امیر المؤمنین سید احمد شہیدؒ اور جہادِ کشمیر

   
۱۹ جولائی ۲۰۰۱ء

تحریکِ آزادئ کشمیر کے حوالے سے ایک اور ابہام کو دور کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ جہادِ کشمیر کے تاریخی پس منظر کے تذکرہ میں راقم الحروف نے لکھا ہے کہ ۱۸۴۶ء میں مہاراجہ گلاب سنگھ کا قبضہ ہونے کے بعد سے اس خطہ میں آزادی کی جنگ کسی نہ کسی صورت میں جاری چلی آ رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا ہے کہ ۱۸۳۱ء میں مجاہدین بالاکوٹ امیر المومنین سید احمد شہیدؒ کی قیادت میں مظفر آباد کی طرف آ رہے تھے تاکہ اسے آزاد کرا کے اسلامی حکومت اور جہادِ آزادی کا بیس کیمپ بنائیں۔ پھر ایک مضمون میں یہ بھی ہے کہ ۱۸۴۶ء میں جموں کے ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں کو پچھتر لاکھ روپے ادا کر کے خطہ کشمیر اس کے عوض حاصل کیا، لیکن اس پر قبضہ کرنا چاہا تو کشمیر کے مسلم حکمران شیخ امام دین نے مزاحمت کی اور گلاب سنگھ کو شکست دی۔ جس کے بعد انگریزی فوج کرنل ہنری لارنس کی قیادت میں آئی اور اس نے شیخ امام دین کو شکست دے کر گلاب سنگھ کو کشمیر کا قبضہ دلایا۔

یہاں یہ سوال ذہن میں خود بخود پیدا ہوتا ہے کہ اگر ۱۸۴۶ء تک کشمیر میں مسلمانوں ہی کی حکمرانی تھی تو سید احمد شہیدؒ کشمیر کو کس سے آزاد کرانے کے لیے مظفر آباد کی طرف آ رہے تھے؟ یہ الجھن دراصل اس وجہ سے پیدا ہو گئی کہ کشمیر پر مسلمانوں کی حکومت اور ہندو ڈوگرہ خاندان کی حکومت کے درمیان کا ایک دور تذکرہ میں نہیں آ سکا جو پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور تھا۔ اس لیے اس کی تھوڑی وضاحت ضروری ہوگئی ہے۔

یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ کشمیر میں شاہ میر سواتیؒ کے خاندان نے مسلم اقتدار کا آغاز کیا تھا اور اس کے بعد صدیوں تک یہ مسلم ریاست رہی ہے۔ جب احمد شاہ ابدالیؒ نے اس علاقہ پر قبضہ کیا تو اپنا صوبیدار مقرر کر دیا، لیکن احمد شاہ ابدالیؒ کے صوبیدار کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم نہ کر سکے اور ’’دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ کے مقالہ نگار کے مطابق یہ ریاست اس کے بعد مسلسل عدمِ استحکام اور خانہ جنگی کا شکار رہی، تاآنکہ پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کا کشمیر پر قبضہ ہو گیا۔ اس وقت اس کے درباریوں میں سے جموں کے ڈوگرہ ہندو خاندان کے تین بھائیوں گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سوچیت سنگھ نے جنگوں میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، جس کے عوض رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو جموں، دھیان سنگھ کو بھمبر اور پونچھ، اور سوچیت سنگھ کو رام نگر کی سرداری سونپ دی، اور پھر گلاب سنگھ کو جموں کے راجہ کا خطاب دے دیا۔

۱۸۱۹ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کیا تھا، اس کے بعد ۱۸۴۶ء تک ریاست کشمیر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سکھ حکومت کی عملداری میں رہی۔ گلاب سنگھ جموں و پونچھ میں اور شیخ امام دین کشمیر میں سکھ حکومت کے صوبیدار تھے۔ اور ۱۸۳۱ء میں امیر المؤمنین سید احمد شہیدؒ کے مظفر آباد کی طرف کوچ کا مقصد لاہور کی سکھ حکومت کے تسلط سے کشمیر کو آزاد کرانا تھا۔ اور مولانا غلام رسول مہرؒ نے ’’تحریکِ مجاہدین‘‘ میں لکھا ہے کہ مجاہدینِ بالاکوٹ کے ایک دستے نے مظفر آباد چھاؤنی پر قبضہ بھی کر لیا تھا، مگر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کی قیادت میں سکھ فوج نے انہیں بالاکوٹ میں گھیر کر شہید کر دیا۔

تاریخی روایات کے مطابق ۱۸۳۹ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جموں کے راجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں سے سازباز شروع کر دی اور لاہور قبضہ کی مہم میں درپردہ انگریزوں کی مدد بھی کی۔ اور جب ۱۸۴۶ء میں لاہور کی سکھ حکومت کو شکست دے کر انگریزوں نے لاہور کا اقتدار حاصل کیا تو شکست خوردہ حکومت پر ڈیڑھ کروڑ روپے تاوانِ جنگ عائد کیا، جس میں سے وہ صرف پچاس لاکھ ادا کر سکی، اور باقی ایک کروڑ کے عوض انگریزوں نے دو آبہ جالندھر، ہزارہ اور کشمیر کے علاقے اپنی تحویل میں لینے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد جموں کے راجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں سے پچھتر کروڑ روپے کے عوض وادئ کشمیر کا سودا کر لیا اور انگریزوں نے یہ رقم وصول کر کے اسے وادی کا قبضہ دلا دیا۔

اس لیے حضرت سید احمد شہیدؒ کے ۱۸۳۱ء میں کشمیر کی طرف کوچ کا مقصد مسلم حکومت کے خلاف جنگ کرنا نہیں، بلکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سکھ حکومت کے تسلط سے کشمیر کو آزاد کرانا تھا، جس کے خلاف وہ پہلے سے حالتِ جنگ میں تھے، اور اس سے قبل انہوں نے پشاور کا علاقہ اسی کے تسلط سے آزاد کرا کے وہاں ۱۸۳۰ء میں اسلامی حکومت قائم کی تھی۔

   
2016ء سے
Flag Counter