امارتِ اسلامی افغانستان میں طالبان کی حکومت نے گزشتہ دنوں ایک امریکی خاتون کو افغانستان سے نکال دیا جو ایک این جی او کے حوالے سے وہاں مصروف کار تھی اور مبینہ طور پر رفاہی کاموں کی آڑ میں جاسوسی سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی تھی۔ اس پر اقوامِ متحدہ کے رابطہ افسر ایرک ڈیمرل کابل پہنچے اور انہوں نے طالبان کی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ این جی اوز کے لیے کام کرنے والی خواتین کی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہ ڈالیں، لیکن طالبان نے ان کا موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اور روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۲۱ جولائی ۲۰۰۰ء کی رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے نمائندہ سے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کے خلاف نہیں اور نہ ہی ان کی ملازمتوں کے خلاف ہیں، لیکن افغانستان میں ایسی این جی اوز کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو فلاحی کاموں کی آڑ میں جاسوسی میں ملوث ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان حکومت کا یہ موقف ایک اصولی اور جائز موقف ہے اور تمام تر مشکلات و مصائب اور رکاوٹوں کے باوجود طالبان کا اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا لائقِ صد تحسین ہے۔
ہمارے ملک میں بھی ایسی این جی اوز کا جال بچھا ہوا ہے جو رفاہی کاموں اور عام لوگوں کے مفادات کے حوالے سے بے پناہ رقوم صرف کر کے اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں، اور اس کی آڑ میں نہ صرف جاسوسی بلکہ فکری انتشار پیدا کرنے اور مغرب کی بے حیا ثقافت کی راہ ہموار کرنے میں شب و روز مصروف ہیں۔ اس لیے حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے طول و عرض میں کام کرنے والی ہزاروں این جی اوز کی سرگرمیوں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے اور ایسی این جی اوز پر کسی رو رعایت کے بغیر پابندی لگا دی جائے جو اسلامی روایات و اقدار اور ملکی مفادات کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث پائی جائیں۔