امریکہ بہادر نے بالآخر اسامہ بن لادن کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا لیا ہے جو اس امر کا اعتراف ہے کہ واحد سپر پاور ہونے کا دعوے دار ملک اپنے ایک دشمن کو قابو کرنے میں تمام تر وسائل اور اثر و رسوخ استعمال کرنے کے باوجود ناکام رہا ہے۔ اور اب جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر طاقت کے بھونڈے استعمال پر اتر آیا ہے۔
اسامہ پر الزام ہے کہ وہ افریقہ کے دو ملکوں میں امریکی سفارت خانوں کی تباہی کا ذمہ دار ہے اور کچھ دیگر امریکی مراکز کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس لیے امریکہ کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ تمام تر بین الاقوامی ضابطوں اور مسلمہ اصول و روایات کو ایک طرف رکھتے ہوئے دو آزاد ملکوں کی داخلی حدود میں محض اس شبہ پر نہتے شہریوں کی جانوں سے کھیلے کہ اس کے خیال میں وہاں اسامہ بن لادن موجود ہے، یا وہاں امریکی مراکز پر حملہ آور ہونے کے لیے افراد کو تربیت دی جا رہی ہے اور اس کے لیے سامان تیار کیا جا رہا ہے۔ طاقت کی حکمرانی یا جنگل کے قانون کا یہ بے رحمانہ اظہار کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ ہر زمانے کے فرعونوں کا وطیرہ رہا ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کسی فرعون کو اپنے عزائم میں کامیابی نہیں ملی اور ہمیشہ اس کی درندگی اور بربریت کا شکار ہونے والے مظلوم، بے بس، اور نہتے عوام کو ہی سرخروئی حاصل ہوئی ہے۔
امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے اپنے اس اقدام کا جواز پیش کرنے کے لیے ٹیلی ویژن پر خطاب بھی کیا ہے اور وہ اپنی چھٹیاں مختصر کر کے وائٹ ہاؤس واپس پہنچ گئے ہیں۔ لیکن اب دنیا اتنی سادہ اور بے خبر نہیں ہے کہ وہ ٹی وی پر امریکہ کے صدر کا چہرہ دیکھ کر مطمئن ہو جائے کہ عزت مآب جو کچھ فرما رہے ہیں وہی درست ہے۔ بلکہ اب ٹی وی کے سامنے بیٹھنے والا اور اخبار پڑھنے والا عام آدمی بھی بال کی کھال اتارنے لگا ہے۔ آج صبح راقم الحروف اخبار پڑھنے کے لیے ساؤتھ آل لندن کے علاقے میں حاجی محمد اشرف خان کی دکان پر گیا تو کچھ حضرات اسی موضوع پر آپس میں بحث کر رہے تھے۔
ایک صاحب کا کہنا تھا کہ صدر بل کلنٹن کے اس اقدام کے پیچھے ان کے ذاتی حالات کارفرما ہیں اور انہوں نے اس جنسی سکینڈل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے جس میں انہیں جیوری کے سامنے وائٹ ہاؤس کی ایک ملازمہ کے ساتھ جنسی تعلقات کا اعتراف کرنا پڑا ہے۔
جبکہ دوسرے صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ اسامہ بن لادن پر دہشت گردی کا الزام لگانے والا امریکہ اور اس کے حواری مغربی ممالک اس حقیقت سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں کہ اس دہشت گردی کا باعث وہ خود ہیں۔ کیونکہ انہوں نے سازش کے تحت عربوں کی زمین یہودیوں کو دلوا کر وہاں اسرائیل قائم کرایا اور اب تک اسے تحفظ فراہم کیے ہوئے ہیں جو اس سارے قضیے کی اصل جڑ ہے۔ پھر امریکہ اور اس کے حواری ممالک مشرق وسطیٰ میں اپنی بے پناہ فوجی قوت کے ساتھ براجمان ہیں اور من مانی کر رہے ہیں۔ اس لیے اس خطہ کے آزادی خواہ لوگوں کے لیے اس کے سوا کون سا راستہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ اپنے حقوق اور آزادی کے لیے وہی کچھ کریں جو ان کے بس میں ہو۔
ایک اور صاحب کا تبصرہ تھا کہ اصل بات یہ ہے کہ صدر بل کلنٹن نے خلیج عرب اور دوسرے علاقوں میں یہود نواز پالیسی میں تھوڑی سی لچک پیدا کر لی تھی اور عربوں و مسلمانوں کو کچھ مراعات دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی جس کی سزا یہودی لابی نے انہیں سیکس سکینڈل کی صورت میں دی۔ اس سیکس سکینڈل میں یہودی لابی کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد کلنٹن نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اب مسلمان ملکوں پر یہ تازہ حملہ ان کا ’’سجدہ سہو‘‘ ہے جس کے ذریعے وہ یہودی لابی کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے پالیسی میں لچک کا خیال ترک کر دیا ہے اور وہ بہت سے سابق امریکی صدور کی طرح یہودی لابی کے ہاتھوں مکمل طور پر استعمال ہونے کے لیے تیار ہیں۔
انہی میں سے ایک صاحب نے کہا کہ ان مغربی حکمرانوں اور دانشوروں سے جب پوچھا جائے تو ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا جواب دہشت گردی اور انتہا پسندی نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص اس کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے اسباب معلوم کرو، اس کے طرز عمل کا پس منظر دیکھو، اور اس کی جڑ تلاش کر کے اس کو ختم کرنے کی کوشش کرو۔ مگر مسلمانوں کے بارے میں ان کا معیار یہ نہیں ہے اور یہ دوسرے کئی معاملات کی طرح اس معاملہ میں بھی مسلمانوں کے لیے الگ معیار رکھتے ہیں۔
میرا خیال تھا کہ اس امریکی اقدام کے بارے میں عام لوگوں کے تاثرات معلوم کرنے کے لیے کچھ حضرات سے ملاقات کروں گا مگر اسی ایک محفل میں دو تین عام شہریوں کی گفتگو سن کر اندازہ ہوگیا کہ افغانستان اور سوڈان پر امریکہ کے فضائی حملوں کے جواز میں صدر بل کلنٹن کی منطق عام لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکی۔ اور انہی میں سے ایک صاحب کے بقول امریکہ نے یہ حملے کر کے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا بلکہ الٹا نقصان اٹھایا ہے۔
صدر بل کلنٹن کا کہنا ہے کہ ان کی جنگ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے اور وہ دہشت گردی کے مراکز کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر ہم ان سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف کیا ہے؟ کیا کسی کے خلاف ہتھیار اٹھانا مطلقاً دہشت گردی ہے؟ اور کیا اپنی آزادی، خود مختاری، اور حقوق کے لیے جابر اور ظالم قوتوں کو ہتھیار کا جواب ہتھیار کی زبان میں دینا بھی دہشت گردی کہلاتا ہے؟ اگر امریکی صدر کی منطق یہی ہے تو ہم بصد احترام یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ خود امریکہ نے برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی تھی اور ہتھیار اٹھا کر برطانوی حکمرانوں کو امریکہ سے بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور کیا تھا۔ اس طویل جنگ آزادی میں امریکی حریت پسند بھی اسی طرح برطانوی حکمرانوں کے مراکز کو نشانہ بناتے تھے اور حکمران گروہ کے افراد کو قتل کرتے تھے جن کے ساتھ کئی بے گناہ بھی قتل ہو جایا کرتے تھے۔ تاریخ اٹھا کر امریکہ کی جنگ آزادی کے ان مراحل پر نظر ڈالیے اور ان تمام لوگوں پر ’’دہشت گرد‘‘ ہونے کا الزام عائد کیجیے جو برطانوی استعمار کے خلاف امریکہ کی آزادی کے لیے ہتھیار بکف اور مورچہ زن ہوگئے تھے۔ اور پھر صدر کلنٹن کو یہ یاد دلانے کی شاید ضرورت نہ ہو کہ وہ خود انہی دہشت گردوں کی نسل میں سے ہیں اور ان کے آباؤ اجداد میں بھی کوئی نہ کوئی اسامہ بن لادن طرز کا دہشت گرد ضرور رہا ہوگا۔
ہم دہشت گردی کے حق میں نہیں اور اس کی کسی شکل کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن ظالم و جابر قوت کے خلاف اپنی آزادی کے لیے ہتھیار اٹھانے والوں کو دہشت گرد کہنے کے روادار بھی نہیں ہیں۔ صدر کلنٹن کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ امریکہ کی سرپرستی میں فلسطین کا علاقہ وہاں کے اصل باشندوں سے چھین کر یہودیوں کے حوالہ کیا گیا ہے۔ اور عالمی رائے عامہ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے علی الرغم امریکہ ان یہودیوں کی سلطنت کی مسلسل سرپرستی اور پشت پناہی کر رہا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری ممالک فوجی طاقت کے بل بوتے پر خلیج میں ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں اور تیل کے چشموں پر قبضے کے علاوہ عربوں کے سرمائے کا وحشیانہ استحصال کر رہے ہیں۔ امریکہ کے تسلط کے باعث خلیج عرب کے بیشتر ممالک کے عوام ان شہری آزادیوں اور سیاسی و انسانی حقوق سے مسلسل محروم ہیں جن کا وہ خود پوری دنیا میں چیمپئن بنا ہوا ہے۔
اس لیے اگر اسامہ بن لادن یا دیگر عرب حریت پسند اپنی آزادی، خودمختاری، اور شہری و انسانی حقوق کے لیے اپنے اوپر مسلط ظالم و جابر قوت کو ہتھیار کا جواب ہتھیار سے دینے پر مجبور ہوگئے ہیں اور جانیں ہتھیلی پر رکھ کر خلیج عرب سے امریکہ اور اس کے حواری ممالک کی مسلح افواج کی واپسی اور فوجی اڈوں کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو یہ دہشت گردی نہیں بلکہ حریت اور آزادی کی جنگ ہے جو اس خطہ کے عوام کا جائز حق ہے اور صدر کلنٹن کو اسے دہشت گردی کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔