قاضی حسین احمدؒ: جدوجہد کا ایک متحرک کردار

   
۸ جنوری ۲۰۱۴ء

قاضی حسین احمدؒ کو ہم سے رخصت ہوئے ایک سال ہو گیا ہے، مگر ان کی متحرک زندگی کی یادیں ابھی تک ذہن میں تازہ ہیں، جو ایک عرصے تک ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ میری مختلف تحریکوں میں ان کے ساتھ رفاقت رہی ہے اور بہت سے دوسرے احباب کی طرح میں بھی یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے درمیان بے تکلف دوستی کا رشتہ قائم تھا۔ قاضی صاحبؒ کا خاندانی پس منظر جمعیت علمائے ہند کا تھا۔ وہ ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد محترم حضرت مولانا قاضی عبد الربؒ جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدر تھے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے معتمد شاگردوں اور رفقاء میں ان کا شمار ہوتا تھا، جبکہ قاضی صاحب محترمؒ کے بھائی مولانا عبد القدوسؒ فاضل دیوبند تھے اور وفاقی شرعی عدالت کے جج کے طور پر ان کی خدمات نمایاں ہیں۔

قاضی صاحب محترمؒ نے کئی بار مجھے اپنے بچپن کے واقعات سنائے۔ وہ خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کرتے تھے کہ ان کا نام ان کے والد گرامیؒ نے حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے نام پر رکھا تھا اور وہ چھ سال کی عمر تک گفتگو نہیں کر سکتے تھے، حضرت مدنیؒ ایک بار ان کے گھر آئے اور انہیں دم کیا، جس کے بعد انہوں نے بولنا شروع کر دیا۔ قاضی صاحب مرحوم کالج کی زندگی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی سرگرمیوں سے متاثر ہوئے اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے ساتھ ان کا عقیدت و وابستگی کا رشتہ ایسا استوار ہوا کہ بالآخر وہ ان کی جانشینی کے منصب تک جا پہنچے اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور محترم میاں طفیل محمؒد کے بعد جماعت اسلامی کی قیادت کی فہرست میں ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔

قاضی صاحبؒ کی علامہ اقبالؒ کے ساتھ بھی والہانہ عقیدت تھی اور یہ ایک ایسا شعوری تعلق تھا کہ وہ اپنے خطبات اور تحریروں میں اقبالؒ کو ہمیشہ ایک فکری رہنما کی حیثیت سے پیش کرتے تھے اور ان کے اشعار کا حوالے کے طور پر ذکر کیا کرتے تھے۔

قاضی صاحبؒ نے اپنے بعض مضامین میں اپنی ان کوششوں کا ذکر کیا ہے، جو انہوں نے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان پون صدی سے پائی جانے والی خلیج کو کم کرنے کے لیے کی ہیں۔ ان کی بعض کوششوں میں میری شرکت بھی رہی ہے، جس کی تفصیل بعض مضامین میں ذکر کر چکا ہوں۔ ان کی حتی الوسع کوشش رہی ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے درمیان افکار و نظریات اور تعبیرات و تشریحات کے حوالے سے جو اختلاف پائے جاتے ہیں ان کا دائرہ ممکنہ حد تک سمیٹا جائے اور دونوں جماعتیں ملک میں نفاذ اسلام کے لیے مل کر کام کریں۔ بہت سے دوست انہیں ان دو جماعتوں کے درمیان پل سمجھتے تھے۔

اس سلسلے میں ایک دلچسپ بات ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ جب وہ جماعت اسلامی کے امیر بنے تو انہی دنوں مجھے امریکہ کا پہلا سفر درپیش ہوا۔ نیویارک میں اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما چودھری عبد الشکور صاحب نے، جو پنجاب یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر بھی رہے ہیں، ایک ملاقات میں مجھے دل لگی کے طور پر کہا کہ مولانا! مبارک ہو جمعیت علماء نے جماعت اسلامی پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ جماعت اسلامی کا قبضہ تو نہیں تھا، لیکن اتنا ضرور تھا کہ قاضی صاحب محترمؒ کے امیر بننے سے باہمی اختلافات یا کم از کم ان کے اظہار میں وہ شدت نہ رہی، جس نے دونوں کو قومی سیاست میں آمنے سامنے کھڑا کر رکھا تھا۔

قاضی صاحب محترمؒ بلاشبہ مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ کے پیروکار اور ان کے مشن کے وارث تھے، لیکن انہوں نے اس کے لیے حکمت عملی یہ اختیار کر رکھی تھی کہ مولانا مودودیؒ سے فکری اور نظریاتی اختلاف رکھنے والے حلقوں کے ساتھ حریفانہ چشمک کی بجائے مشترکہ امور میں باہمی تعاون کے فروغ کو ترجیح دی جائے اور وہ اس میں بہت حد تک کامیاب رہے۔

جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جب سینیٹ میں مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیفؒ نے قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کے لیے ”شریعت بل“ پیش کیا تو عوامی سطح پر اس کے حق میں تحریک کو منظم کرنے کے لیے قاضی حسین احمد مرحوم نے سب سے زیادہ متحرک کردار ادا کیا اور اس جدوجہد کے حوالے سے تمام مکاتب فکر کا جو مشترکہ قومی فورم ”متحدہ شریعت محاذ“ کے نام سے تشکیل پایا، قاضی صاحب مرحوم اس کے سیکرٹری جنرل تھے، حضرت مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک محاذ کے صدر تھے، جبکہ مرکزی قیادت کی نمایاں شخصیات میں مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ، مولانا معین الدین لکھویؒ اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ شامل تھے۔ مجھے اس میں سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ شریعت بل کی تحریک قاضی صاحب مرحوم کے ساتھ میری رفاقت کے سب سے زیادہ متحرک دور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ تحریک ختم نبوت اور جہادِ افغانستان کے معاملات میں بھی ہمارے درمیان مشاورت و معاونت کا سلسلہ جاری رہا۔

میرے خیال میں دینی جماعتوں، خاص طور پر نفاذ اسلام کی داعی جماعتوں میں قاضی حسین احمدؒ کے کردار کی مثال قومی سیاست میں نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے ساتھ دی جا سکتی ہے، جو سیاسی اتحادوں کے لیے مسلسل کوشاں رہتے تھے اور اپوزیشن کو منظم اور مربوط رکھنے میں ان کا رول ہمیشہ کلیدی اور نمایاں ہوتا تھا۔ کچھ اسی طرح کی تگ و دو میں قاضی حسین احمدؒ بھی مصروف رہتے تھے۔

متحدہ مجلس عمل کی تشکیل اور جدوجہد میں قاضی حسین احمدؒ کا قائدانہ کردار دینی جدوجہد کی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے، جو میرے جیسے نظریاتی اور شعوری کارکنوں کے لیے ہمیشہ امید کا چراغ رہے گا۔ ایم ایم اے نے مختصر وقت میں قومی سیاست میں جو مقام حاصل کیا، اس سے توقع ہونے لگی تھی کہ ملک کی دینی قوتیں متحد ہو کر پاکستان میں قومی خود مختاری کی بحالی اور نفاذ اسلام کی جدوجہد کو ایک قومی تحریک کی شکل دے سکیں گی، لیکن ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ“

حالیہ الیکشن سے قبل دوسرے کئی دوستوں کے ساتھ میری بھی خواہش اور کوشش رہی ہے کہ متحدہ مجلس عمل بحال ہو جائے یا اس سطح کا کوئی اور قومی فورم وجود میں آ جائے یا کم از کم سیٹوں کی باہمی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے اسلامی قوتوں کے ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچایا جا سکے، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ مثبت سوچ رکھنے والے حلقے اور شخصیات ہمیشہ مطعون و مغلوب رہی ہیں اور جذباتیت و سطحیت، بلکہ متعصبانہ حزبیت کی سوچ کو ہی ہر دور میں غلبہ حاصل ہوتا رہا ہے، اس لیے متحدہ مجلس عمل تمام تر توقعات کے باوجود ماضی کی تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئی ہے۔

قاضی حسین احمد مرحوم نے اس خلا کو ”ملی یکجہتی کونسل“ کے احیاء کی صورت میں پر کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ بھی قاضی صاحبؒ کی زندگی تک ہی کچھ نہ کچھ متحرک رہی، جبکہ ان کے بعد یہ فورم ”آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں“ کے سوا اور کسی کردار کا متحمل دکھائی نہیں دیتا۔

قاضی حسین احمدؒ ہماری قومی سیاست اور دینی جدوجہد کا ایک متحرک کردار تھے، جنہوں نے دینی قوتوں کو متحد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور زندگی بھر نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے لیے برسر پیکار رہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ان کے خاندان، رفقاء اور عقیدت مندوں کو ان کی حسین روایات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter