شاہ فیصل بن عبد العزیز آل سعود شہید

   
۱۱ اپریل ۱۹۷۵ء

۲۵ مارچ ۱۹۷۵ء کو اخبارات میں ڈاکٹر ہنری کسنجر وزیر خارجہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کا یہ بیان جلی سرخیوں سے شائع ہوا کہ مشرقِ وسطیٰ میں ان کا امن مشن اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے باعث ناکام ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ صدر انور سادات کا یہ نعرۂ حق بھی منظرِ عام پر آیا کہ اسرائیل نے ہٹ دھرمی ترک نہ کی تو جہاد شروع کیا جائے گا۔ اور عرب وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیے جانے کی خبر بھی اخبارات کی زینت بنی۔

یہ خبریں اس امر کا احساس دلا دینے کو کافی تھیں کہ مشرق میں ’’کچھ‘‘ ہونے والا ہے، اور عرب عوام کی توجہ کسی اور طرف مبذول کرنے کی ’’سامراجی خواہش‘‘ کسی چونکا دینے والے حادثہ کو جنم دینے والی ہے۔ چنانچہ اس روز ریڈیو سے اعلان نشر ہوا کہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل بن عبد العزیز کو ان کے بھتیجے فیصل بن مساعد بن عبد العزیز نے شاہی محل میں گولی مار کر شہید کر دیا ہے۔

پوری دنیائے اسلام پر یہ خبر بجلی بن کر گری اور جس شخص نے بھی یہ اندوہناک خبر سنی ساکت و مبہوت ہو کر رہ گیا۔ شاہ فیصل شہید نے انتہائی تدبر و فراست اور جرأت و استقلال کے ساتھ یہود اور ان کے سامراجی پشت پناہوں کا مقابلہ کیا تھا۔ فراخدلی کے ساتھ مصر و شام اور اردن کو مالی امداد دے کر ’’اغیار‘‘ کے رحم و کرم کا شکار ہونے سے بچایا تھا۔ اور تیل کے ہتھیار کو بڑی کامیابی کے ساتھ دنیائے اسلام اور عرب عوام کے مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔ ان عظیم خدمات کے پیش نظر ہر مسلمان کے دل میں شاہ فیصل کی محبت و عقیدت گھر کر گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ فیصل شہید کے جسم میں پیوست ہونے والی گولیاں ہر دردمند مسلمان نے اپنے دل میں لگتی ہوئی محسوس کیں اور پورا عالمِ اسلام سوگوار ہو گیا۔

فیصل شہید کے ساتھ عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی حکومت اور فیصل کی جرأتمندانہ پالیسیوں کے مستقبل کا سوال بھی سامنے تھا، اور یہ خدشہ ہر زبان پر تھا کہ کہیں سعودی عرب کو کسی ’’نام نہاد انقلاب‘‘ کے ذریعہ سازشوں کے غار میں نہ دھکیل دیا جائے، اور سعودی عرب جس نے ایک مدت تک مغربی سامراج کے زیر اثر رہنے کے بعد امریکی سامراج کی سازشوں کو سمجھنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی جرأتمندانہ روش اختیار کر لی تھی، کہیں اس کے گرد سازشی حصار کو مزید تنگ نہ کر دیا جائے۔ لیکن خدا بھلا کرے جمال عبد الناصرؒ کے جانشین، عربوں کے محبوب قائد اور مصر کے غیور و جسور صدر انور السادات کا کہ انہوں نے آگے بڑھ کر ان سازشوں کا دروازہ بند کر دیا۔

شاہ فیصل مرحوم کے جانشین شاہ خالد نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ شاہ فیصل کی شہادت کے بعد جناب انور السادات نے ان سے فون پر رابطہ قائم کیا تو سادات کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا وہ چیخ رہے ہیں۔ سادات کو خدشہ تھا کہ شاہ فیصل کے قتل کی پشت پر سعودی عرب میں انقلاب کی کوئی سازش کار فرما ہے۔ اس لیے انہوں نے مصری افواج کی کمان فوری طور پر ان (شاہ خالد) کے سپرد کر دی تاکہ وہ اس خطرہ سے نبرد آزما ہو سکیں۔

شاہ خالد کے اس بیان کے مطابق صدر انور السادات کے خیال میں یہ قتل انقلاب کی کسی سازش کا پیش خیمہ ہو سکتا تھا، اس لیے انہوں نے افواجِ مصر کی کمان شاہ خالد کے سپرد کر دی۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر سادات کا یہ جرأتمندانہ اقدام ان کی ایمانی فراست اور سعودی عرب کے عوام کے ساتھ ان کی گہری محبت کا آئینہ دار ہے اور کچھ بعید نہیں کہ صدر سادات کی اس بروقت مداخلت کی وجہ سے ہی معاملہ صرف شاہ فیصل کی شہادت پر رک گیا ہو۔

شاہ فیصل کی المناک شہادت کے بعد شاہی خاندان نے متفقہ طور پر ان کے چھوٹے بھائی اور ولی عہد شاہ خالد بن عبد العزیز کو سعودی عرب کا فرمانروا منتخب کر لیا۔ اور ریاض میں لاکھوں مسلمانوں نے عالم اسلام کے عظیم راہ نما شاہ فیصل کی نماز جنازہ ادا کر کے انہیں سوگوار دلوں اور پرنم آنکھوں کے ساتھ ایک سادہ اور بے نام قبر میں سپرد خاک کیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter