’’امہ تعمیر نو افغانستان‘‘ کے چیئرمین ڈاکٹر سلطان بشیر محمود صاحب گزشتہ روز گوجرانوالہ تشریف لائے اور جامع مسجد تقویٰ پیپلز کالونی میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کرنے کے علاوہ البرق میرج ہال جی ٹی روڈ گوجرانوالہ میں حرکت المجاہدین کی طرف سے دی گئی افطار پارٹی میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے جس کے اہتمام میں جناب عثمان عمر ہاشمی اور ناصر محمود ہاشمی ایڈووکیٹ نے سرگرم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر صاحب سے غائبانہ تعارف تو ایک عرصہ سے تھا کہ وہ ایک معروف انجینئر اور سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ محب وطن شہری اور قرآن کریم کا وسیع مطالعہ رکھنے والے دانشور بھی ہیں، وہ قرآنی علوم و معارف کو سائنس کی زبان میں لوگوں تک پہنچانے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں اور اس سلسلہ میں ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ مگر اس سے قبل ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اس لیے راقم الحروف ان سے ملاقات کی خواہش کے ساتھ افطار پارٹی میں شریک ہوا جہاں ان کی پرمغز گفتگو سننے کا موقع مل گیا۔
ڈاکٹر صاحب کا پرانا نام سلطان بشیر الدین محمود ہے۔ جب پہلی بار ان کا نام سنا بلکہ کسی کتابچہ میں پڑھا تو نام کی وجہ سے پہلا تاثر یہی ذہن میں ابھرا کہ شاید کوئی قادیانی مشنری ہوں گے مگر اسلام آباد کے دوستوں نے بتایا کہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان اور قرآنی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے جذبہ سے سرشار دانشور ہیں۔ ان کی ایک کتاب میں خود ان کے اپنے تحریر کردہ پیش لفظ سے معلوم ہوا کہ نام کی اس مشابہت نے انہیں اور بھی بہت سے حلقوں میں مشکوک بنا رکھا تھا کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے اور جانشین مرزا بشیر الدین محمود کے نام کی وجہ سے ان کا نام سنتے یا پڑھتے ہی ان کے قادیانی ہونے کا تاثر ذہنوں میں ابھرنے لگتا تھا۔ حالانکہ ان کے خاندان میں کسی سطح پر بھی قادیانیت کے کوئی اثرات نہیں ہیں۔ چنانچہ اسی تاثر کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے اپنا نام ’’سلطان بشیر محمود‘‘ رکھ لیا ہے۔ گزشتہ روز افطار پارٹی میں ملاقات ہوئی تو انہیں دیکھ کر خوشی ہوئی اور ان کی مختصر گفتگو سن کر مزید اطمینان ہوا کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف عالمی کفر کی سازشوں کا ادراک اور ان کے توڑ کے لیے واضح ذہن رکھنے والوں کی اب ملک کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں کمی نہیں رہی، اور ملک کی اعلیٰ ذہانت کے حلقوں میں ایسے افراد موجود ہیں جو اسلام، عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفادات کے لیے سرگرم بھی رہتے ہیں۔
ڈاکٹر سلطان بشیر محمود صاحب نے افطار پارٹی میں افغانستان کے حوالے سے گفتگو کے دوران تازہ ترین صورتحال پر روشنی ڈالی، طالبان حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کا ذکر کیا، اس کی وجوہات بیان کیں، اور افغانستان کی تعمیر نو کے لیے ’’امہ تعمیر نو‘‘ کے پروگرام کا ذکر کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے پاکستان کے شہریوں بالخصوص تاجروں اور صنعتکاروں پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو اور طالبان حکومت کے استحکام کی ضرورت کو محسوس کریں اور کفر کی عالمی یلغار سے طالبان حکومت کو بچانے کے لیے اپنا کردار بروقت ادا کریں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا مفاد اس خطہ میں مشترک ہے اور دونوں کا نفع و نقصان ایک ہے، اس لیے اگر افغانستان کو نقصان پہنچتا ہے تو پاکستان اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے گا۔ ان کے خیال میں طالبان حکومت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے اور ہمیں یعنی پاکستانیوں کو اس صورتحال کا صحیح طور پر ادراک کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران طالبان کی حکومت افغانستان کی پہلی حکومت ہے جو پاکستان کے حق میں ہے اور دہلی کی بجائے اسلام آباد سے وابستگی رکھتی ہے۔ طالبان حکومت کے بیشتر افراد پاکستان کے دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ہیں اور پاکستان سے محبت رکھتے ہیں، اس لیے پاکستان کو اس حکومت کو بچانے کے لیے خود اپنے مفاد کے خاطر بھی سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور روس گزشتہ دو عشروں میں صرف ایک بات پر متفق ہوئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ طالبان کی حکومت کو ہر قیمت پر ناکام بنایا جائے اور ختم کر دیا جائے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ طالبان نے اسلام کا عادلانہ نظام عملاً نافذ کر دیا ہے اور اسلامی قوانین کے تحت پرامن معاشرہ اور فری ٹیکس معیشت کا عملی نمونہ دکھا کر اسلام کی برکات کی عملی شکل دنیا کے سامنے پیش کر دی ہے جو امریکہ، روس اور کفر کی دیگر سب قوتوں کے لیے ناقابل قبول بلکہ ناقابل برداشت ہے، چنانچہ طالبان حکومت کو ناکام بنانے کے لیے پوری دنیا کی کفر طاقتیں متحد ہو گئی ہیں۔ ان حالات میں ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور اسلام اور اسلامی تحریکات کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر خدانخواستہ طالبان کی اسلامی حکومت ناکام ہو گئی تو عالم اسلام پر اس کے اثرات کیا ہوں گے۔
ڈاکٹر سلطان بشیر محمود نے کہا کہ افغانستان اور طالبان کو سپورٹ کرنے اور عالمی کفر کے خلاف انہیں تحفظ فراہم کرنے کی سب سے زیادہ مؤثر صورت یہ ہے کہ پاکستان کے صنعتکار اور تاجر افغانستان میں سرمایہ کاری کی طرف متوجہ ہوں جہاں کام کا وسیع میدان ہے،ً ٹیکس فری معیشت ہے، حکومتی اہل کاروں کا رویہ حوصلہ افزا ہے، امن ہے، روپے و مال کا تحفظ ہے، اور شرعی قوانین کے تحت تحفظ کے ساتھ ساتھ بے پناہ برکات بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں معدنیات کے وسیع ذخائر ہیں، تیل ہے، گیس ہے، لوہا ہے، اور قیمتی پتھر ہے جسے نکالنے کے لیے مغربی ممالک کی درجنوں کمپنیاں قطار میں کھڑی ہیں لیکن طالبان حکومت ان کی بجائے پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے اور انتظار میں ہیں کہ پاکستان کے تاجر اور صنعتکار آئیں اور معدنیات نکالنے کا کام سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ان فیکٹریوں کا کنٹرول بھی سنبھالیں جو بند پڑی ہیں اور وہ سرمایہ کاری کرنے والی پارٹیوں کی منتظر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے توجہ نہ دی اور طالبان حکومت ان کاموں کا ٹھیکہ مغربی کمپنیوں کو دینے پر مجبور ہو گئی تو ایسی صورت میں صرف افغانستان نہیں بلکہ خود پاکستان کا بھی بہت بڑا نقصان ہوگا۔
ڈاکٹر سلطان بشیر محمود صاحب کے ارشادات کا مختصر خلاصہ پیش کر کے میں اب ملک بھر کے ارباب دانش سے عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ اس اہم ملی ضرورت کو محسوس کریں اور دیندار تاجروں اور صنعتکاروں کو اس طرف توجہ دلانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔