پاکستان کے بارے میں امریکی عزائم کے حوالہ سے وزیر اعظم پاکستان کے نام کھلا خط

   
تاریخ : 
مئی ۱۹۹۳ء


بسم اللہ الرحمن الرحیم

بگرامی خدمت جناب بلخ شیر مزاری صاحب، وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ________ مزاج گرامی؟

گزارش ہے کہ روزنامہ جنگ لاہور ۳۰ اپریل ۱۹۹۳ء میں شائع شدہ آنجناب کے ایک بیان کے حوالہ سے چند گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کرنا اپنی دینی و قومی ذمہ داری سمجھتا ہوں، امید ہے کہ آنجناب ان پر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور فرمائیں گے۔ آپ نے اس بیان میں پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کی امریکی دھمکی پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ:

’’ہماری حکومت کوشش کر رہی ہے کہ امریکہ کے اس تاثر کا ازالہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے آپ دیکھ رہے ہیں کہ پشاور میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں کو نکالا جا رہا ہے۔‘‘

اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ پشاور میں سالہا سال سے مقیم عرب مجاہدوں کی اچانک گرفتاریاں، حوالات میں ان پر مبینہ تشدد اور انہیں جبرًا پاکستان سے نکالنے کی حالیہ کاروائی کا اصل مقصد امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ اور اس سے قبل روزنامہ پاکستان لاہور کی ۲۹ اپریل ۱۹۹۳ء کی اشاعت میں یہ خبر شائع ہو چکی ہے کہ پشاور میں مقیم عرب مجاہدین کے خلاف کاروائی کے لیے ان کی فہرستیں حکومت پاکستان کو امریکی سفارت خانہ کی طرف سے فراہم کی گئی ہے۔

پشاور میں مقیم ان عرب مجاہدین کے بارے میں، جنہیں آپ نے ’’غیر قانونی طور پر مقیم‘‘ کا خطاب دیا ہے، آپ کی خدمت میں متعلقہ اداروں کی طرف سے یقیناً کچھ فائلیں پیش کی گئی ہوں گی جو بیوروکریسی کی روایات کے مطابق یکطرفہ اور مخصوص تاثرات پر مبنی ہوں گی، اس لیے یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو تصویر کے دوسرے رخ سے بھی آگاہ کیا جائے تاکہ اس معاملہ میں آنجناب کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔

جناب وزیر اعظم! یہ عرب باشندے دو چار ہفتوں یا چند مہینوں سے پشاور میں قیام پذیر نہیں ہیں بلکہ دس بارہ سال سے اس علاقہ میں رہ رہے ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو افغانستان میں روسی استعمار کے تسلط اور مسلح جارحیت کے خلاف افغان عوام کے جہاد حریت میں شمولیت کے لیے دنیا کے مختلف ممالک بالخصوص عرب ملکوں سے آئے ہیں اور جہاد کے دینی جذبہ کے ساتھ جہاد افغانستان میں عملاً شریک رہے ہیں۔ یہ عرب نوجوان افغانستان یا حکومت پاکستان پر بوجھ نہیں بنے بلکہ انہوں نے اپنے ممالک سے جہاد افغانستان کے لیے بے پناہ مالی امداد فراہم کی ہے، ان میں سینکڑوں نوجوان مختلف محاذوں پر جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور ہزاروں معذور ہوگئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد آج بھی تمام خطرات سے بے نیاز ہو کر افغان مجاہدین کے مختلف گروپوں کے درمیان اختلافات کو دور کرانے اور افغانستان کی تعمیر نو میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے شب و روز مساعی میں مصروف ہیں۔

عرب مجاہدین کے ان گروپوں کا پاکستان کو، عرب حکومتوں کو، اور امریکی حکومت کو شروع سے علم ہے لیکن فرق صرف یہ پڑا ہے کہ جب تک ان مجاہدین کی جدوجہد کے کچھ سیاسی مفادات امریکہ کو بھی حاصل ہو رہے تھے، ان کا وجود گوارا تھا، انہیں عرب مجاہدین کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، اور ان کی امداد بھی کی جاتی تھی۔ لیکن اب جبکہ ان مجاہدین کے وجود کو امریکہ عالم اسلام میں اپنے عزائم کے حوالہ سے نقصان دہ تصور کرتا ہے، اچانک وہ ’’دہشت گرد‘‘ قرار پا گئے ہیں اور انہیں کچلنے کے لیے امریکی حکومت کے ساتھ عرب حکومتیں اور حکومت پاکستان بھی سرگرم عمل ہو گئی ہے۔

جناب وزیر اعظم! جہاد افغانستان کے بارے میں بجا طور پر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ افغانستان کی آزادی اور اسلامی تشخص کے تحفظ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سالمیت کے تحفظ کی جنگ بھی ہے۔ اس لیے کہ آنجہانی سوویت یونین کا اصل ہدف بلوچستان کے ساحل تک پہنچ کر گرم پانی کے سمندر اور تیل کے چشموں تک رسائی حاصل کرنا تھا، اور بلاشبہ افغان مجاہدین نے اس روسی یلغار کے سامنے لاشوں کی ناقابل تسخیر دیوار کھڑی کر کے پاکستان کی شمال مغربی سرحد کو ہمیشہ کے لیے اس قسم کے خطرات سے محفوظ کر دیا ہے۔ پاکستان کی سالمیت کی اس جنگ میں ان عرب نوجوانوں کا خون بھی شامل ہے اور اس لحاظ سے ان کا شمار ہمارے قومی محسنوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کسی لالچ اور مفاد کے بغیر جہاد کے دینی جذبہ کے ساتھ ہماری ملی سالمیت کی اس جنگ میں اپنے مقدس خون کا نذرانہ پیش کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں جہاد کی نئی روح پھونکنے والے اور ازسرنو مسلح جہاد فلسطین کا آغاز کرنے والے عرب نوجوان بھی اسی جہاد افغانستان کے فیض یافتہ ہیں، اور بوسنیا کے مظلوم اور بے بس مسلمانوں کو، جو گاجر مولی کی طرح سرب دہشت گردوں کے ہاتھوں کٹ رہے ہیں، اگر کسی نے عملی مدد فراہم کی ہے اور وہاں پہنچ کر کسی حد تک ان کے دفاع کا بندوبست کیا ہے تو وہ یہی عرب نوجوان ہیں جو ایک عرصہ تک پشاور میں ’’غیر قانونی طور پر مقیم‘‘ رہے ہیں، اور مختلف حیلوں سے بوسنیا پہنچ کر اپنے مظلوم اور لاچار مسلمان بھائیوں کی ڈھال بنے ہوئے ہیں۔

جناب وزیر اعظم! چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت پاکستان ان عرب مجاہدین کو اعلیٰ فوجی اعزازات سے نوازتی اور ان کی خدمات کو قومی سطح پر خراج تحسین پیش کیا جاتا۔ لیکن ہم احسان فراموشی اور ناقدری کا کس قدر اذیتناک منظر دیکھ رہے ہیں کہ ’’امریکہ کے تاثر کا ازالہ کرنے کے لیے‘‘ ان عرب مجاہدین کے سینوں پر ’’دہشت گرد‘‘ کا میڈل آویزاں کر دیا گیا ہے، انہیں جبرًا پاکستان سے نکال کر ان کے سیاسی مخالفین کی حکومتوں کے حوالے کیا جا رہا ہے، جہاں جیل، تشدد اور اذیت رسانی کا ایک نیا سلسلہ ان مجاہدین کے لیے اپنے خوفناک جبڑے کھولے ہوئے ہے۔

جناب وزیر اعظم! مجھے ان عرب مجاہدین سے زیادہ پاکستان کی فکر ہے۔ انہیں آپ مجاہدین کہیں یا دہشت گرد کا خطاب دیں، ان کی خدمات اور مشن میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ جہاں آنجہانی سوویت یونین اور ڈاکٹر نجیب اللہ کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں وہاں امریکہ اور اس کی حواری حکومتوں کی گولیاں بھی ان کے سینوں میں اس سے بڑا سوراخ نہیں کر سکیں گی۔ وہ تو ایمان اور جہاد کے جذبات سے سرشار ہیں، آزمائش کی اس بھٹی میں کندن بن کر نکلیں گے۔ لیکن تاریخ کے اتنے بڑے اسٹیج پر پاکستان کے سینے کو ’’احسان فراموشی‘‘ اور ’’محسن کشی’’ کے جن تمغوں سے مزین کیا جا رہا ہے، غلاظت کی ان بدنما اور بدبودار داغوں سے ہمارے سینوں کو کون صاف کرے گا؟

جناب وزیر اعظم! آپ نے عرب مجاہدین کے خلاف اس کاروائی کا مقصد یہ بتایا ہے کہ اس سے امریکی تاثر کا ازالہ ہوگا اور آپ کو یہ بریفنگ بھی شاید متعلقہ اداروں کی رپورٹوں کے ذریعے دی گئی ہے، لیکن اس غلط فہمی سے بھی آپ جس قدر جلد نجات حاصل کر سکیں ملک و قوم کے مفاد میں ہو گا۔ اس لیے کہ امریکی تاثرات اور حکومت کی خواہشات صرف ’’عرب مجاہدین‘‘ کو پشاور سے نکالنے تک محدود نہیں ہیں بلکہ اب تک پاکستان سے امریکہ کے جو مطالبات اور تقاضے بین الاقوامی پریس کے ریکارڈ میں آچکے ہیں، ان کی فہرست بڑی لمبی ہے جن میں سے چند ایک کا ذکر یہاں مناسب خیال کرتا ہوں:

  • امریکہ بہادر کا مطالبہ ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کو امریکہ کی مقرر کردہ حدود میں واپس لے جائے اور دفاعی مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول کے جائز حق سے کلی طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کرے۔
  • امریکہ کی مرضی ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی افواج میں کمی کرے اور دفاعی اخراجات کو اس دائرہ تک محدود کر دے جہاں اس کے لیے بھارت کی بالادستی کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہے۔
  • امریکہ چاہتا ہے کہ اسلامی جمہوری پاکستان کا اسلامی تشخص ختم کر کے اسے ایک سیکولر جمہوریہ کی حیثیت دی جائے۔
  • امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کے عمل کو ختم کر دیا جائے، نفاذ اسلام کی جدوجہد کرنے والی جماعتوں کو فرقہ وارانہ قرار دے کر خلاف قانون قرار دے دیا جائے اور قادیانیوں کے بارے میں آئینی اور قانونی اقدامات کو واپس لیا جائے۔
  • امریکہ کا پاکستان سے تقاضا ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں اپنے موقف میں لچک پیدا کرے تاکہ وادی کشمیر کو ایک خودمختار ملک قرار دے کر وہاں امریکہ کا ایک بڑا فوجی اڈہ قائم کیا جا سکے جو چین، جاپان، بھارت، پاکستان اور وسطی ایشیا کے درمیان امریکی مفادات و مقاصد کا نگہبان ہو۔
  • امریکہ کی مرضی یہ ہے کہ پاکستان اپنا پورا اثر و رسوخ افغانستان میں ایک مستحکم اور نظریاتی اسلامی حکومت کے قیام کو روکنے کے لیے استعمال کرے، اور افغانستان میں خانہ جنگی اور انتشار کی فضا قائم رکھنے کے لیے اسلام آباد مسلسل کردار ادا کرتا رہے۔
  • امریکہ بہادر کی منشا یہ ہے کہ وسطی ایشیا کی نو آزاد مسلم ریاستوں کو امریکہ کے زیر اثر لانے کے لیے پاکستان ایک وفادار ایجنٹ کا کردار ادا کرے۔
  • امریکہ بہادر مشرق وسطٰی کے مختلف ممالک میں ابھرتی ہوئی اسلامی تحریکات کو اس خطہ میں اپنے مفادات اور اسرائیل کے مستقبل کے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے، اور اس کی تمنا یہ ہے کہ ان تحریکات کو سبوتاژ کرنے اور کچلنے کے لیے پاکستان اس خطہ کی امریکہ نواز حکومتوں کے ساتھ بھرپور تعاون کرے۔

جناب وزیر اعظم! یہ امریکی خواہشات اور تاثرات کا ایک سرسری خاکہ ہے اور ان تمام خواہشات کی تکمیل کر کے ہی آپ امریکہ بہادر سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ’’دہشت گرد‘‘ ملک قرار دینے کی دھمکی پر نظرثانی کرے، ورنہ ان میں سے کسی ایک مسئلہ پر آپ کا اڑ جانا پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوانے کے لیے کافی ہے۔ جبکہ ان تمام تاثرات کے ازالہ کے بعد بھی اس امر کی ضمانت نہیں ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کا جنوبی ایشیا ڈیسک اس وقت تک پاکستان کے حوالہ سے امریکی خواہشات و تاثرات کی ایک نئی فہرست تیار نہیں کر چکا ہوگا۔

اس لیے اگر آپ کی حکومت نے ’’امریکہ کے تاثرات کے ازالہ‘‘ کی مہم کا بیڑا اٹھایا ہے تو میری آپ سے گزارش ہے کہ اس کی آخری حد تک کا بھی ابھی سے تعین کر لیں۔ کیونکہ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان کی رائے عامہ ان حقائق سے پوری طرح باخبر نہ ہونے کے باعث ابھی تک گومگو کی کیفیت میں ہے۔ لیکن یہ کیفیت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی اور رائے عامہ کے بیدار ہونے پر آپ پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھیں گے تو آگے جانے کے ساتھ ساتھ پیچھے ہٹنے کے دروازے بھی آپ پر بند ہوچکے ہوں گے، اور آپ کی حکومت اپنی امریکہ نواز پالیسیوں کے ساتھ ’’عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!‘‘ کا مصداق بن چکی ہوگی۔

جناب وزیر اعظم! مجھے احساس ہے کہ اپنے جذبات کے ہاتھوں مجبور ہونے کی وجہ سے انداز بیان کو تلخی کی آمیزش سے محفوظ نہیں رکھ سکا۔ اس پر آنجناب سے معذرت خواہ ہوں اور ایک بار پھر یہ استدعا کرتا ہوں کہ ایک باشعور مسلمان اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے ان حقائق کا جائزہ لیں اور ایسے کسی اقدام سے گریز کریں جو کہ انجام کار آپ کے لیے، پاکستان کے لیے، اور پاکستانی قوم کے لے بے وقاری اور بدنامی کا باعث ثابت ہو، بے حد شکریہ۔

والسلام
ابوعمار زاہد الراشدی
چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
   
2016ء سے
Flag Counter