جوہر آباد سے فون پر ایک دوست نے توجہ دلائی ہے کہ میں نے ایران کے سفر کے حوالہ سے مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا شاہ احمد نورانیؒ کے بارے میں اپنے گزشتہ کالم میں جو کچھ لکھا ہے، اس میں کچھ گڑبڑ ہوئی ہے۔ اس لیے کہ یہ سفر ۱۹۸۷ء میں ہوا، جبکہ مولانا مفتی محمودؒ اس سے سات سال قبل وفات پا چکے تھے۔ اس دوست کا کہنا بجا ہے، اصل بات یہ ہے کہ میں اپنی گفتگو صحیح طور پر بیان نہیں کر سکا۔ میں نے وہاں یہ کہا تھا کہ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیٰ کے بعد مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا شاہ احمد نورانیؒ دونوں اس پوزیشن میں تھے کہ وہ جناب خمینی کی طرز پر عوامی انقلاب کی قیادت کر سکتے تھے اور اس وقت اس کا ماحول بھی تھا، لیکن دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ ایک رکاوٹ یہ بھی تھی کہ مولانا مفتی محمودؒ آگے بڑھتے تو مولانا شاہ احمد نورانیؒ کے پیروکاروں کے لیے قابلِ قبول نہ ہوتے اور مولانا شاہ احمد نورانیؒ کا آگے بڑھنا مولانا مفتی محمودؒ کے پیروکاروں کے لیے آسانی سے ہضم ہونے والی بات نہ ہوتی۔ یہ بات ادھوری نقل ہونے کی وجہ سے اشکال پیدا ہوا ہے، اس کی تصحیح کر لی جائے۔
آج کل کسی حد تک خوشی کی ایک بات یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق اس محاذ پر متحرک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کہ مسلکی قوت کو کس طرح مجتمع کیا جائے اور قومی خود مختاری کے تحفظ کے عنوان پر دینی جماعتوں کا کوئی مشترکہ فورم منظم کیا جائے۔ میری کچھ عرصہ سے یہ رائے ہے کہ موجودہ معروضی حالات میں مولانا سمیع الحق اگر سنجیدگی کے ساتھ اس کام کے لیے کمربستہ ہو جائیں تو کچھ نہ کچھ نہیں، بلکہ بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ وہ جمعیت علماء اسلام کے ایک دھڑے کے قائد ہیں، پارلیمانی سیاست کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور علاقائی تناظر میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق رحمہ اللہ اور دارالعلوم حقانیہ کا مضبوط حوالہ ان کی پشت پر موجود ہے۔ میں نے گزشتہ رمضان المبارک سے قبل خود اکوڑہ خٹک حاضر ہو کر مولانا موصوف سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ متحرک ہوں اور پہلے ہم مسلک جماعتوں اور پھر مختلف مکاتب فکر کی جماعتوں کے مشترکہ اجلاسوں کا اہتمام کریں، تاکہ موجودہ قومی اور علاقائی صورت حال میں دینی جماعتوں کا کوئی مشترکہ موقف سامنے لایا جا سکے۔
والد محترم امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے اپنی وفات سے کم و بیش دو ماہ قبل مجھے بلایا اور ملکی صورت حال پر انتہائی اضطراب اور بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ اس سلسلہ میں کیا ہو سکتا ہے اور کون کچھ کر سکتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کم از کم یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ دینی جماعتوں کا مشترکہ کنونشن طلب کر کے ایک اجتماعی موقف لایا جائے۔ میرے نزدیک ایسا کرنے سے نصف کام تو ہو جائے گا، باقی نصف کے لیے جو جماعت یا حلقہ جتنا ہو سکے گا اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا رہے گا اور موجودہ حالات میں میرے خیال میں یہ کام مولانا سمیع الحق صاحب زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ اس پر والد محترم نے مولانا سمیع الحق کو پیغام بھجوایا کہ وقت نکال کر گکھڑ تشریف لائیں۔ وہ ۱۰ اپریل کو گکھڑ آئے، مجھے بھی حضرت والد محترم نے طلب فرمایا اور میں نے وہی بات، جو پہلے ان سے عرض کر چکا تھا، مولانا سمیع الحق کی موجودگی میں پھر دہرا دی۔ جس پر والد محترم نے مولانا موصوف سے فرمایا کہ وہ اس سلسلہ میں کچھ کریں اور مولانا نے وعدہ کر لیا۔ اس کے ۲۵ روز بعد پانچ مئی کو حضرت والد محترمؒ کا انتقال ہو گیا اور میرے دل میں ایک کسک سی رہ گئی کہ یہ پیشرفت ان کی موجودگی میں ہو جاتی تو زیادہ بہتر تھی۔
گزشتہ ماہ مولانا سمیع الحق کی جمعیت علماء اسلام کے صوبہ پنجاب کے سیکریٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی نے لاہور میں دیوبندی جماعتوں کے صوبائی راہ نماؤں کا ایک اجلاس طلب کیا، جس میں راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں شریک جماعتوں میں صوبائی قائدین نے ایک مشترکہ بورڈ تشکیل دے کر یہ طے کیا کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں کے قائدین کو مرکزی سطح پر مل بیٹھنے کے لیے آمادہ کریں گے اور صوبائی سطح پر باہمی مشاورت کو فروغ دے کر اس کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ میں نے اس موقع پر بھی عرض کیا کہ مولانا سمیع الحق اگر متحرک ہوں تو اب بھی میرے خیال میں کوئی مثبت اور خاطر خواہ نتیجہ سامنے آ سکتا ہے، ہمارا مقصد کام کو آگے بڑھانا ہے اور میں بوجوہ یہ سمجھتا ہوں کہ مولانا سمیع الحق کے علاوہ کوئی اور شخصیت آگے بڑھی تو مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
مجھے خوشی ہوئی ہے کہ مولانا سمیع الحق نے علالت اور بڑھاپے کے باوجود اس ضرورت کا احساس کیا ہے اور لاہور میں اپنی جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد کر کے تحریکی سیاست میں پھر سے متحرک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے بعد لاہور میں ہی ”دفاعِ اسلام و استحکامِ پاکستان کنونشن“ کے عنوان سے علماء اور دینی کارکنوں کا بھرپور اور پرجوش اجتماع منعقد کر کے یہ امید دلائی ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے سنجیدہ ہیں اور قومی خود مختاری کے تحفظ کے لیے دینی قوتوں کو مجتمع اور منظم کرنے میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس کنونشن میں راقم الحروف نے بھی شرکت کی اور یقین دلایا کہ اگر یہ مہم سنجیدگی سے آگے بڑھی تو حتی الوسع میں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ اس میں حصہ لوں گا۔ بعض دوستوں نے میرے اس اعلان کو متحرک جماعتی زندگی کی طرف میری واپسی سمجھا، مگر میں نے ان پر واضح کر دیا کہ اس کا مطلب متحرک جماعتی زندگی کی طرف واپسی نہیں ہے، بلکہ میں اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے قومی خود مختاری کی تحریک کی حد تک تعاون کا اعلان کر رہا ہوں اور یہ اعلان صرف مولانا سمیع الحق کے لیے نہیں، بلکہ کوئی بھی دینی جماعت، خواہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہو، اگر قومی خود مختاری کے تحفظ (بلکہ میرے نزدیک اس کی بحالی) کے لیے میدان میں آتی ہے تو اپنے دائرہ کار اور استطاعت کے مطابق میری خدمات اس کے لیے ان شاء اللہ العزیز حاضر ہوں گی۔
اس کے ساتھ ہی اس مقصد کے لیے جہد و حرکت کے ایک اور دائرہ کی طرف بھی قارئین کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
اس سے قبل اس کالم میں ایک سے زائد بار ذکر کر چکا ہوں کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہیدؒ کی زندگی میں ہم نے ان کے ساتھ مل کر مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام پر مشتمل ایک علمی فورم ”ملی مجلس شرعی“ کے نام سے تشکیل دیا تھا، جس کے کنوینر ڈاکٹر صاحب موصوف تھے اور ان کے ساتھ مولانا مفتی محمد خان قادری، مولانا خلیل احمد قادری، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف، مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی، جناب حافظ عاکف سعید، جناب فرید پراچہ، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور راقم الحروف بھی متحرک رہے ہیں۔ یہ فورم آہستہ آہستہ قومی خود مختاری کے لیے تحریک کی طرف بڑھ رہا تھا، حتی کہ جس دن ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہید ہوئے، اس روز بھی شام کو اسی مقصد کے لیے ہمارا ایک اجلاس ان کی صدارت میں ہونے والا تھا، مگر وہ سارا کام ادھورا رہ گیا۔ اب اس کام کو دوبارہ شروع کیا گیا ہے، جس کے لیے مولانا مفتی محمد خان قادری کو ”ملی مجلس شرعی“کا کنوینر اور پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کو رابطہ سیکریٹری منتخب کیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں مجلس نے اپنے ایک اجلاس میں طے کیا کہ باقی سارے مسائل کو سرِدست مؤخر کرتے ہوئے پہلے مرحلہ میں منتخب مکاتب فکر کے علماء کرام اور سول سوسائٹی کے مختلف طبقات کے افراد کو ”غیر ملکی مداخلت کے خاتمہ اور قومی خود مختاری کے تحفظ“ کے یک نکاتی ایجنڈے پر مجتمع کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک منظم عوامی تحریک کی راہ ہموار کی جائے۔ اس کے پہلے مرحلے کے طور پر گزشتہ روز ۱۰ جنوری کو لاہور میں ایک بھرپور اور نمائندہ اجتماع منعقد ہوا، جس میں جنرل حمید گل مہمان خصوصی تھے، اس کی تفصیل اگلے کالم میں پیش کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ان گزارشات کا مقصد ایک تو یہ ہے کہ قارئین کو اس سلسلہ میں ہونے والی سرگرمیوں سے باخبر رکھا جائے اور دوستوں کو حوصلہ دلایا جائے کہ اس محاذ پر مکمل سناٹا اور خاموشی نہیں ہے، بلکہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ دوسری غرض یہ ہے کہ اس حوالہ سے دلچسپی رکھنے والے حضرات سے گزارش کی جائے کہ وہ اس ساری صورت حال میں خاموش تماشائی نہ رہیں، بلکہ کچھ نہ کچھ ضرور کریں۔ کام کے میدان مختلف ہیں اور ضروریات کے دائرے بھی متعدد اور متنوع ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر شخص اپنے ذوق، مواقع اور اسلوب کے مطابق ہی کام کرے گا اور کرنا بھی ایسے ہی چاہیے، لیکن دو گزارشات ہر ساتھی اور دوست سے کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
- ایک یہ کہ کام اپنے ذوق، دائرہ کار اور احوال و ظروف کے مطابق ہی کریں، لیکن کچھ نہ کچھ بہرحال ضرور کریں، خاموش نہ بیٹھیں۔
- جبکہ دوسری گزارش یہ ہے کہ جو شخص یا جو جماعت اس سلسلہ میں کسی بھی انداز میں جو کچھ بھی کر رہی ہے، اس کی نفی نہ کریں، بلکہ اس کا احترام کرتے ہوئے باہمی مفاہمت اور معاونت کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔
اس وقت ہم قومی زندگی کے سنگین ترین مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر، ایک دوسرے کا ساتھ دے کر اور ایک دوسرے کو تقویت پہنچا کر ہی ہم یہ کٹھن مرحلہ سر کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین یا رب العالمین۔