اقوام متحدہ اور مسلم ممالک کی بے بسی

   
۷ اپریل ۲۰۰۵ء

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جناب کوفی عنان نے ۲۱ مارچ ۲۰۰۵ء کو جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں متعدد اصلاحات کی تجویز پیش کی ہے اور کم و بیش باسٹھ صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں اس عالمی ادارے میں بہت سی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد پانچ سے بڑھا کر گیارہ اور غیر مستقل ارکان کی تعداد دس سے بڑھا کر تیرہ کر دی جائے، نیز دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف وضع کی جانی چاہیے۔ طاقت کے استعمال کی ضابطہ بندی کی جائے اور یورینیم کی افزودگی کے عمل کو روکنے کے لیے بھی مذاکرات ہونے چاہئیں۔ کوفی عنان نے اس توقع کا بھی اظہار کیا ہے کہ ستمبر کے دوران ہونے والے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں عالمی رہنما ان کی تجاویز سے اتفاق کریں گے۔

ادھر امریکی وزیر خارجہ محترمہ کونڈولیزارائس نے بھی لاس اینجلس ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے نظام میں بعض مجوزہ اصلاحات کا ذکر کیا ہے اور بطور خاص یہ بات کہی ہے کہ ایسے انتظام کی ضرورت ہے کہ کوئی ملک غیر فوجی اور ترقیاتی مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی کے استعمال میں اپنی کوششوں کو چھپا نہ سکے۔ بلکہ ان کا خیال ہے کہ یورینیم کی افزودگی پر مکمل پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ان کے بقول یورینیم کی افزودگی کے بغیر بھی ایٹمی توانائی کو غیر فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے طریقے موجود ہیں۔

اگرچہ کوفی عنان اور کونڈولیزارائس کی تجویز کردہ اصلاحات کے اہداف مختلف ہیں، لیکن دونوں عالمی لیڈروں کے ان بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے نظام میں اصلاح کا رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، اس لیے ممکن ہے کہ جنرل اسمبلی کے اس سال کے سالانہ اجلاس میں اس نوعیت کی اصلاحات بطور خاص زیر بحث آئیں اور ان کے بارے میں فیصلوں کی طرف بھی کوئی پیش رفت ممکن ہو جائے۔

جہاں تک امریکی وزیر خارجہ کی تجویز کا تعلق ہے، اس کا مقصد تو واضح ہے کہ وہ ایٹمی توانائی کے عسکری استعمال پر چند طاقتوں کی اجارہ داری کو مستحکم اور قائم رکھنے اور باقی ممالک کے لیے اس کا راستہ مکمل طور پر بند کر دینے کے لیے یہ تجویز لا رہی ہیں۔ اس طرح وہ تسلیم شدہ ایٹمی ممالک کے علاوہ باقی ملکوں کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول کو بالکل ناممکن بنا دینے کی خواہاں ہیں۔ البتہ جناب کوفی عنان کی تجاویز اس لحاظ سے توجہ طلب ہیں کہ ان میں اقوام متحدہ کے انتظامی ڈھانچے کو کچھ مزید وسعت دینے کی خواہش کار فرما ہے اور وہ مزید ممالک کو اس کے نظام میں شریک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کوفی عنان نے دہشت گردی کی متفقہ تعریف وضع کرنے کی بات کی ہے، جو اس وقت دنیا کا ایک اہم مسئلہ ہے، خاص طور پر عالم اسلام کے حوالے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی جن لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر اقوام متحدہ کی چھتری تلے ان کے خلاف مسلح کارروائیوں میں مصروف ہیں، ان میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ جبکہ مسلم ممالک کی صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے جس شخص یا گروہ کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے، نہ صرف اقوام متحدہ اور اس سے متعلقہ ادارے اس کے خلاف حرکت میں آ جاتے ہیں، بلکہ مسلم حکومتیں بھی اس کارروائی میں شریک ہو جاتی ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس ماحول میں ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی طور پر دہشت گردی کی کوئی تعریف متعین نہیں ہے۔ یہ بات خالصتاً امریکہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ جسے چاہے دہشت گرد کہہ کر گردن زدنی قرار دے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے اور دنیا بھر کی حکومتیں اس کی ہاں میں ہاں ملانے، اس کے پیچھے چلنے اور اس کی انتقامی کارروائیوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں۔

کوفی عنان کی بعض دیگر تجاویز بھی اہمیت کی حامل ہیں، مگر اس سے ہٹ کر اس موقع پر ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اگر اقوام متحدہ کے نظام اور پالیسیوں میں اصلاحات و ترامیم کی ضرورت کا احساس پیدا ہو رہا ہے تو پھر چند جزوی اصلاحات و ترامیم کی بجائے اس کے پورے انتظامی ڈھانچے اور طریق کار پر نظر ثانی ضروری ہے اور اس کے لیے مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کو مؤثر اور متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ مسلم ممالک بین الاقوامی برادری میں سیاسی، معاشی اور جغرافیائی لحاظ سے اہم ترین پوزیشن رکھنے کے باوجود اپنے جائز مقام، بلکہ ضروری تحفظات تک سے محروم ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کا موجودہ نظام اور اس سب سے بڑے عالمی ادارے کی پالیسیاں و طریق کار عالم اسلام اور مسلم ممالک کو کوئی ایسا راستہ دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ اپنے مذہب، ثقافت، معاشی وسائل، سیاسی آزادی، قومی خود مختاری اور عالمی برادری میں باوقار مقام کا تحفظ کر سکیں۔ وہ اپنے سب معاملات میں مغربی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہیں اور اپنے مسائل خود طے کرنے اور اپنے فیصلوں پر آزادانہ طور پر عمل کرنے کے مجاز نہیں ہیں اور اس افسوسناک صورت حال کو اقوام متحدہ کے موجودہ نظام نے تحفظ دے رکھا ہے۔ اس لیے اس مرحلے پر جبکہ اقوام متحدہ کے نظام میں اصلاحات کی باتیں کوفی عنان اور کونڈولیزارائس جیسے ذمہ دار عالمی رہنماؤں کی طرف سے سامنے آ رہی ہیں، مسلم ممالک کو بھی اصلاحات کے اس عمل میں شریک ہونا چاہیے اور او آئی سی کے سربراہی اجلاس کی صورت میں اپنی تجاویز اور مطالبات کا تعین کر کے جنرل اسمبلی سے اسے منوانے کے لیے منظم و مؤثر اہتمام کرنا چاہیے۔

ہمارا خیال ہے کہ اگر او آئی سی کا سربراہی اجلاس سنجیدگی کے ساتھ اقوام متحدہ کے موجودہ نظام میں عالم اسلام کی محرومیوں کا جائزہ لے اور ان کی تلافی کے لیے جرأت و حوصلے کے ساتھ اپنا موقف، مطالبات اور تجاویز طے کر کے انہیں جنرل اسمبلی کے سامنے متفقہ طور پر پیش کرنے کے بعد اس کے لیے ضروری لابنگ کا اہتمام بھی کر لے تو مکمل کامیابی نہ سہی، مگر کسی نہ کسی حد تک توازن ضرور قائم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس وقت مندرجہ ذیل مسائل کے حوالے سے او آئی سی کو دو ٹوک بات کرنی چاہیے، کیونکہ اس کے بغیر نہ مسلم ممالک اقوام متحدہ کے موجودہ نظام میں کوئی مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں اور نہ ہی عالمی برادری میں مسلم دنیا کو اس کا جائز مقام مل سکتا ہے:

  • اقوام متحدہ میں فیصلوں کی طاقت سلامتی کونسل کے ہاتھ میں ہے اور اس میں بھی ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک فیصلوں کی قوت اور اختیارات کا اصل سرچشمہ ہیں، ان میں ایک بھی مسلم ملک شامل نہیں ہے۔ جبکہ باقی تمام حوالوں سے قطع نظر دنیا کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کے تناسب اور اقوام متحدہ کے ارکان میں مسلم ممالک کے تناسب کے پیش نظر بھی مسلم دنیا کا یہ حق بنتا ہے کہ کم از کم دو مسلم ملکوں کو اختیارات کے اس اصل دائرے میں شریک کیا جائے۔ اصولی طور پر ہم سرے سے ویٹو پاور کے حق میں نہیں ہیں اور اسے ویٹو پاور رکھنے والے چند ممالک کی پوری دنیا پر اجارہ داری کا ذریعہ سمجھتے ہیں، اس لیے اگر یہ بالکل ختم ہو جائے تو زیادہ بہتر بات ہے۔ لیکن اگر اس اصول کو قائم رکھنا ضروری ہے تو اس میں مسلم ممالک کو یکسر نظر انداز کرنا قطعی ناانصافی کی بات ہے اور مسلم ممالک کو اس صریح ناانصافی کے خلاف متفقہ طور پر آواز اٹھانی چاہیے۔
  • ایٹمی توانائی اور عسکری مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی کے استعمال کو بین الاقوامی طور پر جس طرح چند غیر مسلم طاقتوں میں محدود کر دیا گیا ہے، خاص طور پر مسلم ممالک کو ایٹمی توانائی اور اس کے عسکری استعمال سے سختی کے ساتھ روکا جا رہا ہے، وہ بھی صریح جانبداری اور ناانصافی ہے۔ اس پورے قانون کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ظلم کا قانون ہے، مسلمانوں کے خلاف جانبداری کا قانون ہے اور ایٹمی توانائی پر چند غیر مسلم ممالک کی اجارہ داری کا قانون ہے۔ مسلم ممالک کو اس سلسلے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے اور اس غیر منصفانہ قانون کو غیر مشروط طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کی عملداری اور بالادستی میں تعاون کرتے چلے جانے کی بجائے عالمی فورم پر اسے چیلنج کرنا چاہیے اور اس پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے مفادات و ضروریات کے حصول کے لیے مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔
  • اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر یورپ اور امریکہ کے مخصوص تاریخی و معاشرتی پس منظر میں رد عمل کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے، جس کی بہت سی دفعات مسلم تہذیب و ثقافت، بلکہ قرآن و سنت کے صریح احکام سے متصادم ہیں۔ جبکہ تہذیب و ثقافت کے اسلامی ماحول سے یکسر دست بردار ہوئے بغیر اس چارٹر کو من و عن قبول کرنا ممکن نہیں ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے ذریعے مسلم ممالک کو یہ چارٹر مکمل طور پر قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے عقیدہ و ثقافت اور متعدد دینی احکام و ضوابط کے تحفظ کے لیے یہ بات ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ اختیار کر گئی ہے کہ اس چارٹر پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا جائے اور مسلم دنیا کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس چارٹر کو ازسرنو مرتب کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔

ہم دنیا بھر کی مسلم حکومتوں سے، اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر سے، خاص طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت سے درخواست کریں گے کہ وہ اس صورت حال کا نوٹس لیں اور اقوام متحدہ کے نظام اور پالیسیوں میں صریح عدم توازن کو ختم کرانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کریں، تاکہ یہ عالمی ادارہ چند غیر مسلم طاقتوں کے یرغمالی کا کردار ادا کرنے کی بجائے دنیا بھر کی اقوام و ممالک کے جائز حقوق و مفادات کا صحیح طور پر محافظ بن سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter