شاہ حسین مرحوم

   
تاریخ : 
۱۹ فروری ۱۹۹۹ء

اردن کے فرمانروا شاہ حسین کی وفات پر کچھ لکھنے کو جی چاہ رہا تھا مگر ابھی تذبذب میں ہی تھا کہ حامد میر صاحب نے پہل کر دی اور تاریخ کے ان بے نقاب گوشوں سے پردہ سرکایا جن سے ہماری آج کی نسل قطعی طور پر ناواقف ہے۔ چنانچہ ان کے ’’تقدم‘‘ کے اعتراف اور ان کے لیے دعائے خیر کے ساتھ اس حوالے سے کچھ گزارشات پیش کر رہا ہوں۔

جہاں تک شاہ حسین کی وفات کا معاملہ ہے ایک مسلم حکمران اور پاکستان کے ایک دوست کی وفات کا ہمیں بھی رنج ہے اور ہم دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت ان کی غلطیاں معاف فرمائے اور جوارِ رحمت میں جگہ دے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ ہم پر ان کا حق ہے۔ لیکن ان کے اور ان کے خاندان کے جو فضائل و مناقب بیان کیے جا رہے ہیں اور جس طرح مشرقِ وسطیٰ میں امن کے ہیرو کے طور پر انہیں پیش کیا جا رہا ہے اس کے پیشِ نظر اصل حقائق کو سامنے لانا اور نئی نسل کو ان سے متعارف کرانا بھی ہماری ذمہ داری ہے اور اسی جذبہ کے ساتھ چند معروضات سپردِ قلم کی جا رہی ہیں۔

ترکی کی خلافتِ عثمانیہ نے کئی صدیوں تک دنیا میں ایک سپر پاور کے طور پر حکمرانی کی ہے اور موجودہ عیسوی صدی کے آغاز تک عرب کے بیشتر علاقے، جن میں حجاز مقدس اور فلسطین، بیت المقدس اور اردن کے خطے بھی شامل ہیں، خلافتِ عثمانیہ ہی کے حصے اور اس کے صوبے تھے۔ شاہ حسین مرحوم کے پردادا حسین بن علی جنہیں شریفِ مکہ کہا جاتا تھا، خلافتِ عثمانیہ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے والی (گورنر) تھے۔ وہ عثمانی پارلیمنٹ کے ممبر کے طور پر کم و بیش ستر سال استنبول میں مقیم رہے، اس کے بعد انہیں مکہ مکرمہ ٰکا گورنر مقرر کیا گیا اور وہ اس حیثیت سے شریفِ مکہ کہلاتے تھے۔ اسی دوران پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی جس میں یہودیوں نے جرمنی کے خلاف دیگر یورپی ممالک کا اس شرط پر ساتھ دیا اور اپنی دولت کے دروازے ان کے لیے کھول دیے کہ وہ فلسطین میں انہیں بسانے اور ان کی الگ مملکت (اسرائیل) کے قیام کی راہ ہموار کریں گے۔ خلافتِ عثمانیہ اس جنگ میں جرمنی کی حلیف تھی اس لیے جرمنی کی شکست کے اثرات خلافتِ عثمانیہ پر بھی پڑے اور اس کے خلاف فرنگی استعمار کی سازشیں تیز تر ہوتی چلی گئیں۔ انگریز جاسوس کرنل لارنس آف عریبیہ نے مسلمان کے روپ میں عربوں کو ترکوں کے خلاف ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا اور عرب قومیت کا مسئلہ کھڑا کر کے خلافتِ عثمانیہ کے خلافت بغاوت کے بیج بوئے۔

قاہرہ میں برطانوی نمائندے لارڈ کچز نے ۱۹۱۵ء میں شریفِ مکہ حسین بن علی کے بیٹے اور مرحوم شاہ حسین کے دادا شاہ عبد اللہ سے ملاقات کی اور ان دونوں کے درمیان عرب علاقے کو خلافتِ عثمانیہ سے باغی کرنے کی سازش تیار ہوئی۔ جس کے ابتدائی انتظامات مکمل ہونے کے بعد شریفِ مکہ حسین بن علی نے ۱۰ جون ۱۹۱۴ء کو مکہ مکرمہ میں اپنے محل سے فائر کر کے ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔ شریفِ مکہ سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اسے پورے عرب کا بادشاہ بنا دیا جائے گا اور عربوں کی متحدہ سلطنت قائم کی جائے گی اور اس لالچ میں اس نے بغاوت کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد ترکی فوجوں کے ساتھ باغیوں کی جنگ ہوئی جس میں ترکوں کو شکست ہوئی اور اسی دوران ترک افواج کی کمک کو روکنے کے لیے قسطنطنیہ (استنبول) سے مدینہ منورہ تک آنے والی حجاز ریلوے کی پٹڑی کو اکھاڑ کر ریل کے نظام کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔

اسی موقع کی بات ہے کہ متحدہ ہندوستان سے تحریکِ آزادی کے عظیم رہنما شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ فرنگی اقتدار کے خلاف بغاوت کی اندرونی تیاریاں مکمل کر کے ترک رہنماؤں سے مذاکرات کے لیے حجازِ مقدس پہنچے ہوئے تھے اور اس جنگ کی تیاری کے آخری مراحل میں تھے جسے تحریکِ ریشمی رومال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے سامنے حجاز مقدس میں شریف مکہ کی طرف سے ایک فتویٰ پیش کیا گیا جس میں ترکوں کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف بغاوت کو جائز قرار دیا گیا تھا، حضرت شیخ الہندؒ نے اس فتویٰ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور اسے عالمِ اسلام کی تباہی کا پیش خیمہ قرار دیا۔ اس انکار کی پاداش میں شریفِ مکہ نے حضرت شیخ الہندؒ کو گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کر دیا اور وہ اپنے دیگر رفقاء کے ہمراہ ساڑھے تین سال تک جزیرہ مالٹا میں بغاوت کے الزام میں نظر بند رہے۔

شریفِ مکہ نے بغاوت کر کے ترکوں کے قدم عرب ممالک سے اکھاڑ دیے اور مختلف عرب ممالک میں لارنس آف عربیہ کی پھیلائی ہوئی عرب قومیت کی تحریکات نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ مگر ترکوں کے قدم اکھڑ جانے اور خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد انگریزوں نے شریف مکہ سے آنکھیں پھیر لیں اور اسے پورے عرب کا بادشاہ بنانے کی بجائے عرب خطے کو کئی خودمختار ریاستوں میں تقسیم کر کے اس بندر بانٹ میں یہودیوں کے لیے اسرائیل کی ریاست کا راستہ نکال لیا، دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر آباد کیا گیا اور فلسطینیوں کو دربدر کر دیا گیا۔ اور اسرائیل کے قیام سے لے کر اسے مستحکم کرنے اور مسلسل حفاظتی حصار میں رکھنے کے لیے برطانیہ اور اس کے جانشین امریکہ نے اب تک جو کردار ادا کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

انگریزوں نے شریفِ مکہ حسین بن علی کو تو عرب دنیا کا بادشاہ نہ بنایا مگر اس کے بیٹے عبد اللہ کو، جس نے لارڈ کچز کے ساتھ بیٹھ کر خلافتِ عثمانیہ کے خلاف سازش تیار کی تھی، دریائے اردن کے کنارے پر ایک پٹی کا حکمران بنا کر شاہِ اردن کا خطاب دے دیا۔ اردن کے مرحوم شاہ حسین اسی شاہ عبد اللہ کے پوتے اور جانشین تھے۔ چنانچہ اسرائیل کو سب سے پہلے تسلیم کر کے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے امریکی منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے شاہ حسین مرحوم نے جو کردار ادا کیا اسے صدر کلنٹن کے اس خطاب کی روشنی میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے جو چند سال قبل انہوں نے اردن کی پارلیمنٹ کے سامنے کیا تھا اور جس میں شاہ حسین کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ

’’آپ نے تو اس وصیت سے بھی بہت آگے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے جو آپ کے دادا شاہ عبد اللہ نے کی تھی۔‘‘

الغرض مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام و استحکام اور خلافتِ عثمانیہ کی بربادی کے لیے اس خاندان نے جو کردار ادا کیا ہے وہ بلاشبہ ایک تاریخی کردار ہے اور امتِ مسلمہ کبھی اسے فراموش نہیں کر سکے گی۔ اس سلسلہ میں پنجاب یونیورسٹی کے ’’دائرہ المعارف الاسلامیہ‘‘ کے مقالہ نگار نے شریف مکہ حسین بن علی یعنی شاہ حسین کے پردادا کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے، اور جو مسلمانوں کی موجودہ تاریخ میں اس خاندان کا اصلی تعارف ہے کہ

’’یہ حقیقت ہے کہ اگر شریف حسین اور اس کے بیٹے انگریزوں کے دام فریب میں آکر خلافتِ عثمانیہ کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند نہ کرتے تو آج اسرائیل کا کہیں وجود نہ ہوتا۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter