بلوچستان: قائد جمعیۃ کا بیان اور قومی پریس

   
۵ اپریل ۱۹۷۴ء

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ ۳۰ مارچ کو اسلام آباد سے بہاولنگر جاتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے مرکزی دفتر لاہور میں رکے۔ آپ کے ساتھ سنیٹر حاجی محمد زمان خاں اچکزئی (کوئٹہ) اور سنیٹر حاجی محمد شعیب شاہ (بنوں) بھی تھے۔ اس موقع پر آپ نے ’’بلوچستان بچاؤ کمیٹی‘‘ کے نام سے لاہور میں قائم ہونے والی محب وطن سیاست دانوں کی تنظیم کے قیام پر اظہارِ اطمینان و مسرت کرتے ہوئے قومی پریس کے لیے ایک بیان دیا، جو اسی روز دفتر کی طرف سے ایک معروف خبر رساں ایجنسی اور دیگر اخبارات کو بھجوا دیا گیا۔ مگر شاید یہ ’’عوامی حکومت‘‘ کے دور میں پریس کی آزادی کا شاہکار ہے کہ بلوچستان جیسے اہم مسئلہ پر مولانا مفتی محمود صاحب جیسے سربرآوردہ سیاسی راہنما کا بیان تا دمِ تحریر ایک اخبار کے مقامی ایڈیشن کے سوا شائع نہیں ہو سکا۔ دفتر جمعیۃ کی طرف سے جاری ہونے والے پریس ریلیز کا متن ملاحظہ فرمائیے اور قومی پریس کو داد دیجئے کہ اس کے دامن میں اہم ترین سیاسی مسئلہ پر نامور قومی راہنما کے زریں ارشادات کو جگہ نہ مل سکی۔ (۷ اپریل ۱۹۷۴ء)

’’قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے ایک اخباری بیان میں ’’بلوچستان بچاؤ کمیٹی‘‘ کے قیام کا خیرمقدم کیا ہے اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر بلوچستان کے مظلوم عوام کو ان کے آئینی و جمہوری حقوق دلوانے اور ملکی سالمیت کے تحفظ کے لیے اس کمیٹی سے تعاون کریں۔

آپ نے کہا، گزشتہ ایک سال سے بلوچستان کے مظلوم عوام پر جو ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے وہ انسانی تاریخ کا ایک اندوہناک باب ہے۔ اس صوبہ کے عوام نے الیکشن میں جن جماعتوں کو اپنی نمائندگی اور حکومت کے لیے منتخب کیا تھا انہیں حکومت سے محروم کر کے عوام کے جمہوری حقوق غصب کر لیے گئے ہیں۔ غیر آئینی و غیر جمہوری اقلیتی حکومت قائم کر کے آئین و جمہوریت کو پامال کر دیا گیا ہے۔ اور فوجی طاقت کے بل پر عوام کو ظلم و جبر کی بالادستی قبول کر لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بلوچ عوام کا قتل عام ہو رہا ہے۔ ظلم و ستم سے تنگ آ کر مظلوم و بے کس عوام پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ان کا راشن بند کر دیا گیا ہے اور وہ پتے اور گھاس کھا کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے منتخب نمائندوں اور سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ اور وہ لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اس حالت میں بھی انہوں نے ظلم و جبر کے تسلط کو قبول نہیں کیا اور اپنے حقوق کی خاطر مسلسل مصروفِ جہد و عمل ہیں۔

مفتی صاحب نے کہا، حکومت بلوچستان میں وہی ڈرامہ دہرانا چاہتی ہے جو مشرقی پاکستان میں کھیلا جا چکا ہے۔ منتخب عوامی نمائندوں پر جھوٹے مقدمات چلانے کے بعد ان کی سیٹیں جبراً خالی کرا کے بلا مقابلہ ضمنی انتخابات کے ذریعہ مصنوعی اکثریت قائم کی جا رہی ہے۔ لیکن میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم ان نام نہاد انتخابات کی آئینی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم ۱۹۷۰ء کے انتخابات کی روشنی میں اکثریتی حکومت کی بحالی کے سوا اور کوئی حل قبول نہیں کریں گے۔

آپ نے کہا، ایسے حالات میں جبکہ وفاقی حکومت بلوچستان میں سٹیج کیے ہوئے ڈرامے کا ڈراپ سین دکھلانے کے لیے بے چین نظر آ رہی ہے، پنجاب میں ’’بلوچستان بچاؤ کمیٹی‘‘ کا قیام انتہائی خوش آئند اور اطمینان بخش قدم ہے۔ میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور کارکنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بلوچستان کے مظلوم عوام کی بھرپور امداد اور ان کے جمہوری حقوق کی بحالی جیسے مقدس مقاصد کے لیے کمیٹی سے بھرپور تعاون کریں۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter