واشنگٹن ٹائمز اور ’’ملاؤں‘‘ کا خوف

   
۳ اکتوبر ۱۹۹۹ء

بعض قومی اخبارات نے این این آئی کے حوالے سے امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز کی ایک رپورٹ کے کچھ حصے شائع کیے ہیں جس میں پاکستان میں مُلاؤں کی بڑھتی ہوئی طاقت پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور ان کی راہ روکنے کے لیے امریکی حکومت کو عملی اقدامات کا مشورہ دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شدت پسند ملاؤں نے ایک مضبوط ملیشیا قائم کر رکھی ہے جس کے ارکان افغانستان اور کشمیر میں لڑتے رہے ہیں اور اس ملیشیا کی مدد سے پاکستان کو بھی ایران اور افغانستان جیسی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ رپورٹ میں امریکی دفتر خارجہ کے اس حالیہ بیان کا ذکر کیا گیا ہے جس میں امریکی حکام نے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے امکانات پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے متعلق کلنٹن انتظامیہ کے اعلیٰ دفاعی مشیر نے بھی حکومت سے کہا ہے کہ پاکستان میں ’’ملا‘‘ بہت طاقت پکڑ چکے ہیں اور ان کے عزائم کی راہ بیانات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ہی روکی جا سکتی ہے۔

پاکستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے مُلا کا خوف اور اس کی بڑھتی ہوئی طاقت پر امریکی دانشوروں کی طرف سے تشویش و اضطراب کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی نیا مسئلہ ہے۔ عالمی استعمار اور مُلا کے درمیان یہ کشمکش صدیوں سے چلی آ رہی ہے اور اپنے منطقی انجام تک پہنچنے تک اسے بہرحال جاری رہنا ہے۔ امریکی دانشور اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہیں کہ برصغیر پاک و ہند بنگلہ دیش میں جب برطانوی استعمار نے تسلط جمایا تھا تو اس کے خلاف سب سے مضبوط اور ناقابلِ شکست مزاحمتی قوت یہی مُلا ثابت ہوئے تھے۔

برطانوی استعمار کے تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے جہاد کا سب سے پہلا فتویٰ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فرزند و جانشین اور دہلی کے مدرسہ رحیمیہ کے شیخ الحدیث حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے جاری کیا تھا، اور اس فتویٰ کی بنیاد پر سب سے پہلا محاذِ جنگ پشاور سے بالاکوٹ تک کے وسیع علاقے میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ اور تحریکِ جہاد کے امیر سید احمد شہیدؒ نے گرم کیا تھا۔ پھر بنگال کے حاجی شریعت اللہؒ اور میر نثار علی تیتو میرؒ، قبائلی علاقہ کے حاجی صاحب ترنگ زئیؒ اور فقیر ایپیؒ، یو پی کے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور حافظ ضامن شہیدؒ، صادق پور کے مولانا صادق علیؒ اور ان کے رفقاء، انبالہ کے مولانا محمد جعفر تھانیسریؒ، سندھ کے پیر صبغۃ اللہ شاہ راشدی شہیدؒ، اور پشاور کے مولانا عبد الرحیم پوپلزئیؒ سمیت وہ ہزاروں مجاہدینِ آزادی مُلاؤں کے طبقہ سے ہی تعلق رکھتے تھے جنہوں نے وقتاً فوقتاً برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کے محاذ کو تازہ خون دے کر گرم رکھا۔

اور اس کے بعد بین الاقوامی گٹھ جوڑ اور سیاسی جدوجہد کے میدان میں بھی شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ جیسے مُلاؤں نے ہی برطانوی استعمار کے خلاف انقلابی جدوجہد کے تانے بانے بنے تھے، جبکہ ملک کے اندر عوام کو آزادی کے لیے سیاسی طور پر تیار کرنے والوں میں مولانا ابو الکلام آزادؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانویؒ، مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہؒ اور مولانا ظفر علی خانؒ جیسے رہنماؤں کا شمار مُلاؤں میں ہی ہوتا ہے۔

واشنگٹن ٹائمز کا تجزیہ نگار اس حقیقت کا بھی اچھی طرح ادراک رکھتا ہے کہ جب افغانستان میں روسی استعمار کے تسلط کے خلاف مزاحمت کی تحریک اٹھی تو اس میں فیصلہ کن کردار مُلاؤں نے ادا کیا۔ پاکستان میں مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ، مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا عبد الحقؒ افغان مجاہدین کی مزاحمتی جدوجہد کے پشتیبان بنے۔ اور افغانستان میں مولوی محمد نبی محمدی، مولوی محمد یونس خالص، مولوی نصر اللہ منصورؒ، مولوی جلال الدین حقانی اور مولوی محمد ارسلان رحمانی نے اس جہاد کی عملی قیادت کی۔ اور یہ معرکہ تو اس طرح خالص مُلاؤں کے ہاتھ میں ہی رہا کہ اگر کسی غیر مولوی نے اس میں کوئی کردار ادا کیا بھی تو آخری مرحلہ پر جہاد کے ثمرات کو سمیٹنے کے حوالے سے عالمی سازشوں کے جال میں پھنس کر ’’کھڈے لائن‘‘ لگ گیا۔ اور جہاد کے نتائج کا رخ سیدھا رکھنے کا کردار بھی طالبان کے نام سے مُلاؤں کے حصے میں ہی آیا۔

اس لیے کلنٹن انتظامیہ کے اعلیٰ دفاعی مشیر اور واشنگٹن ٹائمز کے تجزیہ نگار کا یہ خدشہ بے جا نہیں ہے کیونکہ انہیں امریکی استعمار کے سامنے وہی مُلا کھڑا نظر آ رہا ہے جس نے برطانوی استعمار کو برصغیر سے بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور کیا تھا، اور جس کے ہاتھوں روسی استعمار اپنے پڑوس میں ہی ریت کی دیوار کی طرح بکھر کر رہ گیا ہے۔

یہ جنگ کل بھی مُلا نے لڑی تھی اور آج بھی اس کا پرچم مُلا کے ہاتھ میں ہے۔ گزشتہ دو صدیوں سے جاری اس جنگ کے دو راؤنڈ مُلا جیت چکا ہے اور اب تیسرے اور آخری راؤنڈ کے لیے وہ ایک بار پھر اسی حوصلہ اور عزم کے ساتھ میدان میں کھڑا ہے۔ مُلا اور عالمی استعمار جنوبی ایشیا کے میدانِ کارزار میں ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں، دونوں کے درمیان طاقت کا توازن تو رہا ایک طرف کوئی نسبت بھی نہیں ہے، مگر مُلا کے چہرے کا اطمینان اور استعمار کے چہرے پر خوف کے لرزتے سائے دیکھ کر ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس راؤنڈ کا انجام بھی پہلے دو معرکوں سے مختلف نہیں ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter