمبر ۲۰۱۹ء

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینیتھ میکنزی کے درمیان گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہونے والی ملاقات خطہ کی موجودہ صورتحال بالخصوص کشمیر اور افغان مسئلہ کے حوالہ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس سے دور رس نتائج کی توقع کی جا رہی ہے۔

افغانستان کے حوالہ سے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ایک عرصہ سے جاری مذاکرات اچانک ڈیڈلاک کا شکار ہوگئے ہیں اور عین اس وقت جب کہ مذاکرات کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کی خبروں کے ساتھ ساتھ معاہدہ کے لیے صدر امریکہ کے ساتھ افغان طالبان کے وفد کی ملاقات کی تاریخ کا بھی تعین ہو چکا تھا، صدر ٹرمپ نے اچانک مذاکرات روک دینے کا اعلان کر دیا ہے جس سے معاملات ایک ڈرامائی رخ کی طرف مڑ گئے ہیں۔ بین الاقوامی حلقے مذاکرات کی اچانک منسوخی کے اس عمل کو وائٹ ہاؤس، پینٹاگان اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاہدہ کے معاملہ میں انڈراسٹینڈنگ کے فقدان کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں جبکہ صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر اس کا سارا ملبہ طالبان پر ڈال دیا ہے کہ مذاکرات کے آخری مرحلہ میں کابل میں ان کی طرف سے کیا جانے والا حملہ اس کی فوری وجہ بنا ہے۔ حالانکہ اس قسم کے حملے مذاکرات کے دوران امریکی کیمپ کی طرف سے بھی افغان شہریوں اور طالبان کے خلاف مسلسل جاری رہے ہیں، اور ابھی چند روز قبل ایسے ہی ایک حملہ میں بہت سے افغان شہری شہادت سے ہمکنار ہوئے ہیں۔

افغان طالبان سے اصرار کے ساتھ یہ تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ وہ معاہدہ سے قبل جنگ بندی کا اعلان کریں، مگر امارت اسلامیہ افغانستان کا کہنا ہے کہ معاملات کا حتمی طور پر باضابطہ اعلان ہو جانے سے قبل وہ سیزفائر کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہمارے خیال میں ان کی یہ بات دو حوالوں سے قابل توجہ ہے، ایک اس لیے کہ وہ خود امریکی اتحاد یا افغان فورسز سے معاہدہ کے باضابطہ اعلان سے پہلے فائربندی کا تقاضہ نہیں کر رہے، اور دوسرا اس حوالہ سے کہ افغان عوام اس سے قبل جنیوا معاہدہ کی صورت میں اس چال کا شکار ہو چکے ہیں کہ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد کے معاملات طے کیے بغیر معاہدہ کا اعلان افغانستان کو ایک نئے بحران اور خلفشار میں دھکیلنے کا باعث بن گیا تھا۔ باخبر حضرات جانتے ہیں کہ اس موقع پر جنرل ضیاء الحق شہیدؒ کا موقف یہ تھا کہ معاہدہ سے پہلے اس کے بعد کے معاملات سیٹ کر لیے جائیں تاکہ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد کوئی نیا بحران کھڑا نہ ہو جائے، مگر ان کی بات نہیں سنی گئی اور جنیوا معاہدہ کرنے والوں نے من مانی کر کے افغانستان کو خانہ جنگی کی ایک نئی دلدل سے دوچار کر دیا۔ ہمارا خیال ہے کہ افغان طالبان کی موجودہ قیادت اس تجربہ کے اعادہ سے بچنا چاہتی ہے اور تمام معاملات طے کرنے کے بعد فائربندی کا اعلان کرنا چاہتی ہے اور یہ بات ناقابل فہم بھی نہیں ہے۔ اس لیے امریکہ اور پاکستان دونوں کی سیاسی و فوجی قیادتوں سے ہماری درخواست ہے کہ وہ افغان عوام کو ایک اور ’’جنیوا معاہدہ‘‘ میں یکطرفہ طور پر جکڑ دینے کی بجائے ان کی بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور انہیں پوری طرح اعتماد میں لیے بغیر کسی ایسے معاہدے کا رسک نہ لیں جو خطہ میں ان کی بحالی کی بجائے کسی نئے خلفشار کا عنوان بن جائے۔

دوسری طرف مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہم آزادکشمیر کے بزرگ عالم دین اور پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی نائب امیر اول مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی کے اس بیان کو انتہائی قابل توجہ سمجھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارتی جبر و تشدد کی موجودہ سنگین صورتحال سے نجات دلانے اور انہیں اقوام متحدہ کے فیصلوں کے مطابق خودارادیت کا حق دلوانے کے لیے جہاد کے باقاعدہ اعلان کا آپشن بھی زیرغور لایا جائے، یہ بات جہاد کے شرعی احکام کے حوالہ سے تو ہماری ذمہ داری بنتی ہی ہے مگر اس لیے بھی سنجیدہ توجہ کی طلبگار ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کی موجودہ ریاست جہاد ہی کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اور جہاد کا وہ شرعی فتوٰی جو ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف ۱۹۴۷ء میں سرکردہ علماء کرام کی طرف سے جاری کیا گیا تھا اور جس پر عملدرآمد کے ذریعے آزاد جموں و کشمیر کے موجودہ خطہ کو آزاد کرایا گیا تھا، اس کا وجود اور تسلسل ابھی جاری ہے اور پیشرفت کا تقاضہ کر رہا ہے۔

اس سلسلہ میں ہماری گزارش یہ ہے کہ حکومت آزاد کشمیر، ریاست آزاد جموں و کشمیر کے ذمہ دار مفتیان کرام کا اجلاس طلب کر کے مشترکہ موقف اور سفارشات طے کرے اور پھر اس کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وفاقی وزارت مذہبی امور تمام مکاتب فکر کے سرکردہ مفتیان کرام کا قومی اجلاس منعقد کر کے مشترکہ لائحہ عمل کا تعین کرے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ جہاد کے باضابطہ اعلان کا حق صرف ریاست کو ہے اور پرائیویٹ سیکٹر میں کوئی شخص یا ادارہ اس کا مجاز نہیں ہے، مگر ریاست کا یہ اختیار اور حق اس استحقاق کو کام میں لانے کے لیے ہے، خاموشی اختیار کرنے یا شرعی ضرورت کو نظرانداز کرتے چلے جانے کے لیے نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت آزاد کشمیر اور پاکستان کی وفاقی وزارت مذہبی امور دونوں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter