(مدیر الشریعہ مولانا زاہد الراشدی نے شعبان المعظم ۱۴۱۱ھ کے آخری ایام میں حرکۃ المجاہدین کے امیر مولانا فضل الرحمن خلیل کی دعوت پر افغانستان کے محاذ جنگ کا دورہ کیا اور مرکز حضرت عمرؓ، مرکز حضرت سلمان فارسیؓ، مرکز خلیل اور مرکز رشید میں مجاہدین سے ملاقاتوں کے علاوہ حرکۃ المجاہدین کے تربیتی کیمپوں میں جہاد کی ٹریننگ لینے والے نوجوانوں سے بھی خطاب کیا۔ مدیر الشریعہ کے چھوٹے فرزند حافظ ناصر الدین خان عامر اور بھانجے نبیل عدنان خان بھی سفر میں ان کے ہمراہ تھے۔ مرکز حضرت عمرؓ (ژاور) میں مدیر الشریعہ کا خطاب ہمارے رفیق محترم مولانا اللہ وسایا قاسم نے ٹیپ ریکارڈ کی مدد سے مرتب کر کے ارسال کیا ہے جسے ان کے شکریہ کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ الشریعہ)
بعد الحمد والصلوۃ۔ میرے محترم دوستو اور جذبہ جہاد سے سرشار بھائیو! آپ حضرات مختلف علاقوں سے اپنے معمولات، گھر بار، مصروفیات اور مشاغل چھوڑ کر ایک بے آب و گیاہ وادی کی سنگلاخ چٹانوں میں جمع ہیں۔ آپ کے یہاں جمع ہونے کا ایک مقصد ہے، وہ مقصد آپ دلوں میں لیے جوش و جذبہ کے ساتھ اپنے ایمان کو حرارت دے رہے ہیں، اللہ تعالٰی آپ کے اس مقصد میں آپ کو اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائے، آمین۔ وہ مقصد یہ ہے کہ آج کے دور میں جہاد کا فریضہ مسلمانوں کی عملی زندگی سے نکل چکا ہے، وہ فریضہ مسلمانوں کے عملی زندگی میں دوبارہ آ جائے۔ ہم دنیا میں مسلمان کہلاتے ہیں، مسلمان سمجھے جاتے ہیں لیکن ہمارا اپنے ہتھیار کے ساتھ، اسلحہ کے ساتھ، زیور کے ساتھ تعلق منقطع ہو چکا تھا، وہ ہمارا تعلق دوبارہ قائم ہو جائے۔ ہم پہلے والے مسلمانوں کی طرح زندگی میں کوئی حرکت پیدا کر سکیں اور عالم اسلام میں جہاد کے عمل کو دوبارہ زندہ کر کے جہاد کی برکات اور اس کے نتائج سے ہم دنیا کو بہرہ ور کر سکیں۔ یہی مقصد ہے نا جی!۔ ہاں، اس کے سوا تو کوئی مقصد نہیں ہے۔
سچی بات یہ ہے جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات ارشاد فرمائی تھی کہ جب تم جہاد کو ترک کر دو گے اور دنیا کے کاموں میں پڑ جاؤ گے تو تم پر ذلت مسلط ہو گی۔ ایک تو عقیدت و محبت کی بات ہے کہ ہم حضور اکرمؐ کے اس ارشاد کو حقیقت جانیں اور جانتے ہیں کہ نبی اکرمؐ کی زبان سے جو بات نکلی ہے وہ سچی ہے اور سچی ہو کر رہے گی۔ یہ عقیدت اور محبت کی بات ہے جو ہر مسلمان کے دل میں اسی درجہ کی عقیدت ہے کہ دنیا بھر کی باتیں غلط ہو سکتی ہیں مگر نبی اکرمؐ کا ارشاد سچا ہے۔ جبکہ عقیدت اور محبت سے تھوڑا سا صرف نظر کرتے ہوئے تاریخ کے میزان پر بھی آنحضرتؐ کا یہ ارشاد حرف بحرف پورا اتر رہا ہے۔ جو نقشہ تاریخ ہمارے سامنے کھینچتی ہے اور جو نقشہ آج دنیا میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، آج دنیا میں مسلمانوں کی حالت اور گزشتہ ایک صدی میں مسلمانوں کا جو تاریخی سفر رہا ہے، حضورؐ کے اسی ارشاد کی حرف بحرف تائید کرتا ہے۔ آج دنیا میں عالم اسلام پر ایک نظر ڈال لیں، مسلمان دنیا میں جو بستے ہیں ان کی تعداد دنیا میں ایک ارب سے زیادہ سمجھی جاتی ہے اور یقیناً ایک ارب سے زیادہ ہے، مگر یہ ایک ارب سے زیادہ مسلمان دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
- ایک حصہ مسلمانوں کا وہ ہے جو بظاہر آزاد ممالک و اقوام کی حیثیت سے رہتا ہے، چالیس چوالیس حکومتیں ہیں مسلمانوں کی جو آزاد کہلاتے ہیں، مسلمان حکمران ہیں، اقتدار کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، غالب حصہ مسلمانوں کا خود کو آزاد سمجھ کر زندگی بسر کر رہا ہے۔
- لیکن ایک بڑا حصہ مسلمانوں کا وہ بھی ہے جو غیر مسلم ممالک میں غیر مسلم حکومتوں کے نیچے ظالم اور غاصب حکومتوں کے نیچے ایک غلام قوم کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج کی دنیا کی اصطلاح میں وہ دوسری اقوام کے غلام ہیں، دوسری قوموں کے ماتحت ہیں، ان پر دوسری قوموں کا تسلط ہے غلبہ ہے، جبر و ظلم ہے۔ آپ کشمیر کو دیکھ لیں، اراکان، فلپائن اور مورو کو دیکھیں۔ بخارا، سمرقند، آذربائیجان کو دیکھیں، ارییٹریا اور فلسطین کو دیکھیں۔ یہ معروف خطے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے مسلمان رہتے ہیں لیکن ان پر حکومت غیر مسلموں کی ہے، ان پر جبر ہے ظلم ہے وہ غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
جو آزاد ہیں، ان کی حالت بھی یہ ہے کہ کہنے کو آزاد ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ آزاد کہلانے کے باوجود ہماری پالیسیاں اور ہمارے معاملات ہمارے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہیں۔ یہ ایک واضح سی حقیقت ہے ایک زندہ حقیقت ہے۔ ہم اپنی مرضی سے اپنی پالیسیاں مرتب نہیں کر سکتے، اپنی مرضی سے اپنے معاملات طے نہیں کر سکتے، ریموٹ کنٹرول غلامی ہم پر مسلط ہے۔ ہم بھی کافر قوموں کے غلام ہیں، کافروں کے ماتحت ہیں، ہمارے معاملات بھی وہیں طے ہوتے ہیں جہاں ہمارے مظلوم اور بظاہر غلام نظر آنے والے مسلمانوں کے معاملات طے ہوتے ہیں۔ آج دیکھیے، دنیا کا کوئی ایک خطہ ہے جہاں ہم مسلمان بحیثیت مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی مکمل طور پر قرآن و سنت کے مطابق بسر کر رہے ہوں اور نظام شریعت مکمل طور پر نافذ ہو؟ کوئی ایک خطہ زمین نظر نہیں آتا۔ میں نے مکمل کی شرط لگائی ہے جہاں قرآن و سنت کی حکمرانی مکمل طور پر نافذ ہو، شریعت اسلامیہ کی بالادستی مکمل طور پر۔ ایک ارب سے زیادہ آبادی اور چوالیس ملکوں میں کوئی ایک خطہ نظر آتا ہے؟
اس کیفیت میں ہم مسلمان دنیا میں کس حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ دنیا میں وسائل ہمارے پاس ہیں، دولت ہمارے پاس ہے، تیل ہمارے پاس ہے، افرادی قوت ہمارے پاس ہے، ذہنی قوت ہمارے پاس ہے، اسباب کے اعتبار سے کمی نہیں ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں ہم جو دوسری قوتوں کی ترقی کا رونا روتے ہیں کہ امریکہ نے بڑی ترقی کی، روس نے بڑی ترقی کی، چاند پر جا پہنچے، سب سے بڑی بات یہی کہی جاتی ہے نا کہ امریکہ اور روس کہاں پہنچے ہیں چاند پر ڈیرے لگا لیے، ہوا کو مسخر کر لیا، کیا آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ کا اپالو الیون جو چاند پر پہنچا تھا، اس اپالو الیون کی منصوبہ بندی کس نے کی تھی، وہ کونسا سائنسدان تھا جس نے اپالو الیون کو تیاری کرائی، اپالو الیون بھجوایا، سارے پروگرام کی پلاننگ کی اور سارے منصوبہ کا انچارج تھا؟ آپ کا کیا خیال ہے وہ کوئی جرمن سائنسدان ہوگا، وہ مسلمان سائنسدان ہے مصر کا ہے، ڈاکٹر فاروق الباز اس کا نام ہے۔ سب سے پہلا جو اپالو چاند پر پہنچا مسلمان سائنسدان کے ہاتھوں پہنچا ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسباب کی کمی نہیں ہے دولت کی کمی نہیں ہے، ذہانت کی کمی نہیں ہے، دولت جتنی مسلمان کے پاس ہے اور کس کے پاس ہے؟ کویت پر جس دن عراق کا قبضہ ہوا تھا دنیا میں سب سے مہنگی کرنسی کویت کی تھی۔ اس دن ایک دینار کی پاکستان کے مطابق ۷۵ روپے قیمت تھی۔ دولت، وسائل، ذہانت، افرادی قوت کس لحاظ سے ہم میں کمی ہے؟ لیکن یہ ساری چیزیں کون استعمال کر رہا ہے؟ ہماری افرادی قوت کون استعمال کر رہا ہے؟ ہماری دولت کون استعمال کر رہا ہے؟ ہمارے وسائل کون استعمال کر رہا ہے؟ کافر۔ وجہ؟ آپ سوچ سکتے ہیں دشمن اس حد تک ہوشیار ہے کہ ہمارے گھر میں بیٹھ کر ہمارے پیسے جیب میں ڈال کر ہمیں ہی مار رہا ہے۔ میں نے غلط بات تو نہیں کی۔ دشمن خلیج میں ہمارے گھر میں بیٹھ کر ہم سے خرچہ وصول کر کے ہمیں ہی ذبح کر گیا ہے۔ ابھی پتہ نہیں کتنے کرے گا۔ پیسے ہمارے خرچ ہوتے ہیں زمین ہماری برباد ہوئی، قوت ہماری تباہ ہوئی ہے اور ذبح بھی ہم ہی ہوئے ہیں۔ اور دشمن بڑے آرام سے، بڑے سکون سے، بڑے اعتماد سے، بڑے حسن و خوبی سے اپنا پلان مکمل کر کے مطمئن بیٹھا ہے کہ جس کام کے لیے میں آیا تھا وہ پورا ہو گیا ہے۔
یہ ساری بات کس وجہ سے ہے؟ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ گزشتہ دو سو سال میں ہم پر جو غیر ملکی استعمار کی حکمرانی رہی برطانیہ حکمران رہا ہے، فرانس حکمران رہا ہے، ہالینڈ حکمران رہا ہے، کسی کا انڈونیشیا پر تسلط تھا، کسی کا الجزائر پر تھا، کسی کا پاکستان پر تھا۔ انہوں نے دو سو سال کے عرصے میں کیا کیا ہے؟ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دو سو سال یہ کیا کرتے رہے، اس عرصہ میں ہم میں کیا تبدیلی پیدا کی ہے؟ دوسری قوم جب آتی ہے، اپنا تسلط قائم کرتی ہے تو مغلوب قوموں میں تبدیلی آتی ہے۔ ہم میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ دو مقاصد تھے ان کے اس گزشتہ دو سو سال کے عرصہ میں۔ استعماری قوتیں سامراجی قوتیں دو مقاصد لے کر آئی تھیں۔ ہم یقیناً خوش ہیں کہ ہم نے انہیں نکال دیا ہے لیکن ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیے کہ ان دونوں مقاصد میں وہ کامیاب ہیں۔ ذرا تجزیہ کیجئے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے۔ دونوں مقاصد میں وہ کامیاب ہیں۔ وہ مقاصد کیا تھے؟
مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اس نے نبوت کا دعوی کیا، نئی امت قائم کی، انگریز نے اس کو کھڑا کیا سپورٹ کیا، مقصد کیا تھا؟ وہ کیا کہتا ہے کہ میرے نبی بننے کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے ذہنوں سے جہاد کا تصور ختم کیا جائے، مجھے انگریز نے نبی اس لیے بنایا ہے۔ پچاس سے زیادہ الماریاں بھر جاتی ہیں اس کی کتابوں سے، کس بات پر؟ کہ جہاد اب حرام ہو گیا ہے۔ جہاد کا تصور مسلمان اپنے ذہنوں سے نکال دیں، جہاد کی مدت ختم ہو چکی ہے، جہاد کو حرام قرار دینا، جہاد کو مسلمانوں کے ذہنوں سے نکالنا، یہ میری زندگی کا مشن ہے۔ یہاں غلام احمد قادیانی کھڑا ہوا، ایران میں محمد علی باب کھڑا ہوا، مختلف علاقوں میں انگریز نے مختلف لوگ کھڑے کیے جہاد کے تصور کو مجروح کرنے کے لیے، ختم کرنے کے لیے، مسلمانوں کے ذہنوں سے نکالنے کے لیے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو ہم نے کافر بھی قرار دے دیا اور اس کی امت کو غیر مسلم اقلیت بھی قرار دلوا دیا۔ ان ساری کامیابیوں کے باوجود میں ذرا تلخ سا سوال کرنے لگا ہوں۔ انگریز اپنے ان گماشتوں کے ذریعے سے مسلمانوں کے ذہنوں سے جہاد کا تصور نکالنا چاہتا تھا، اس میں وہ کامیاب ہوا ہے یا ناکام ہوا ہے؟ جو ان جھوٹی نبوتوں کا مقصد تھا، ان کے پیچھے جو فلسفہ تھا، اس کا مشن تھا، اس میں کامیابی ہوئی ہے یا ناکامی ہوئی ہے؟ ہم سو دفعہ اور غیر مسلم اقلیت قرار دے دیں یہ تو عقیدے ایمان کی بات ہے، میں اس فیصلے کی تخفیف نہیں کر رہا، معاذ اللہ، لیکن میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انگریز نے اس قسم کے لوگوں کو کھڑا کر کے جو مشن قائم کیا تھا اس میں انگریز کامیاب ہوا ہے۔ انگریز کا مشن یہ تھا کہ مسلمانوں کے ذہنوں سے دو باتیں نکالی جائیں ایک خلافت کا اسلامی تصور اور دوسرا جہاد۔
آپ کو تاریخ سے تھوڑا بہت تعلق تو ہوگا، یہ موجودہ عرب جو مختلف ملکوں میں بٹا ہوا ہے، خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ خلافت عثمانیہ کا استنبول مرکز تھا، خلافت عثمانیہ ترکوں نے قائم کی تھی، پانچ سو سال تک ترکوں نے عالم اسلام کی خدمت کی ہے۔ حرمین کی حفاظت کی ہے، خلافت کا نظام قائم رکھا ہے، قرآن و سنت کے قوانین کسی نہ کسی درجے میں قائم رکھے ہیں۔ صدیوں تک مصر، شام، لبنان سعودی عرب، اردن سب اس کے ماتحت صوبے تھے۔ آج سے ستر سال پہلے انگریزوں نے عربوں کو نیشنلزم کے نام پر بھڑکایا، یہ قومیت جو ہے اس درجے کی قومیت جو دوسروں سے نفرت کی بنیاد پر ہو، یہ لعنت ہے۔ تعارف اور تشخص و امتیاز کی قومیت کو قرآن تسلیم کرتا ہے لیکن دوسروں سے نفرت کی بنیاد پر جو قومیت ہو وہ ملعون قومیت ہے۔ انگریز نے عربوں کو بھڑکایا کہ تم عرب ہو اور عجمی تم پر حکمران ہیں۔ تم تو عرب ہو رسول اللہؐ کے خاندان کے ہو۔ عرب بھڑکے ترکی کی خلافت کے خلاف۔ بغاوت کروا کے برطانیہ نے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے: اردن علیحدہ، شام علیحدہ، عراق علیحدہ، سعودی حجاز علیحدہ، مصر علیحدہ۔ اس وقت برطانیہ بڑی طاقت تھی اور برطانیہ نے اس وقت نیو ورلڈ آرڈر نافذ کیا اور یہ ٹکڑے چھوٹے چھوٹے کر کے درمیان سے اسرائیل نکالا۔ اسرائیل کوئی بڑا لمبا اور پرانا ملک نہیں ہے، یہاں مسلمان تھے۔ اس بندر بانٹ میں جو ترکی کے خلافت بغاوت کروا کے، عربوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر، اس وقت برطانیہ عظمیٰ نے جو اپنی مرضی کے مطابق نقشہ بنایا، اسی نقشے میں سے اسرائیل کی گنجائش نکالی۔
سمجھ میں آئی یہ بات؟ اب اس کی دوسری قسط آرہی ہے۔ پہلی قسط پون صدی پہلے برطانیہ نے دی تھی، دوسری قسط اب آرہی ہے اور امریکہ اس کو پورا کر رہا ہے۔ یہ بش کا جو نیو ورلڈ آرڈر ہے یہ ایسے نہیں ہے۔ بش کا نیو ورلڈ آرڈر برطانیہ کے اسی منصوبے کی تکمیل ہے۔ یہ جو کہتے ہیں خلیج کا سیاسی نقشہ تبدیل کریں گے جیسے برطانیہ نے کیا تھا ویسے ہی یہ کریں گے۔ خلیج میں ایک بڑی فوجی قوت تھی جو سازشی عناصر نے گھیر کر تباہ کر دی۔ اب اسرائیل وہاں کی بڑی قوت ہے، امریکہ کی فوجیں وہاں بیٹھی ہیں، اپنی مرضی سے بندر بانٹ کریں گے، نقشے بن چکے ہیں۔ اور میرے آپ کے جذبات سے یا میرے آپ کے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہمیں دکھ تو ہوگا یہ بات کہتے ہوئے سنتے ہوئے کہ یہ ساری مہم یہ سارا کچھ جو بھی ہوا پون صدی پہلے اسرائیل کے قیام کے لیے تھا اور اس کے نتیجہ میں اسرائیل قائم ہوا۔ اور اب یہ اسرائیل کی سرحدوں کو عظیم تر اسرائیل میں تبدیل کرنے کے لیے ہے، خدا میری بات پوری نہ کرے لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ یہ ہوگا، حالات اس رخ پر جا رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ یہ ہوگا۔ عظیم تر اسرائیل کا جو خواب ہے وہ پورا کریں گے۔ مجھے چند دن پہلے ایک دوست نے وہ نقشہ بجھوایا ہے عظیم تر اسرائیل، گریٹر اسرائیل جو ان کا منصوبہ ہے کہ اتنا بڑا اسرائیل ہم نے بنانا ہے۔ پورا مصر اس میں ہے، پورا شام اس میں ہے، پورا عراق اس میں ہے، آدھا سعودی عرب اس میں ہے، خیبر اس میں ہے، مدینہ منورہ اس میں ہے۔ ان کے منصوبہ کے نقشہ میں لکھا ہوا ہے۔ ان کا دعوی یہ ہے کہ مدینہ ہمارا تھا تم نے ہمیں نکالا تھا زبردستی۔ بنو خزرج، بنو مصطلق کو، بنو نضیر کو تم نے ہمیں نکالا تھا یہ ہمارا ہے۔ امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر اس طرح کا منصوبہ ہے جس طرح پون صدی پہلے خلیج کا نقشہ اپنی مرضی سے تبدیل کروا کر اپنا تسلط قائم کیا تھا۔
اللہ تعالٰی کی طرف سے کوئی اسباب پیدا ہو جائیں کچھ ہماری غیرت جاگ پڑے، آمین، لیکن بظاہر اس کے اسباب بھی نہیں۔ ہاں اللہ مسبب الاسباب ہے اس کو تو ایک منٹ نہیں لگتا اسباب پیدا کرنے میں، اللہ تعالٰی کی کوئی تکوینی بات غالب آ جائے، ہماری غیرت کہیں سے جاگے، اور شاید ہم اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو کوئی رکاوٹ ہو جائے، ورنہ بظاہر اس رخ میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں کہ بش اپنے نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعے خلیج کا نقشہ تبدیل کر کے اپنی مرضی کا سیاسی نقشہ بنانے میں اور اسرائیل کو علاقے کا بڑا چودھری بنانے میں ناکام ہو۔ اس کی کامیابی کے راستے کھلے ہیں، رکاوٹ بظاہر کوئی نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالٰی پیدا فرما دیں، وہ قادر مطلق ہے۔
ہماری حالت یہ ہے کہ ہم دنیا میں اس حالت میں کھڑے ہیں۔ یہ ساری باتیں کیوں ہیں؟ اس لیے کہ ہم اپنے بنیادی تصور سے ہٹ گئے ہیں، بنیادی تصور ہمارا کیا ہے؟ اسلام، قرآن و سنت۔ اسے شریعت کا نام دے دیں، اسے خلافت کا نام دے دیں، کوئی نام دے دیں، دین کی بالادستی کا، جہاد کا تصور۔ دنیا میں یہ منظر مسلمانوں کے حالات کا دیکھ کر اب وہ حدیث پڑھیں جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’جب تم جہاد کو چھوڑ دو گے خدا تم پر ذلت مسلط کر دے گا‘‘۔ تاریخ کو سامنے رکھ کر دنیا میں مسلمانوں کے حالات کو سامنے رکھ کر اب اس حدیث کو پڑھیں اب آپ کو صحیح سمجھ میں آئے گی کہ نبی کریمؐ کے ارشاد کا مقصد کیا تھا۔ اب ایک بات اور دیکھیں کہ آنے والا دور آپ دوستوں کے لیے بالخصوص، جو جہاد کا جذبہ دل میں رکھتے ہیں، جذبہ تڑپ ہے تو یہاں آئے ہیں، اللہ اس جذبہ کو مکمل فرمائے، اس کی تکمیل کی توفیق دے، اللہ اس شعلے کو اور بھڑکائے آمین۔ آپ دوستوں کے لیے جو آپ آنے والے حالات کے لیے خود کو تیار کرنا چاہتے ہیں، آنے والا دور بڑا سخت دور ہے، آنے والے دس بیس سال نظریاتی لوگوں کے لیے، جو کسی نظریہ اور مشن کی بات کرتے ہیں، ان کے لیے مشکل ترین دور ہے۔ اور وہ وقت آ رہا ہے، ’’حتی یقول الرسول والذین اٰمنوا معہ متی نصر اللہ‘‘ وہ وقت ابھی نہیں آیا، ابھی آ رہا ہے۔ ابھی حالات اس سے برے ہوں گے، حالات اس سے زیادہ خراب ہوں گے۔ وہ کیفیت ابھی نہیں آئی ’’وزلزلوا زلزالاً شدیدا۔ اذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر‘‘۔ ابھی وہ حالات آنے والے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ یورپ، امریکہ، روس، جاپان اور چین یہ سارے متحد ہوچکے ہیں، ایک بات پر یہ سارے متفق ہیں کہ مسلمان ملکوں میں سے کسی ملک میں بنیاد پرست حکومت نہیں بننے دیں گے۔ ’’بنیاد پرست‘‘ کا لفظ تو آپ سنتے ہیں، ہمارے لیے ہر دور میں ایک نئی گالی گھڑی جاتی ہے، پہلے ’’رجعت پسند‘‘ کہا جاتا تھا دقیانوسی رجعت پسند۔ اور آج ہمارے لیے نئی گالی کیا ہے، بنیاد پرست۔ یعنی وہ لوگ جو قرآن و سنت کا مکمل نظام خلافت راشدہ کی طرز پر چاہتے ہیں انہیں بنیاد پرست کہا جاتا ہے۔ اسلام میں کوئی ترمیم کیے بغیر، اسلام کو نئے دور کے ساتھ ہم آہنگ کیے بغیر، ہم آہنگ سے مراد یہ ہے ترمیمیں اور تبدیلیاں کیے بغیر، اصلی اسلام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے انہوں نے اصطلاح گھڑی ہے بنیاد پرست۔ آپ یہ بات ذہن میں رکھیں جب بھی بنیاد پرستی کی بات ہوگی تو مراد آپ ہوں گے اور یہ بات یہ لوگ طے کر چکے ہیں کہ بنیاد پرست حکومت دنیا کے کسی خطہ میں نہیں بننے دیں گے۔ افغانستان کے مسئلہ کے حل میں جو رکاوٹ ہے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور روس دونوں متفق ہوچکے ہیں کہ افغانستان میں مولوی کی حکومت نہ بننے دی جائے۔ یہ بات ایک تو میں کہہ رہا ہوں، میں تو خیر کہوں گا ہی، دنیا کے جو تجزیہ نگار ادارے ہیں، آج بھی ایک کا تجزیہ چھپا ہے، پشاور میں کانفرنس ہو رہی ہے اس میں مختلف لوگوں نے تقریریں کی ہیں، پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم نے بھی تقریر کی ہے، اس نے بھی تجزیہ کی بات کی ہے، بات اس نے صحیح کی ہے کہ افغانستان کے مسئلہ کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کو یہ خدشہ ہے کہ یہاں بنیاد پرست حکومت بنے گی اور بنیاد پرست حکومت ان کو کسی طور پر بھی قبول نہیں۔ آپ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں اسلام نافذ ہو، جہاد کا جذبہ زندہ ہو، خلافت اور جہاد دونوں باتوں سے یہ ساری قوتیں خوفزدہ ہیں اور ساری قوتیں متحد ہو چکی ہیں، آپ کا مقابلہ بیک وقت ان سب قوتوں سے ہے۔
حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے حوالہ سے ایک بات کا میں ذکر کر رہا تھا کہ ترکی کی خلافت عثمانیہ کا دور آخری دور تھا، اس کے خلاف پوری ممالک سازش کر رہے تھے، اس زمانہ میں بڑی کمزور حکومت تھی، ترکی کی خلافت ایسی طاقتور نہ تھی، بہرحال نام کی خلافت تھی۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی سب مل کر ترکی کے خلاف سازش کر رہے تھے کہ خلافت ختم ہو، اس کا تیاپانچا ہو، اس کا بیڑا غرق کریں۔ عربوں کو بھڑکا رہے تھے، دوسرے لوگوں کو بھڑکا رہے تھے۔ اس زمانے کی بات ہے حضرت مدنیؒ مالٹا جزیرے میں نظر بند تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ کے ساتھ تحریک آزادی کا مسئلہ تھا، حضرت مدنیؒ نظر بند تھے۔ وہاں کہتے ہیں کہ ایک انگریز افسر تھا فوج کا، وہ بھی کسی جرم میں مالٹا جزیرہ میں قید تھا، کوئی اس نے جرم کیا ہوگا اپنی فوج میں، اس جرم میں اس کا کورٹ مارشل ہوا تھا اور وہ بھی مالٹا میں سزا کاٹ رہا تھا۔ وہاں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے اس سے سوال کیا کہ ترکی کی خلافت اسلامیہ ایک کمزور سی حکومت ہے، نہ اس کے پاس کوئی طاقت، نہ اس کے پاس کوئی قوت ہے، برائے نام ایک ظاہری خلافت کا نام ہے، اور تم سارے یورپ والے مل کر اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہو کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کا تیاپانچا کر دیں، اس کا بیڑا غرق کر دیں۔ آخر وجہ کیا ہے، اس سے کیا خوف ہے؟ ایک کمزور سی خلافت ہے برائے نام سی، مسلمان اس سے عقیدت رکھتے ہیں، تم سارے یورپ والے اس کے خلاف برطانیہ بھی، فرانس بھی، اٹلی بھی سب مل کر اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ جلدی کسی طریقہ سے ختم کر دیں آخر تمہیں کیا خطرہ ہے خلافت عثمانیہ سے؟
اس نے جواب میں کہا کہ مولانا میں اتنا سادہ نہیں سمجھتا تھا آپ کو جتنی سادگی کا آپ مظاہرہ فرما رہے ہیں، یہ اتنی سادہ بات نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ خلافت عثمانیہ دیکھنے میں کمزور حکومت ہے، ان کے پاس فوج نہیں ہے، قوت نہیں ہے، لیکن ان کے دو لفظوں میں اتنی طاقت ہے کہ جب تک ہم اس طاقت قوت کو توڑ نہیں لیں گے مطمئن نہیں ہوں گے۔ وہ کون سے لفظ ہیں ایک خلافت اور ایک جہاد۔ اس نے کہا کہ آج دنیا میں قسطنطنیہ میں بیٹھا ہوا خلیفۃ المسلمین دنیا کے کسی کافر ملک کے خلاف جہاد کا اعلان کر دے، اعلان اس کا ہوگا جہاد کا امیر المومنین کی حیثیت سے۔ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک دنیا کی ہر مسلمان بستی میں نوجوانوں میں ایک ہلچل پیدا ہو جائے گی کہ امیر المومنین نے کفر کے خلاف جہاد کا اعلان کیا ہے، کفر کا مقابلہ ہے۔ اور سب نوجوان ذہنی طور پر اپنے آپ کو جہاد کے لیے تیار کریں گے۔ اس نے کہا یہ قوت جو ہے اس قوت کو کون ختم کر سکتا ہے؟ اس کے الفاظ یہ تھے کہ ہم دو لفظوں کی قوت ختم کرنا چاہتے ہیں، امیر المومنین نام کی کوئی شے موجود نہ رہے، دنیا میں خلافت نام کا تصور نہ رہے، اور جہاد کا تصور نہ رہے۔
کیا خیال ہے، ان دونوں باتوں میں انگریز کامیاب نہیں ہے؟ کن کن باتوں میں ہمیں ناکام کیا ہے؟ آج ہمیں اسی نقطہ پر واپس جانا ہوگا، ہم جہاد کے تصور کے ساتھ یہ تصور ذہنوں میں زندہ کریں کہ ہم نے دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لیے محنت کرنی ہے اور وہی غلبہ جو خلافت کے عنوان سے ہو، اسلام کی بالادستی کے عنوان سے ہو، خلافت راشدہ کی پیروی میں ہو۔ کیونکہ جس دروازہ سے انگریز نے ہمیں ناکام کیا ہے ہم اسی دروازہ پر واپس جائیں گے تو کامیابی ہوگی ورنہ نہیں ہوگی۔ ان گزارشات کے ساتھ آپ حضرات کے جذبات اور جوش و خروش کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ہم لوگ اور تو کچھ نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ آپ حضرات کے ساتھ مل بیٹھیں دوچار باتیں کر لیں۔ اللہ تعالٰی یہی قبول فرما لیں، اللہ تعالٰی ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم نئی نسل میں آنے والے مسلمانوں میں، آنے والے دور کے اندر جہاد اور اسلام کی بالادستی کے عنوان کو زندہ کر سکیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں اس کا ذریعہ بنا لیں، سبب بنا لیں کہ ہم اس کو ایک منظم قوت اور تحریک کی حیثیت دے سکیں۔ اللہ تعالٰی ہم سے اپنے دین کا غلبہ کے لیے اور جہاد کے احیا کے لیے کوئی کام لے لیں۔ آمین یا رب العالمین۔