مجلس ارشاد المسلمین لاہور اصحابِ فکر و نظر کی پرانی تنظیم ہے جو وقتاً فوقتاً علمی و فکری مسائل پر باہمی تبادلۂ خیالات کے لیے نشستوں کا اہتمام کرتی رہتی ہے۔ ۲۵ اگست کو جامع مسجد سیٹلائیٹ ٹاؤن گجومتہ لاہور میں دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کے حوالہ سے درپیش خطرات و خدشات کے موضوع پر ایک نشست امیر مجلس مولانا حافظ عبد الوحید اشرفی کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا، ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کی نشست کا موضوع گفتگو ’’دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کو درپیش خطرات و خدشات‘‘ ہے اور مجھ سے قبل متعدد اصحابِ دانش نے اس کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ یہ خدشات و خطرات کیسے سامنے آئے ہیں اور کیوں محسوس کیے جا رہے ہیں؟ قادیانی امت کے سربراہ مرزا مسرور احمد کا ایک ویڈیو کلپ ان دنوں سوشل میڈیا پر مسلسل گردش کر رہا ہے جس میں ان سے پوچھا گیا ہے کہ پاکستان میں حالات کی مبینہ تبدیلی کے تناظر میں کیا یہ توقع ہے کہ قادیانیوں کا مرکز پاکستان میں واپس چلا جائے گا؟ اس کے جواب میں انہوں نے دو باتیں کہی ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارا اصل مرکز تو قادیان ہے اور دوسری یہ کہ پاکستان میں ہمارا مرکز واپس جائے یا نہ جائے مگر پاکستان کا دستور ضرور تبدیل ہوگا۔ یہ کسی سیاسی مبصر کی قیاس آرائی نہیں ہے بلکہ اس گروہ کے سربراہ کی پیش گوئی ہے جو گزشتہ چار عشروں سے پاکستان کے دستور کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور تین عشروں سے اس دستور کے خلاف عالمی سطح پر محاذ آرائی جاری رکھے ہوئے ہے، اس لیے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایجنڈے میں اس وقت قادیانیوں کے بارے میں پاکستان کے داخلی قوانین کا مسئلہ شامل ہے اور یہ تجویز بھی اس سلسلہ کی سفارشات میں موجود ہے کہ پاکستان کو قادیانیوں کے بارے میں قوانین ’’ری سیٹ‘‘ کرنے کے لیے کہا جائے۔ چونکہ پاکستان میں قادیانیوں سے متعلقہ قوانین کا براہ راست دستوری دفعات سے تعلق ہے اس لیے اگر خدانخواستہ ان میں کسی قسم کے ردوبدل کی نوبت آئی تو اس سے نہ صرف دستور پاکستان کی موجودہ حیثیت متاثر ہوگی بلکہ اس کی نظریاتی بنیاد کا بھی ازسرنو تعین کرنا ہوگا۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ ایک عرصہ سے مختلف اصحاب دانش بلکہ بعض مقتدر شخصیات کی طرف سے بھی ’’نیا بیانیہ‘‘ اور ’’قومی بیانیہ‘‘ کے عنوان سے تجاویز سامنے آرہی ہیں جبکہ کسی بھی ملک و قوم کا ’’قومی بیانیہ‘‘ اس کا دستور ہوتا ہے اس لیے دستور کی موجودگی میں اور اس پر عملدرآمد پر مختلف اداروں کے سنجیدہ نہ ہونے کی فضا میں نئے قومی بیانیہ کی بات خطرے سے خالی دکھائی نہیں دیتی، اور اس قسم کی باتیں سامنے آنے پر خود دستور مجسم سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے جیسے پوچھ رہا ہو کہ ’’بھئی! میرا کیا بنے گا؟‘‘
ہم اس سے قبل ایک تجربہ سے گزر چکے ہیں کہ پاکستان بننے کے نو سال بعد ہمیں پہلا دستور ۱۹۵۶ء میں میسر آیا جس میں ملک کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا تھا اور اس میں نفاذ اسلام کی بات کی گئی تھی، وہ دستور صرف دو سال چل سکا اور ۱۹۵۸ء میں مارشل لاء کے ذریعے اسے ختم کر دیا گیا ۔ اس کی جگہ ۱۹۶۲ء میں جو پہلا عبوری آئین نافذ ہوا اس میں ملک کے نام سے ’’اسلامی‘‘ کا حصہ ختم کر کے اسے صرف ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ کا عنوان دیا گیا، مگر پرزور عوامی احتجاج پر اس تبدیلی کو واپس لیا گیا۔ اس کے بعد ۱۹۶۲ء کا باضابطہ دستور آیا جو ایک نیم سیکولر دستور تھا اور اس میں ملک کا حکومتی نظام پارلیمانی کی بجائے صدارتی کر دیا گیا تھا، مگر یہ دستور بھی ایک عشرہ سے زیادہ نہ چل سکا اور ایک اور مارشل لاء کی نذر ہوگیا، مگر اس تلخ تجربہ کے بعد ہم پاکستان کو متحد نہ رکھ سکے اور ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔ اس کے بعد ۱۹۷۳ء میں نئے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے متفقہ دستور منظور کیا جسے اب تک ایک اسلامی اور جمہوری ریاست کے دستور کے طور پر پوری قوم کا اتفاق و اعتماد حاصل ہے، البتہ اس پر عملدرآمد کی صورتحال یہ ہے کہ قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں نہ اسلام ایک نظام کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت سے جمہوریت آزادی حاصل کر پائی ہے۔
اس پس منظر میں جب نئے قومی بیانیہ کی بات سننے یا پڑھنے میں آتی ہے تو سابقہ دستوری تجربات کے تلخ نتائج کے باعث ڈر لگنے لگتا ہے کہ خدا جانے اب کیا ہونے جا رہا ہے؟ اس لیے دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کی بات کرنا ایک اہم دینی و قومی تقاضہ ہے لیکن تاریخ و سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے خود دستور پاکستان کی طرف خدانخواستہ خدشات کی دھند بڑھتی دکھائی دے رہی ہے، اللہ تعالٰی ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
اس کے ساتھ میں دستور پاکستان کی تین اسلامی دفعات کا بطور خاص ذکر کرنا چاہوں گا جو اس وقت سب سے زیادہ نشانے پر ہیں اور جنہیں تبدیل کرنے کے لیے عالمی سطح پر اور ملک کے اندر بھی کوششیں جاری ہیں۔ پہلی چیز تو ’’قرارداد مقاصد‘‘ ہے جو پاکستان کی اسلامی اور نظریاتی شناخت کی علامت اور اساس ہے، جبکہ بعض حلقوں کی شدید خواہش ہے کہ اگر اسے ختم نہیں کیا جا سکتا تو کم از کم ملک کے نظام و قانون پر اثر انداز ہونے کے قابل نہ رہنے دیا جائے۔ دوسرا حصہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی دستوری اور قانونی دفعات پر مشتمل ہے جو ہمارے عقیدہ و ایمان کی اساس ہیں اور اس وقت تبدیلی کے لیے سب سے زیادہ زور انہی پر دکھائی دیتا ہے۔ تیسرے نمبر پر ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا قانون ہے جو ہمارے عقیدہ و ایمان اور ملی حمیت و غیرت سے تعلق رکھتا ہے۔
ان حوالوں سے خدشات اب خطرات میں بدلتے جا رہے ہیں جبکہ ہمارے پاس اصل قوت قوم کے ایمانی جذبات کی ہے جس کی بدولت اب تک ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے پائی، البتہ ہمیں اس صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے:
- رائے عامہ کو بیدار و منظم رکھنے، دینی قوتوں میں وحدت و یکجہتی کے فروغ، اور پالیسی ساز اداروں کے دیندار افراد تک رسائی اور انہیں متوجہ کرنے کے لیے مسلسل کردار ادا کرنا ہوگا،
- اور اس کے ساتھ عالمی سطح پر متعلقہ بین الاقوامی اداروں میں لابنگ کے لیے بہرحال کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکالنا ہوگی۔
ان مقاصد کے لیے ہر طبقہ کے باشعور حضرات کو متحرک ہونا چاہیے اور ہر مسلمان کو اس جدوجہد میں اپنی شرکت کے مواقع تلاش کر کے اس میں عملاً شریک ہونا چاہیے، اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔