بخاری شریف حضرت شاہ ولی اللہ الدہلویؒ کی نظر میں

   
جامعہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ
۲۳ مئی ۲۰۱۳ء

(امسال جامعہ نصرۃ العلوم میں دورہ حدیث شریف کی کلاس میں ساٹھ طلباء اور سولہ طالبات شریک تھے۔ ۲۳ مئی ۲۰۱۳ء کو جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں بخاری شریف کے آخری سبق کی تقریب سے خطاب۔ ادارہ نصرۃ العلوم)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سب سے پہلے ان طلبہ کو مبارکباد پیش کروں گا جو آج بخاری شریف کے آخری سبق کے ساتھ اپنے درس نظامی اور دورۂ حدیث کے نصاب کی تکمیل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کو علم مبارک کریں اور آپ کا پڑھنا آپ کے لیے، آپ کے والدین کے لیے، اہل خاندان کے لیے، جامعہ نصرۃ العلوم کے اساتذہ و منتظمین کے لیے، معاونین اور بہی خواہوں کے لیے اور تمام متعلقین کے لیے دنیا و آخرت کی برکتوں کا ذریعہ بنائیں اور دونوں جہانوں کی خوشیاں اور کامیابیاں عطا فرمائیں۔ یہ گلشن علم ہمارے شیخین کریمین حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدرؒ، حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ اور ان کے رفقاء کا صدقہ جاریہ ہے، اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو جنت الفردوس میں بلند کریں اور اس صدقہ جاریہ کو تا قیامت آباد رکھیں، آمین یا رب العالمین۔

ابھی ایک عزیز طالب علم نے بخاری شریف کے آخری باب اور اس کی حدیث کی قراءت کی ہے، اس روایت کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے قبل یاددہانی کے طور پر حدیث نبویؐ کے طلبہ کو کچھ پچھلی باتیں یاد دلانا چاہوں گا جو انہوں نے مختلف مواقع پر پڑھ رکھی ہیں لیکن آج انہیں دوبارہ ایک بار ذہن نشین کرانا ضروری سمجھتا ہوں۔

بخاری شریف علم حدیث کی کتاب ہے اور امام بخاریؒ نے اس میں ہزاروں احادیث کا مستند اور منتخب ذخیرہ پیش کیا ہے لیکن حدیث اور بخاری شریف کے بارے میں حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ نے عمومی تناظر سے قدرے ہٹ کر جو تعارف پیش کیا ہے میں اس کی طرف آپ طلبہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں، اس لیے کہ اگرچہ آپ نے بخاری شریف ایک بار پڑھ لی ہے لیکن اس کے ساتھ اصل واسطہ آپ کا اب پیش آنے والا ہے کہ آپ اس سے براہ راست استفادہ کر کے قوم کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیں گے، اس لیے میری خواہش ہے کہ بخاری شریف کی افادیت اور اس سے استفادہ کا وہ عمومی تناظر آپ لوگوں کے ذہنوں میں قائم رہے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے پیش کیا تاکہ اس کی روشنی میں آپ حدیث نبویؐ اور بخاری شریف سے صحیح فائدہ اٹھا سکیں۔

عزیز طلبہ! آپ حضرات نے بخاری شریف اور حدیث نبویؐ کی دیگر کتابیں اس سال پڑھی ہیں اور احادیث نبویہؐ کے ایک بڑے ذخیرہ میں سے گزرے ہیں، اس سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ نے سب کچھ پڑھ لیا ہے اس لیے کہ ابھی تو صرف آپ ان کتابوں سے مانوس ہوئے ہیں اور ان سے استفادہ کے طریقوں سے آگاہی حاصل کی ہے۔ ان کتابوں کے ساتھ اصل واسطہ تو آپ کو اب پڑنے والا ہے، ہماری خواہش اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان کتابوں کے ساتھ ہمیشہ واسطہ قائم رکھنے کی توفیق دیں اور ان سے استفادہ اور لوگوں کی راہنمائی کے مواقع عطا فرماتے رہیں، آمین یا رب العالمین۔

حدیث نبویؐ کو ہمارے ہاں عمومی طور پر علوم دینیہ میں سے ایک علم کے طور پر پڑھا جاتا ہے اور قرآن کریم، حدیث نبوی، فقہ اسلامی، عقائد اور دیگر شعبوں میں علم حدیث کو بھی ایک شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ حدیث نبویؐ کو علوم اسلامیہ میں سے ایک علم کے طور پر نہیں بلکہ تمام علوم دینیہ کے مأخذ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں ان کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ان عمدۃ العلوم الیقینیۃ رأسھا ومبنی الفنون الدینیۃ واَساسہا ھو علم الحدیث النبوی الشریف الذی یذکر فیہ ماصدر عن سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم من قول أو فعل أو تقریر ۔۔ الخ‘‘۔ اس میں دوسرا جملہ ’’الذی یذکر فیہ ما صدر عن سید المرسلینؐ من قول أو فعل أو تقریر‘‘ حدیث کی تعریف ہے۔ یہ الفاظ کے تھوڑے بہت مختلف ہونے کے باوجود وہی تعریف ہے جو عام محدثین کے ہاں پائی جاتی ہے اور جو تعریف ہم عمومی طور پر حدیث کی کیا کرتے ہیں۔ جبکہ پہلے جملہ میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے حدیث نبویؐ کا تعارف اور دین میں اس کے مقام و حیثیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تمام علوم دینیہ کا مأخذ اور اساس علمِ حدیث ہے، یعنی دین سے متعلقہ تمام علوم ہمیں حدیث نبویؐ کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں حتٰی کہ قرآن کریم بھی ہمیں حدیث کے ذریعے ملا ہے۔

مثلاً ہم سب مانتے ہیں کہ قرآن کریم کی سب سے پہلی وحی سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات ہیں لیکن یہ بات ہمیں حدیث کے ذریعے معلوم ہوتی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حراء کا واقعہ بیان کر کے ہمیں بتایا ہے کہ فرشتہ آیا تھا جس نے انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی پہنچائی ہے۔ اب اگر غار حراء کے واقعہ پر ایمان ہے تو پہلی وحی تک رسائی حاصل ہوتی ہے ورنہ پہلی وحی کے معلوم کرنے کا کوئی اور ذریعہ ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کی ساری ترتیب اور حضرت زید بن ثابتؓ کے ذریعے قرآن کریم کی کتابت میں ہر جگہ ذریعہ اور مأخذ حدیث نبویؐ ہی ہے جس کے ذریعے ہمیں قرآن کریم کی آیات، سورتوں اور جملوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ تمام علوم دینیہ کا مأخذ اور ذریعہ ہمارے پاس حدیث نبویؐ ہے۔ قرآن کریم بھی اس ذریعہ سے ملا ہے، سنت نبویؐ معلوم کرنے کا ذریعہ بھی یہی ہے، سیرت اور تاریخ بھی اسی ذریعہ سے ملتی ہے اور دین کے دیگر شعبوں کی معلومات بھی اسی ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہیں۔ اس لیے حضرت شاہ صاحبؒ حدیث نبویؐ کو علوم دینیہ کی ایک قسم اور شعبہ کے طور پر نہیں بلکہ تمام علوم دینیہ کے مأخذ اور ذریعہ کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ پھر حضرت شاہ صاحبؒ نے علوم حدیث کے چار دائرے بیان کیے ہیں:

  1. متن اور سند کا علم جو محدثین کرامؒ کی وساطت سے مدون ہوا ہے۔
  2. الفاظ، جملوں، محاوروں اور ضرب الامثال کا علم جو ائمہ ادب و لغت نے مرتب کیا ہے اور فہم حدیث کا صحیح تناظر واضح کیا ہے۔
  3. مسائل کے استنباط و استخراج کا علم، جسے ہم فقہ کے نام سے یاد کرتے ہیں، حضرت شاہ صاحبؒ اسے بھی علوم حدیث میں شمار کرتے ہیں اور اسے علمِ حدیث کا ایک شعبہ قرار دیتے ہیں۔
  4. احکام و قوانین کی حکمت و مصلحت اور فوائد و ثمرات کا علم جسے حضرت شاہ صاحبؒ نے ’’علم اسرار الدین‘‘ کا نام دیا ہے اور اسے بھی علم حدیث کا ہی ایک شعبہ قرار دیا ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ان تمام علوم کو علم حدیث کے شعبوں کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور حضرت شاہ صاحبؒ کی یہ تعبیر و تشریح پیش نظر رہے تو حدیث و فقہ کے باب میں بہت سے عقدے خودبخود حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر بخاری شریف کے بارے میں بھی حضرت شاہ صاحبؒ نے قدرے مختلف انداز میں بات کی ہے اور میں اس کی طرف اپنے عزیز طلبہ کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ یہ کہ ہم عام طور پر بخاری شریف کو حدیث کی کتاب سمجھ کر پڑھتے پڑھاتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر یہ حدیث ہی کی کتاب ہے، لیکن حضرت شاہ صاحبؒ نے بخاری شریف کے تراجم ابواب کے بارے میں اپنے رسالہ کے آغاز میں ذکر فرمایا ہے کہ امام بخاریؒ سے قبل احادیث کے جو مجموعے مرتب ہوئے وہ مختلف دائروں میں تھے: (۱) قرآن کریم کی تفسیر (۲) فقہی احکام (۳) سیر و مغازی (۴) زہد و رقائق۔ امام بخاریؒ نے ان سب کو جمع کر دیا گویا حضرت شاہ صاحبؒ کے نزدیک بخاری شریف صرف حدیث کی کتاب نہیں ہے بلکہ وہ مختلف علوم کا مجموعہ ہے مثلاً:

  • ہزاروں احادیث امام بخاریؒ نے اپنے ذوق اور معیار کے مطابق جمع فرمائی ہیں، اس لیے یہ بنیادی طور پر حدیث کی کتاب ہے۔
  • کتاب التفسیر اور تراجم ابواب میں ہزاروں آیات قرآنی کی وضاحت کی ہے اور ان کی تشریح کے ساتھ ساتھ ان سے استدلال و استنباط کیا ہے، اس لیے یہ تفسیر کی کتاب بھی ہے۔
  • احادیث کے ساتھ ساتھ ہزاروں احکام و مسائل بیان کیے ہیں اور آیات و احادیث سے احکام و مسائل کے استنباط و استخراج کی فقہی ذمہ داری ادا کی ہے۔ امام بخاریؒ صرف حدیث بیان نہیں کرتے اس سے مستنبط ہونے والے احکام بھی بیان فرماتے ہیں بلکہ ترجمۃ الباب میں مسئلہ بیان کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے مطابق حدیث لاتے ہیں۔ اور اگر شمار کیا جائے تو امام بخاریؒ کی بیان کردہ احادیث کی تعداد کم ہے جبکہ ان سے جو احکام و مسائل انہوں نے مستنبط کیے ہیں ان کی تعداد زیادہ ہے، اس لیے یہ فقہ کی کتاب بھی ہے۔
  • سیر و مغازی اور اسلامی تاریخ کے اہم مراحل کی تاریخی روایات جس ذوق اور اہتمام کے ساتھ امام بخاریؒ نے بیان کی ہیں وہ انہی کا ذوق ہے، اس لیے یہ تاریخ کی کتاب بھی ہے۔
  • اور زہد و رقائق کی احادیث و ابواب کو بھی انہوں نے اس میں جمع کیا ہے اور اس لحاظ سے یہ سلوک و تصوف کی کتاب بھی کہی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ بخاری شریف کی جامعیت کا یہ پہلو بھی ہے کہ اس میں عقائد و ایمانیات کو بھی اہتمام کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ جبکہ ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا جس کا میں اکثر ذکر کیا کرتا ہوں کہ اسلامی نظام کی جامعیت دیکھنی ہو تو بخاری شریف کی فہرست پر ایک نظر ڈالیں اور پھر دیکھیں کہ فرد، خاندان، سوسائٹی، قوم و ملک اور بین الاقوامی معاملات کا کون سا پہلو ہے جس کے بارے میں امام بخاریؒ نے کوئی نہ کوئی روایت پیش نہیں کی، اور یہ اس حوالہ سے بھی ’’الجامع الصحیح‘‘ کا مکمل مصداق ہے۔ بخاری شریف سے صحیح استفادہ اور اس کی روشنی میں قوم کی درست راہنمائی کے لیے ان تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور عزیز طلبہ کو میں اس بات کی بطور خاص تلقین کرتا ہوں۔

بخاری شریف کے آخری باب میں، جو ابھی ایک عزیز نے پڑھا ہے، امام بخاریؒ نے اعتقادیات کے باب میں ایک مسئلہ بیان کیا ہے اور اپنے ذوق کے مطابق اس کے بارے میں قرآن کریم اور حدیث سے ایک ایک دلیل پیش کی ہے۔

معتزلہ وغیرہ جو کسی دور میں معروف فرقے تھے اور ان کی بنیاد اس بات پر تھی کہ اسلامی عقائد و احکام کو عقل کی بنیاد پر طے کیا جائے۔ اس لیے جو مسئلہ انہیں ان کے خیال کے مطابق خلافِ عقل محسوس ہوتا تھا اس میں تاویل یا اس کے انکار کو وہ ضروری سمجھتے تھے۔ معتزلہ ایک فرقہ کے طور پر تو آج موجود نہیں ہیں لیکن اعتزال یعنی عقل کی بنیاد پر عقائد و احکام کا فیصلہ کرنے والے لوگ اب بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔

ہم اہل السنۃ والجماعۃ عقل کے مخالف نہیں ہیں بلکہ اسے نعمتِ خداوندی سمجھتے ہیں اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن عقل کا درجہ حاکم کا نہیں معاون و مددگار کا ہے۔ شرعی احکام و عقائد میں حاکم کا درجہ صرف وحی کو حاصل ہے اور عقل اس کو سمجھنے کے لیے معاون ہے۔ عقل کو اس کے درجے میں رکھا جائے تو بہت بڑی نعمت ہے لیکن اگر وہ حدود سے تجاوز کر جائے تو عذاب بھی بن جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پانی اور ہوا اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں اور حیات انسانی کا ذریعہ ہیں، لیکن یہی پانی اور ہوا حد سے تجاوز کر جائیں تو عذاب کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ ہم عقل کے مخالف نہیں البتہ اسے حاکم کا درجہ دینے کی بجائے معاون سمجھتے ہیں اور اس سے استفادہ کی ضرورت کے قائل ہیں۔

معتزلہ وغیرہ نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ انسان کی گفتگو اور عمل کو تولا جائے گا، اور اس کی ایک دلیل وہ دیتے رہے ہیں کہ یہ اعراض کے قبیلے کی چیزیں جنہیں تولا جائے عقلاً محال ہے، اس لیے وہ وزن اعمال والی آیات کی تاویل کرتے ہیں۔ جبکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اعمال بھی تولے جائیں گے اور اقوال کا وزن بھی ہو گا۔ جہاں تک عقلاً محال ہونے کی بات ہے وہ مسئلہ تو سائنس نے حل کر دیا ہے کہ اب نہ صرف یہ کہ اعراض کا وزن ہوتا ہے، مثلاً بخار وغیرہ تولے جاتے ہیں بلکہ قول اور عمل اب ہوا میں تحلیل ہو جانے کی بجائے ریکارڈ میں محفوظ بھی ہو جاتے ہیں، اس لیے یہ اشکال تو اب باقی نہیں رہا۔ یہاں ایک بات میں اور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عام طور پر سائنس اور مذہب میں ٹکراؤ کا تاثر دیا جاتا ہے مگر میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ سائنس کا مذہب کے ساتھ کوئی ٹکراؤ یا تصادم نہیں ہے۔ ہماری لڑائی سائنس سے نہیں بلکہ فلسفہ سے ہے جو کل بھی تھی، آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ سائنس کی بنیاد مشاہدات و تجربات پر ہے اور یہ جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے بہت سے مذہبی مسلّمات کی تصدیق کرتی چلی جا رہی ہے اور آئندہ بھی یوں ہی ہوتا رہے گا (ان شاء اللہ تعالیٰ)۔

بہرحال امام بخاریؒ نے اس بات کا رد کیا ہے کہ اعمال اور اقوال کا وزن نہیں ہو گا اور یہ دعویٰ قائم کیا ہے کہ بنی آدم کے اعمال بھی تولے جائیں گے اور ان کے اقوال کا وزن بھی ہو گا۔ اور اس پر ایک دلیل قرآن کریم سے پیش کی ہے کہ ’’ونضع الموازین القسط‘‘ اور ایک دلیل حدیث سے پیش کی ہے کہ دو جملوں کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ثقیلتان فی المیزان‘‘ یہ ترازو پر وزنی ثابت ہوں گے، وہ دو جملہ یہ ہیں ’’سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم‘‘۔

امام بخاریؒ کا عام ذوق و اسلوب یہ ہے کہ وہ ایک دعویٰ قائم کرتے ہیں اور اس پر پہلے دلیل قرآن کریم سے لاتے ہیں پھر اس کی تائید میں حدیث بیان کرتے ہیں، اور پھر ان کی وضاحت آثار صحابہؓ اور آثار تابعینؒ کے ذریعے کرتے ہیں۔ یہ اہل السنۃ کا طرز استدلال اور دائرہ استدلال ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں قرآن کریم سے دلیل پیش کی جائے، پھر حدیث سے رجوع کیا جائے، اور اس کے بعد آثار صحابہؓ و آثار تابعینؒ سے راہنمائی حاصل کی جائے۔ پوری بخاری شریف میں آپ کو ہر جگہ یہی ذوق اور اسلوب ملے گا اور یہی اہل السنۃ والجماعۃ کا دائرہ اور ذوق ہے۔

میں آخر میں عزیز طلبہ کو ایک بار پھر مبارک باد دیتے ہوئے ان سے گزارش کروں گا کہ جو کچھ آپ حضرات نے آٹھ دس سال میں پڑھا ہے اس کے پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے تو یہ علم آپ کے پاس رہے گا ورنہ بھول جائے گا۔ اس لیے پڑھنے پڑھانے کے ساتھ تعلق کسی نہ کسی درجے میں ضرور قائم رکھیں تاکہ یہ علم آپ کے پاس رہے اور آپ کے ساتھ رہے۔ دوسری نصیحت یہ کروں گا کہ فتنوں کے اس دور میں حفاظت کا راستہ یہی ہے کہ خود کو اہل حق کے ساتھ وابستہ رکھیں اور اپنے اکابر سے راہنمائی حاصل کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین حق کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter