اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں گزشتہ جون کے آخر میں منعقد ہونے والے ہم جنس پرستوں کے اجتماع پر پاکستان کے دینی و عوامی حلقوں کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور اسے ایک غیر ملکی سفارت خانے کی طرف سے ملک کے دستور و قانون کے منافی سرگرمیوں کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ ہمارے نزدیک یہ اس تہذیبی و ثقافتی کشمکش کا حصہ ہے جس کے تحت مغربی دنیا عالم اسلام میں آسمانی تعلیمات کی پابندی سے آزاد تہذیب و ثقافت کو مسلط کرنے کے لیے دباؤ، لابنگ، میڈیا، خوف اور لالچ کے تمام حربے استعمال کر رہی ہے۔ اور مسلم ممالک کے حکمران طبقات نے ’’یس سر‘‘ کے فدویانہ طرز عمل کے ساتھ اپنے وسائل اور توانائیاں مغربی دنیا کے حوالے کر رکھی ہیں، جس کی ایک مثال پاکستان کے وزیرداخلہ عبد الرحمان ملک کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے رائیونڈ کو انتہاپسندی کا مرکز قرار دیا ہے۔ ان کا یہ کہنا ہمارے خیال میں اس حوالے سے بجا ہے کہ رائیونڈ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر آسمانی تعلیمات کے فروغ اور وحی الٰہی کے ساتھ سوسائٹی کا تعلق جوڑے رکھنے کے لیے محنت کر رہا ہے اور اس کی محنت کے اثرات دنیا بھر میں پھیلتے جا رہے ہیں۔
اسی ایک مسئلہ کے حوالے سے دیکھ لیجئے کہ رائیونڈ اس موقف کا علمبردار ہے کہ باقاعدہ شادی کے بغیر مرد اور عورت کا جنسی تعلق قطعی حرام ہے۔ جبکہ مرد کا مرد کے ساتھ اور عورت کا عورت کے ساتھ جنسی تعلق اتنا بڑا جرم ہے کہ اس پر قرآن و سنت کے ساتھ بائبل کی تعلیمات میں بھی لعنت کی گئی ہے اور موت جیسی سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔ قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر جو عذاب نازل ہوا تھا اور آسمان سے پتھروں کی بارش کر کے سدوم اور عمورہ سمیت نصف درجن کے قریب بستیوں کو زمین میں دھنسا دیا گیا تھا وہ اسی عملِ بد یعنی ہم جنس پرستی کے جرم کی سزا تھا اور اس قوم کا کفر و شرک کے بعد سب سے بڑا جرم یہی تھا۔ جبکہ یہ پتھراؤ اس قدر سخت تھا کہ اس سے زمین سے پانی نمودار ہو کر ایک سمندر کی شکل اختیار کر گیا تھا جو آج بھی بحیرۂ مردار (Dead Sea) کی شکل میں موجود ہے۔
اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں منعقد ہونے والے اس اجتماع اور امریکی سفیر کی طرف سے اس کی مکمل حمایت کے اعلان پر سب سے پہلے ملک کے وزیرداخلہ عبد الرحمان ملک کو احتجاج کرنا چاہیے تھا کہ وہ خود کو مسلمان اور قرآن و سنت کا پیروکار کہتے ہیں اور اس ملک کے وزیرداخلہ ہیں جس کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے اور جس کے دستور میں اسلام کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دے کر قرآن و سنت کی دستوری بالادستی اور شرعی قوانین کے عملی نفاذ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مگر ان کی خاموشی بلکہ نیم رضا کی شہادت امریکی وزارت خارجہ کی ایک ترجمان خاتون نے یہ کہہ کر عالمی پریس میں دے دی ہے کہ امریکی سفارت خانے میں منعقدہ پاکستانی ہم جنس پرستوں کے مذکورہ اجتماع پر حکومت پاکستان نے ہم سے کوئی شکایت نہیں کی۔ اس کے برعکس اگر عبد الرحمان ملک صاحب رائیونڈ کو بنیاد پرستی اور انتہاپسندی کا طعنہ دے رہے ہیں تو اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم اسلام پر مغربی تہذیب و ثقافت کی اس جبری یلغار میں پاکستان کے موجودہ حکمران کس کیمپ میں ہیں اور کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس پس منظر میں ہم جنس پرستی کے حوالے سے خود مغربی دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اس پر چند خبریں ملاحظہ فرما لیجئے کہ اس مسئلہ پر مغرب کی قیادت کے ’’جوش و خروش‘‘ کی صورتحال کیا ہے۔
- واشنگٹن ڈی سی سے شائع ہونے والے اردو جریدہ ’’دنیا‘‘ نے ۲۹ جولائی کے شمارہ میں بتایا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے اعلان کیا ہے کہ امریکی فوج میں ہم جنس پرستوں پر عائد پابندی ۲۰ ستمبر کو ختم ہو جائے گی۔ اس موقع پر ان کے ساتھ وزیر دفاع لیون پیناٹا اور ایڈمرل مائیکل مولن بھی موجود تھے۔ ان اعلٰی امریکی افسروں نے تصدیق کی ہے کہ اس اجازت سے امریکی فوج کی تیاری پر اثر نہیں پڑے گا، اس پیشرفت سے فوج میں ہم جنس پرستوں پر ’’نہ پوچھو نہ بتاؤ‘‘ کی ۱۸ سالہ پابندی ختم کر دی جائے گی۔
- نیویارک سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’اردو ٹائمز‘‘ نے ۲۸ جولائی کو یہ خبر شائع کی ہے کہ نیویارک میں قانونی طور پر اجازت ملنے کے ایک ماہ بعد پہلا ہم جنس جوڑا شادی کے بندھن میں بندھ گیا ہے۔ نیویارک امریکہ کی پانچویں اور سب سے گنجان آباد ریاست ہے جہاں ہم جنس شادیوں کی قانونی طور پر اجازت دی گئی ہے۔ ہم جنس شادیوں کے علمبردار کٹی لیمبرٹ اور شیرل اڈوہ پہلا ہم جنس جوڑا تھا جس نے نیاگرا فالز میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شادی کی اور نیویارک سٹی کے میئر نے اس حوالے سے ہونے والی تقریب میں اپنے ان ساتھیوں کی شادی کی تقریب کی صدارت کی۔
- دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ اب وہ اس وفاقی قانون میں ترمیم کرے جس میں شادی کی تعریف ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان ہونے والے رشتے کے طور پر کی گئی ہے۔ نیویارک کے ایوان بالا نے گزشتہ ماہ ہم جنس شادیوں کے قانون کو ۲۹ کے مقابلہ میں ۳۲ ووٹوں سے منظور کیا تھا۔ ایوانِ بالا میں ری پبلکن جماعت کی اکثریت ہے۔ اس سے پہلے ایوانِ نمائندگان میں، جس میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے، اس قانون کو منظوری مل چکی ہے۔
- اس کے ساتھ ہی ہم جنس پرستی کے مخالفین بھی حرکت میں آرہے ہیں اور انہوں نے نیویارک ریاست کے لیے گزشتہ ماہ منظور کیے جانے والے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ہفت روزہ ’’پاکستان پوسٹ‘‘ نیویارک نے ۲۸ جولائی ۲۰۱۱ء کے شمارہ میں یہ خبر شائع کی ہے کہ نیویارک اسٹیٹ میں ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی کا قانون قابل عمل ہو چکا ہے، ۲۴ جون کو پاس ہونے والے بل کو ایک مہینہ گزرتے ہی نیویارک اسٹیٹ میں برسوں سے شادی کے منتظر ہم جنس پرستوں نے شادی دفاتر کا رخ کر لیا ہے۔ نیاگرافال کے قریب ایک بڑی تقریب میں میئر بلوم برگ کی نگرانی میں متعدد جوڑے غیر فطری شادی کے بندھن میں بندھ گئے ہیں۔پانچوں بوروز (نیویارک سٹی کے پانچ محلے) میں زیادہ سے زیادہ ایسے جوڑے شادیوں کے لیے سٹی کلرک کے دفاتر کا رخ کر رہے ہیں۔
- دوسری طرف اس کے مخالفین ریاست کے میرج ایکویٹی ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ نیویارکرز فار کانسٹیٹیوشنل فریڈم نے نیویارک سٹی کورٹ میں لاء سوٹ فائل کیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیویارک اسٹیٹ نے خاطر خواہ اقدام کے بغیر لاء سوٹ کی منظوری دی ہے جبکہ گورنر اینڈریوکومو جنہوں نے ’’گے میرج‘‘ کے حق میں زبردست مہم چلائی تھی، ان کے ترجمان نے اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ گے میرج کے خلاف یہ لاء سوٹ میرٹ کے بغیر ہے۔ لاء سوٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بل کے مخالف سینٹروں کو رائے کا اظہار نہیں کرنے دیا گیا اور نہ ہی اسے صحیح کمیٹیوں کے پاس بھیجا گیا ہے اور کسی مروجہ قاعدے کے بغیر فل سینیٹ ووٹ کے لیے بل کو پیش کر دیا گیا تھا۔ گے میرج کے مخالفین میں مختلف مذاہب کے علماء اور نیشنل آرگنائزیشن آف میرج وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے گورنر کومو کے مڈ ٹاؤن (نیویارک سٹی) آفس کے باہر مظاہرہ بھی کیا اور مطالبہ کیا کہ اس ایشو کا فیصلہ اسٹیٹ لیجسلیچر کی بجائے عوامی ریفرنڈم کے ذریعے کیا جائے۔ اس دوران ہم جنس جوڑے دھڑادھڑ سٹی کلرک کے دفاتر کا رخ کر رہے ہیں، ایسے ایسے جوڑے شادی کر رہے ہیں جو بیس سے پینتیس سال سے ساتھ چلے آرہے ہیں۔ اتوار کے روز لگ بھگ ۷۰۰ جوڑوں کی شادیاں ہوئیں، حکام کے مطابق ان میں سے ۷۷ فیصد جوڑے نیویارکرز تھے، مین ہیٹن کے جوڑوں کی تعداد ۳۶۵ رہی، ۱۲۵ بروکلین، ۱۰۰ کوئنز، ۴۵ برونکس اور ۴۲ جوڑے اسٹیٹن آئی لینڈ کے تھے۔
امریکہ سے شائع ہونے والے اردو اخبارات کی ان خبروں سے امریکہ میں ہم جنس پرستوں اور ان کے مخالفین کی سرگرمیوں کا ہلکا سا اندازا ہو جاتا ہے او ریہ بات قابل توجہ ہے کہ ۲۴ جون کو نیویارک اسٹیٹ کی اسمبلی نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی قرار دینے کا بل منظور کیا جبکہ ۲۵ جون کو اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں ہم جنس پرستوں کے مذکورہ اجتماع کا اہتمام کیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ نیویارک میں پاس ہونے والے بل کا پاکستان کے دارالحکومت میں ایک باقاعدہ تقریب کے ذریعے خیرمقدم کیا گیا۔
اس صورتحال کے بارے میں ہمارے وزیرداخلہ عبد الرحمان ملک کے تاثرات کیا ہیں اس کا اظہار وہی کر سکتے ہیں، ہمیں تو یہاں بھی مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ ہی یہ کہہ کر امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کرتے نظر آرہے ہیں:
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے