روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا عملی ایجنڈا

   
۳۰ جولائی تا یکم اگست ۲۰۰۵ء

ماڈل ٹاؤن لاہور میں اہل حدیث مکتب فکر کے نامور عالم دین مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی کی نگرانی میں ایک علمی و تحقیقی ادارہ ”مرکز التحقیق الاسلامی“ کے نام سے کام کر رہا ہے۔ حافظ صاحب کا تعلق روپڑی خاندان سے ہے اور اچھے علمی و تحقیقی ذوق سے بہرہ ور ہیں۔ ماہنامہ ”محدث“ کے عنوان سے ایک ماہوار جریدہ بھی شائع کرتے ہیں، جس میں دور حاضر کے فکری، علمی اور تہذیبی مسائل پر اربابِ قلم کی نگارشات اشاعت پذیر ہوتی ہیں اور میری ان کے ساتھ مناسبت کی بڑی وجہ یہی ہے۔ وہ بھی راقم الحروف کو مختلف پروگراموں میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں، جن میں سے بعض میں حاضری ہو جاتی ہے اور اس طرح ملی و دینی امور میں باہمی مشاورت و معاونت کی صورت کسی حد تک قائم رہتی ہے۔

گزشتہ دنوں اس مرکز میں کویت کی ”جمعیۃ احیاء التراث الاسلامی“ کے تعاون سے مذکورہ جمعیۃ کے دُعاۃ کے لیے کم و بیش ایک ہفتے کے دورانیے پر مشتمل تربیتی کورس کا اہتمام ہوا، جس میں ایک سو کے لگ بھگ دُعاۃ نے شرکت کی اور مجھے اس کی ایک نشست میں ”روشن خیالی اور اعتدال پسندی“ کے موضوع پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ چنانچہ چھبیس جولائی ۲۰۰۵ء کو مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر اور پروفیسر حافظ محمد ظفر اللہ شفیق کے ہمراہ عصر کے بعد والی نشست میں حاضری ہوئی اور مذکورہ بالا عنوان پر کم و بیش ایک گھنٹہ گفتگو کا موقع ملا، جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

روشن خیالی اور اعتدال پسندی دو خوبصورت اصطلاحیں ہیں، جو اپنے لغوی مفہوم و معنی کے اعتبار سے بہت بہتر اور خوب ہیں اور اسلام کے مزاج کا حصہ ہیں۔ قرآن کریم میں یہ کہا گیا ہے کہ اسلام لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لاتا ہے اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشن شاہراہ پر گامزن کرتا ہے۔ یہ اسلام کا بنیادی تعارف ہے کہ وہ روشنی کا علمبردار ہے اور اسی کی طرف نسل انسانی کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہ روشنی عقیدہ کی بھی ہے، خیال کی بھی ہے، کردار کی بھی ہے، عمل کی بھی ہے اور علم کی بھی ہے۔ اس لیے اسلام بذات خود روشنی کا علمبردار ہے اور روشن خیالی کا سبق دیتا ہے۔

اسی طرح اسلام اعتدال اور توازن کا دین ہے۔ قرآن کریم اس امت کو ”امت وسط“ قرار دیتا ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اعتدال اور توازن کی علمبردار ہے، میانہ روی پر قائم ہے۔ اسے بہت سے حوالوں سے واضح کیا جا سکتا ہے، مگر میں اس وقت دو حوالوں سے امت محمدیہ کے اعتدال اور میانہ روی کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

  1. سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہودی اور عیسائی دونوں افراط و تفریط کا شکار تھے۔ عیسائیوں نے انہیں خدا کا بیٹا اور اس کی خدائی میں شریک بنا رکھا تھا، جبکہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی معصوم و مقدس ماں حضرت مریم علیہا السلام کے خلاف مکروہ الزام تراشی کرتے تھے جو تاریخ کا ایک افسوس ناک باب ہے۔ اسلام نے ان دونوں انتہاؤں کے درمیان یہ کہہ کر اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اختیار کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے اور خدائی میں شریک تو نہیں ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ نیز بغیر باپ کے پیدا ہونے اور زندہ آسمانوں پر اٹھائے جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار اور نشانی ہیں۔ یہ دو انتہا پسندانہ رویوں کے درمیان اعتدال کا راستہ ہے جو اسلام نے اختیار کیا۔
  2. عمل و کردار کے حوالے سے انسانی سوسائٹی کو دو انتہاؤں کا ہر دور میں سامنا رہا ہے۔ ایک طرف ترکِ دنیا اور رہبانیت کا تصور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور حقوق میں انسان اس قدر محو ہو جائے کہ انسانوں کے حقوق و تعلقات کا لحاظ نہ رہے اور دوسری طرف طلبِ دنیا اور انسانی معاشرت میں اس حد تک گم ہو جانے کا تصور کہ اپنے خالق و مالک کے حقوق سے ہی انسان غافل ہو جائے۔ اسلام نے ان دو انتہاؤں کے درمیان بھی اعتدال اور توازن کا راستہ بتایا کہ انسان کے لیے اپنے خالق و مالک کی بندگی اور اس کے حقوق ادا کرنا بھی ضروری ہے اور انسانی تعلقات، رشتوں اور ان کے حقوق کی پاسداری بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ اس موقع پر میں سیدنا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کا حوالہ دینا چاہوں گا جب انہوں نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو شب و روز خدا کی بندگی میں مصروف اور گھر والوں کے حقوق و معاملات سے بے پروا دیکھا تو انہیں نصیحت کی کہ ”تجھ پر تیرے رب کا بھی حق ہے، تیری جان کا بھی حق ہے، تیری بیوی کا بھی حق ہے، تیرے مہمان کا بھی حق ہے۔ اس لیے دین اس کا نام ہے کہ ہر ایک کو اس کا حق ادا کرو۔“ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی تصدیق کر دی کہ ”صدق سلمان۔“

تو گویا اسلام بذات خود روشن خیالی کا علمبردار ہے اور اعتدال و میانہ روی کا دین ہے اور اعتدال اور روشن خیالی خود اسلام کے مزاج اور مقاصد میں شامل ہے، البتہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک اصطلاح کو کسی خاص معنی کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ معنی و مفہوم اس کے لغوی تقاضوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو الجھن پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال اسلام کے دور اول میں خوارج کے گروہ کا وہ نعرہ بھی ہے جو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف لگایا کرتے تھے۔ خوارج کو یہ اعتراض تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف صفین کی جنگ میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مصالحت کے لیے فیصل اور حکم کیوں بنا لیا تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ قرآن کریم کے اس حکم کے خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکم صرف اللہ تعالیٰ کا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حکم دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اسی بنا پر خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور ان کے ساتھ نہروان کی جنگ بھی لڑی تھی۔ خوارج جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جذبات کا اظہار کرتے تو قرآن کریم کا جملہ ”ان الحکم الا للہ“ نعرہ کے طور پر بلند کیا کرتے تھے اور غالباً حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس نعرے پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ جملہ فرمایا تھا کہ ”کلمۃ حق ارید بھا الباطل“ یعنی کلمہ تو حق ہے، لیکن اس سے جو معنی مراد لیا جا رہا ہے وہ باطل ہے۔ گویا قرآن کریم کے جملے کو غلط مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

میرے خیال میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی خوبصورت اصطلاحات کا بھی یہی حال ہے کہ اتنے خوبصورت الفاظ کو جس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، وہ محل نظر ہے اور اس کا بہرحال جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ان گزارشات کے بعد میں آپ حضرات کو اس طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ آج کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا عملی ایجنڈا کیا ہے اور اس خوبصورت نعرے کے ذریعے ہم سے جو عملی تقاضے کیے جا رہے ہیں ان کی فہرست اور تفصیل کیا ہے؟ کیونکہ یہ تو صرف نظری اور خیالی بات ہے کہ روشن خیالی کو فروغ دینا چاہیے اور اعتدال پسندی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی عملی شکل کیا ہوگی اور وہ کون سے کام ہیں جنہیں پورا کر کے ہم اپنے ان دوستوں کے نزدیک روشن خیال اور اعتدال پسند ہونے کا مقام حاصل کر سکیں گے؟

اس حوالے سے دیکھا جائے تو آج کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے جو عملی تقاضے ہمارے سامنے آتے ہیں، ان میں سے دو سب سے زیادہ اہم ہیں اور میں انہی کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

  1. ایک یہ کہ مذاہب کے درمیان مکالمہ اور مفاہمت کی صورت پیدا کی جائے اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی ختم کر کے باہمی تعاون و اشتراک کا ماحول بنایا جائے۔ ایک دوسرے کی نفی نہ کی جائے اور اتحاد بین المذاہب کو فروغ دیا جائے۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام حق مذہب ہے اور باقی مذاہب باطل ہیں تو بعض حلقوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ آپ دوسرے مذاہب کی نفی کر رہے ہیں اور منفی بات کر رہے ہیں۔ یہ بات ان حلقوں کے خیال میں غلط ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مثبت بات کریں، منفی نہ کریں۔ اپنے مذہب کو پیش کریں، دوسرے مذہب کو غلط نہ کہیں۔ اس طرح مذہبی رواداری اور مفاہمت کا ماحول بنے گا جو آج کے گلوبلائزیشن کے دور کے لیے ضروری تصور کیا جا رہا ہے۔
  2. دوسری بات جس کا ہم سے عملی تقاضا کیا جا رہا ہے، یہ ہے کہ قرآن کریم کے بعض احکام سخت ہیں اور تشدد کے ذیل میں آتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم کے بعض احکام آج کے جدید عالمی ماحول اور مسلم قوانین سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مثلاً مجرموں کو سنگسار کرنے اور کوڑے مارنے کی بات آج کی عالمی دنیا کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور عورت کو طلاق کا حق نہ دینے کا قانون مرد اور عورت میں مکمل مساوات کے اس تصور کے منافی ہے جو آج کی دنیا میں قبول کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے قرآنی احکام و ضوابط ہیں جو ہمارے معترضین کے نزدیک تشدد کی نمائندگی کرتے ہیں، عدمِ مساوات پر مبنی ہیں اور جدید عالمی فلسفے اور اس پر مبنی بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہیں۔ اس لیے ہمارے ان دوستوں کا خیال ہے کہ ان احکام پر نظر ثانی ہونی چاہیے اور انہیں یا تو نظرانداز کر دینا چاہیے یا پھر جدید تعبیر و تشریح کے ذریعے ان کی کوئی ایسی صورت متعین کرنی چاہیے جو آج کے عالمی ماحول کے لیے قابل قبول ہو۔

یہ دو بڑے مطالبات ہیں جو آج کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی طرف سے کیے جا رہے ہیں اور ان مطالبات کو پورا کیے بغیر ہم ان دوستوں کی نظر میں روشن خیال اور اعتدال پسند کا درجہ کسی صورت میں حاصل نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہمیں ان مطالبات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ہو گا اور ان کے بارے میں دو ٹوک موقف پیش کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں دو گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

  1. ایک یہ کہ یہ بات اس وقت سوچی جا سکتی ہے جب ہم آج کے جدید عالمی ماحول کو حق اور نجات کا حتمی معیار تصور کر لیں اور مغرب کے اس دعویٰ کو تسلیم کر لیں کہ ان کی تہذیب و معاشرت کے ارتقاء کا آخری نقطہ یہ مغربی تہذیب ہے، یہ ”اینڈ آف دی ہسٹری“ ہے، اس کے بعد انسانی سوسائٹی میں تہذیبی ارتقاء کی کوئی اور پیش رفت ممکن نہیں ہے، اس لیے یہی حتمی معیار ہے اور انسانی سوسائٹی کی آخری اور آئیڈیل منزل ہے۔ یہ مغرب کا دعویٰ ہے، اسے جن دوستوں نے ذہنی طور پر قبول کر لیا ہے، وہ اس بات پر مصر ہیں کہ اس کی بنیاد پر اسلامی احکام و قوانین کی نئی تعبیر کی جائے اور قرآن و سنت کی جدید تشریح کر کے انہیں اس جدید اور آخری عالمی فلسفہ سے ہم آہنگ کیا جائے۔

    لیکن ہم اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں اور آج کے جدید مغربی یا عالمی فلسفہ و تہذیب کو انسانی سوسائٹی کا ارتقاء سمجھنے کی بجائے اسے اسی جاہلیت قدیم کا ایک نیا دور تصور کرتے ہیں جسے اس سے قبل حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کئی بار کراس کر کے انسانی سوسائٹی کا رُخ آسمانی تعلیمات کی طرف موڑ چکے ہیں۔ اس لیے جب ہم اس عالمی فلسفہ و تہذیب کو حق، انصاف، نجات اور فلاح کا معیار ہی تصور نہیں کرتے تو اس سے ہم آہنگ ہونے کے لیے قرآن و سنت کے احکام میں رد و بدل کا خیال ہمارے ذہنوں میں کس طرح آ سکتا ہے؟ ہم آج بھی آسمانی تعلیمات کو ہی انسانی سوسائٹی کی فلاح اور کامیابی کا صحیح معیار سمجھتے ہیں، اس لیے آج کے جدید فلسفہ و تہذیب سے مطابقت کے لیے آسمانی تعلیمات میں رد و بدل کی بجائے ہمارے نزدیک آسمانی تعلیمات سے مطابقت اور ہم آہنگی کے لیے جدید عالمی فلسفہ و تہذیب میں رد و بدل ضروری ہے اور یہی ہمارے درمیان اصل نکتہ اختلافی ہے۔

  2. دوسری گزارش یہ ہے کہ یہ مطالبات ہمارے لیے نئے نہیں ہیں، ہم اس سے قبل بھی اس قسم کے مطالبات کا سامنا کر چکے ہیں۔ حتیٰ کہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا یہ ایجنڈا خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ان کے سامنے بھی پیش ہو چکا ہے، اس لیے ہمیں اس ایجنڈے اور ان مطالبات پر ازسرنو غور کرنے اور ان کا کوئی نیا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قرآن و سنت کے ذخیرے میں اور تاریخ کے ریکارڈ پر یہ مطالبات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیے گئے ان کے جوابات پوری طرح محفوظ و موجود ہیں اور ہماری رہنمائی کے لیے وہی کافی ہیں۔ میں اس محفل میں ان میں سے صرف تین مواقع کا تذکرہ کروں گا، جب جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح کے مطالبات رکھے گئے اور اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبرؐ نے ان کے دو ٹوک جوابات مرحمت فرمائے۔

یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ میں نے ان واقعات کا انتخاب جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے دونوں ادوار سامنے رکھ کر کیا ہے۔ ایک واقعہ مکی دور کا ہے جو محکومیت اور مظلومیت کا دور تھا اور کفار کے غلبے و قہر کا دور تھا اور دوسرے دو واقعات مدنی دور کے ہیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم اور غالب کی پوزیشن حاصل تھی۔ یہ اس لیے کہ ہمارے بعض دوست کہتے ہیں کہ آپ اسلامی احکام و عقائد اس دور کے حوالے سے بیان کرتے ہیں جب مسلمان غالب تھے اور اسلام کی حکمرانی قائم تھی۔ آج وہ صورتحال نہیں ہے، اس لیے آج آپ دنیا سے اس لہجے میں بات نہ کریں۔ آج دنیائے کفر غالب اور ہم مغلوب ہیں، لہٰذا آج ہمیں غلبہ کے دور کی طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ اس وجہ سے میں مغلوبیت کے مکی دور اور حکمرانی کے مدنی دور کے واقعات کی طرف توجہ دلا رہا ہوں، یہ بتانے کے لیے کہ ہمارا لہجہ دونوں دوروں میں یکساں تھا اور حالات کی تبدیلی نے اسلام کے بارے میں ہمارے لہجے میں کبھی تبدیلی پیدا نہیں کی۔

  1. مکی دور کا واقعہ یہ ہے کہ جو سیرت کی کم و بیش سبھی کتابوں میں مذکور ہے، البتہ ”الرحیق المختوم “ میں یہ زیادہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے کہ جب مکہ مکرمہ کے مشرکین جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کی دعوت سے روکنے کے لیے ہر حربہ میں ناکام ہو گئے، تو ان کا ایک بڑا وفد جناب ابوطالب کی وساطت سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ اس وفد میں ابوجہل، عتبہ، شیبہ اور دیگر اکابر قریش شامل تھے۔ انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کش کی کہ آپ اپنا دین پیش کرتے رہیں، لیکن ہمارے معبودوں کی نفی کرنا چھوڑ دیں۔ اپنے خدا کی بات کریں، مگر ہمارے بتوں کو باطل کہنا ترک کر دیں۔ یہ ان کے نزدیک اعتدال کی بات تھی اور وہ یہ پیش کش کر کے میانہ روی اور رواداری کا پیغام دے رہے تھے، مگر نہ صرف یہ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ”الکافرون“ کے نام سے مستقل سورت نازل کر کے قیامت تک کے لیے دو ٹوک اعلان کر دیا کہ عقیدہ کے مسئلے میں کوئی رواداری نہیں ہے اور حق اور باطل کے درمیان کوئی میانہ روی نہیں ہے۔ حق کو حق کہنا اور باطل کو باطل کہنا ہی دین کی بنیاد ہے، جس میں کوئی لچک نہیں ہو سکتی۔
  2. دوسرا مکالمہ میں وہ پیش کرنا چاہوں گا جس میں نجران کے عیسائی رہنماؤں اور مذہبی پیشواؤں کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو فرمائی تھی۔ یہ حضرات مدینہ منورہ آئے تھے، ان سے مذاکرات ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خدا کا بیٹا ہونے کے مسئلے پر گفتگو کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی تھی۔ اس کے بعد مباہلہ کی دعوت کی نوبت آئی اور بالآخر ایک معاہدے پر بات منتج ہوئی، جس میں ان مسیحیوں نے اسلام قبول کرنے کی بجائے مسلمانوں کی رعیت کے طور پر رہنا منظور کر لیا۔

    اس موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مکتوب گرامی کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں جو آپؐ نے نجران کے سرداروں کو بھجوایا تھا اور جس کے نتیجے میں یہ وفد مدینہ منورہ آیا تھا۔ اس خط میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”میں تمہیں بندوں کی عبادت سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف اور بندوں کی ولایت سے اللہ تعالیٰ کی ولایت کی طرف آنے کی دعوت دیتا ہوں۔“ اور جب مذاکرات اور مباہلہ کی دعوت کسی مثبت نتیجے پر نہیں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر قرآن کریم میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ ”اے اہل کتاب! آؤ اس قدر مشترک کی طرف جو ہمارے اور تمہارے یہاں موجود ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے بعض دوسرے بعض کو اللہ کے علاوہ رب نہ بنا لیں۔“

    گویا قرآن کریم نے توحید اور انسان پر انسان کی خدائی یا حکمرانی کی نفی کو آسمانی مذاہب کے درمیان قدر مشترک قرار دیا ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ پھر ان جملوں سے آگے قرآن کریم نے مسلمانوں کو یہ بھی حکم دیا کہ ”اگر اہل کتاب اس قدر مشترک کو نہ مانیں تو تم ضرور یہ اعلان کر دو کہ ہم اس پر بہرحال قائم ہیں۔“

    انسانوں کو انسانوں پر رب ماننے کا مطلب کیا ہے؟ اس پر میں بخاری شریف کی ایک روایت پیش کروں گا کہ حاتم طائی کے بیٹے حضرت عدی رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو اس سے قبل وہ عیسائی تھے، بلکہ عیسائیوں کے سردار تھے۔ انہوں نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ کے بارے میں دریافت کیا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ اہل کتاب نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ تعالیٰ کے سوا رب بنا لیا تھا، حالانکہ ہم نے تو ایسا نہیں کیا تھا اور نہ ہی ہم اپنے علماء اور مشائخ کو اپنا رب سمجھتے تھے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”کیا تم حلال و حرام میں اپنے مشائخ اور علماء کو آخری اتھارٹی نہیں سمجھتے تھے کہ وہ جسے حلال کر دیں وہ حلال ہے اور جسے حرام کر دیں وہ حرام ہے؟“ حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ایسا تو تھا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”انسانوں کو اپنے اوپر رب بنانے کا یہی مطلب ہے۔“

    میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نجران کے عیسائی سرداروں کے نام جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب میں انسانوں کی ولایت کی نفی، قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں انسانوں کی ربوبیت کی نفی اور اس کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس تشریح کی روشنی میں بات کو سمجھیں تو یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ مسیحیوں کے ساتھ ان مذاکرات کے نتیجے میں قرآن کریم نے دو باتوں کو آسمانی مذاہب کے درمیان قدر مشترک قرار دیا ہے، ایک توحید اور دوسرا انسانوں پر انسانوں کی حکمرانی کی نفی۔ اور پھر قرآن کریم نے واضح اعلان کیا ہے کہ ان دو باتوں پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔

    جہاں تک حلال و حرام کا اختیار انسانوں کو دینے کا تعلق ہے، آج بھی مسیحی مذہب میں پوپ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جس کو حلال کہہ دے، وہ حلال ہے اور جس کو حرام قرار دے، وہ حرام ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی کونسل موجود ہے، لیکن آخری فیصلہ کا حق پوپ ہی کے پاس ہے۔ جبکہ اسلام میں اس کا تصور نہیں ہے اور جس چیز کو قرآن نے صراحتاً حرام قرار دیا ہے، کسی کے پاس اس کو حلال کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی ذات کے لیے شہد کو ممنوع قرار دیا تھا تو قرآن کریم میں پوری سورت اتاری گئی، جس میں یہ کہا گیا کہ ایک چیز اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال قرار دی ہے تو آپ اسے اپنے اوپر کیوں حرام کر رہے ہیں؟ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قسم توڑنا پڑی۔

    میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو لوگ ہم سے احکام شریعت میں رد و بدل اور ترمیم کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ دراصل اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ جس طرح مسیحیت میں پوپ کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ بائبل کی تشریح اور کسی مسئلہ کی تعبیر میں کوئی نیا موقف اختیار کر سکتے ہیں اور اس کے مطابق فیصلہ دے سکتے ہیں جو حتمی ہوتا ہے، اسی طرح شاید مسلمان علماء کرام کو بھی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ جب چاہیں کسی شرعی حکم میں رد و بدل کر لیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اختیار تسلیم نہیں کیا گیا کہ وہ اپنی ذات کے لیے کسی حرام کو حلال کر سکیں تو اور کسی کے لیے یہ حق تسلیم کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مخلوقات میں سے کسی کو حلال و حرام میں رائے اور فیصلہ کا اختیار دیتے تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی اس کا مستحق نہیں تھا۔ اس لیے ہمارے ہاں حلال و حرام کا وہ دائرہ جو قرآن کریم میں نص صریح کے ساتھ واضح ہے، اس میں رد و بدل کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ اور اگر کوئی کرنے کی کوشش بھی کرے گا تو اس کی بات چلے گی نہیں، اس لیے کہ قرآن کریم اصلی اور محفوظ حالت میں جوں کا توں محفوظ ہے اور اس کے الفاظ اور معانی تک کسی بھی مسلمان کو رسائی حاصل ہے۔ بائبل کی بات دوسری ہے، کیونکہ وہ اصلی حالت میں موجود نہیں ہے، اس لیے اس کی کوئی تعبیر و تشریح نئے سرے سے کر دی جائے تو وہ چل سکتی ہے اور چل جاتی ہے۔ لیکن قرآن کریم کے کسی حکم میں رد و بدل کی کوئی کوشش قرآن کریم کے متن اور سنت نبویؐ کی صورت میں اس کی تشریح کی موجودگی میں سرے سے چل ہی نہیں سکتی اور نہ آج تک چل سکی ہے۔

  3. تیسرا مکالمہ جس کا تذکرہ میں یہاں ضروری سمجھتا ہوں، بنو ثقیف کا ہے جو طائف کے باشندے تھے اور یہ امر واقعہ ہے کہ فتح مکہ اور فتح حنین کے بعد طائف کا سترہ روز تک محاصرہ کرنے کے باوجود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طائف کو فتح نہیں کر سکے تھے اور بنو ثقیف کا ایک وفد خود مدینہ منورہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تاکہ بات چیت کر کے پوری قوم کی طرف سے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر سکے۔ اس وفد نے طائف کی پوری آبادی کی طرف سے اسلام قبول کرنے کی پیش کش کی، لیکن اس کے ساتھ کچھ شرطیں عائد کر دیں جن کا تذکرہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ”سیرت النبیؐ“ میں اور مولانا عبدالرؤف دانا پوری رحمہ اللہ نے ”اصح السیر“ میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔

    ان کی پہلی شرط یہ تھی کہ ان کا پرانا معبود ”لات“ ان کے لیے بہت قابل احترام ہے، اس لیے اسے توڑا نہ جائے اور باقی رہنے دیا جائے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط مسترد کر دی اور فرمایا کہ ”لات“ ہر حال میں توڑا جائے گا۔ انہوں نے کچھ عرصہ کے لیے اسے باقی رکھنے کے لیے کہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مطالبہ بھی مسترد کر دیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اگر اسے توڑنا ضروری ہے تو اس کا بنو ثقیف کو ذمہ دار نہ بنایا جائے، ہم اسے نہیں توڑ سکیں گے۔ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا اور کہا کہ میں اپنے آدمی بھیج کر اسے تڑوا دوں گا۔ چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہا کو بھیج کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بت کو مسمار کرا دیا۔

    بنو ثقیف کی دوسری شرائط یہ تھیں کہ

    • انہیں نماز کی پابندی سے مستثنیٰ رکھا جائے۔
    • وہ شراب کا کاروبار نہیں چھوڑ سکیں گے، اس لیے کہ طائف انگوروں کا علاقہ ہے اور شراب کے بغیر ان کی معیشت متاثر ہو گی۔
    • وہ سود کا لین دین ترک نہیں کریں گے، اس لیے کہ دوسرے قبائل کے ساتھ ان کی تجارت سود کے ساتھ ہوتی ہے اور اسے چھوڑ کر ان کی تجارت قائم نہیں رہ سکے گی۔
    • ان سے زنا کو ترک کرنے کا مطالبہ بھی نہ کیا جائے، کیونکہ ان کے ہاں شادیاں بہت دیر سے ہوتی ہیں اور نوجوانوں کا گزارہ نہیں ہوتا۔

    آگے بڑھنے سے قبل میں ایک سوال کرنا چاہوں گا کہ اسلام قبول کرنے کے لیے ہماری آج کی شرائط کیا ہیں؟ فرد کی حیثیت سے تو ہم سب بحمد اللہ مسلمان ہیں، مگر سوسائٹی اور معاشرہ کی حیثیت سے اسلام قبول کرنے میں ہماری آج کی شرائط ان سے مختلف نہیں ہیں۔ مگر ایک فرق ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ شرائط مسترد کر دیں، تو بنو ثقیف کو فیصلہ کرنے میں صرف ایک رات لگی اور دوسرے روز انہوں نے اپنی شرائط واپس لے کر غیر مشروط طور پر اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا، لیکن ہم اٹھاون برس سے اس تذبذب میں ہیں اور فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ سوسائٹی اور قوم کے طور پر اسلام کو قبول کرنے میں اپنی شرائط پر نظر ثانی کر سکیں اور بنو ثقیف کی طرح اس حقیقت کا ادراک کر سکیں کہ اسلام تو جب بھی قبول کرنا ہو گا غیر مشروط قبول کرنا ہو گا اور قرآن و سنت کے احکام کو من و عن تسلیم کرنا ہو گا۔

ہمارے بعض دوست جب یہ کہتے ہیں کہ مولوی صاحب! کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا اور آج کی عالمی برادری کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے لیے ان مطالبات کے حوالہ سے کچھ لچک تو بہرحال دکھانا ہو گی، تو مجھے ان دوستوں کے بھولپن پر ہنسی آتی ہے۔ ایک بار میں نے اس سوال پر عرض کیا کہ چلو عالمی مطالبات پر ہم ایک ”ترمیمی بل“ بنا لیتے ہیں، جس میں دوسرے مذاہب کو باطل قرار دینے سے گریز، ہاتھ کاٹنے اور کوڑے مارنے کی سزاؤں میں تبدیلی اور عورت اور مرد میں مکمل مساوات کے امور شامل ہوں، مگر کوئی مجھے یہ بتا دے کہ اس ترمیمی بل کو منظور کرنے کی مجاز اتھارٹی کون سی ہے؟ کیونکہ یہ احکام قرآن کریم سے تعلق رکھتے ہیں اور قرآن کریم کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے وحی بھیجتے آ رہے تھے، وہ احکام نازل بھی کرتے تھے اور ان میں تبدیلی بھی کر دیتے تھے۔ آسمانی احکام و قوانین میں ترامیم اور رد و بدل کا سلسلہ ہزاروں سال تک جاری رہا، لیکن جب قرآن کریم کی باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی وحی مکمل ہونے کے ساتھ ہی وحی کا دروازہ بند کر دیا اور کنکشن بھی یہ کہہ کر آف کر دیا کہ اب قیامت تک انہی احکام پر عمل ہو گا۔ اس لیے اگر قرآن کریم پر ایمان ہے اور ہدایت و فلاح کا وہی مدار ہے تو اس کے احکام کو جوں کا توں ماننا ہو گا، اس میں کسی دوسری رائے یا دوسرے راستے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

بہرحال اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے نام پر علماء کرام اور اہل دین سے عملی طور پر جن باتوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، ان کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کر دی ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائیں اور دینِ حق پر استقامت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter