علیحدگی کے نتائج پر بھی غور کر لو

   
۱۳ مارچ ۲۰۱۲ء

آج کے اخبارات میں دو خبریں بظاہر الگ الگ ہیں، لیکن اپنے مفہوم اور دائرہ کے حوالہ سے ایک ہی جیسی ہیں۔ ایک خبر یہ ہے کہ وزیر داخلہ جناب عبد الرحمٰن ملک نے گلگت کے دورہ کے موقع پر ملت جعفریہ کے دیگر مطالبات کے ساتھ ساتھ اس مطالبہ کی منظوری کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں ان کا تعلیمی نصاب الگ ہو گا اور ان کے اطمینان کے مطابق نئے نصاب کا اہتمام کیا جائے گا۔ جبکہ دوسری خبر یہ ہے کہ ملک میں کام کرنے والی مزید چار جماعتوں کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر کے ان پر پابندی لگا دی گئی ہے، جن میں اہل السنۃ والجماعۃ اور ایک شیعہ طالب علم تنظیم بھی شامل ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق وزیر داخلہ عبد الرحمٰن ملک نے اہل سنت والجماعت پر پابندی کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اہل سنت والجماعت محبِ وطن لوگوں کی جماعت ہے، اس پر پابندی سے متعلق مجھ سے منسوب نوٹیفکیشن جعلی ہے، تحقیقات کر کے سازشی عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

”اہل السنۃ والجماعۃ“ سپاہ صحابہ کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اس کے راہ نماؤں نے اپنی دینی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے قائم کی تھی اور کچھ عرصہ سے وہ اس عنوان کے تحت اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سنی محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں اور راہ نماؤں سے میں ایک عرصہ سے گزارش کر رہا ہوں کہ اس موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ معروضی صورت حال اور مستقبل کے امکانات و خدشات کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور عقائد اہل السنۃ کے تحفظ، ناموس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تحفظ و دفاع اور اہل السنۃ کے حقوق و مفادات کی پاسداری کے لیے جذباتیت و سطحیت سے ہٹ کر اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے اربابِ علم و دانش کو اعتماد میں لے کر جدوجہد کی ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت و اہمیت اس حوالہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں عوامی بیداری کی مختلف لہروں میں سنی شیعہ کشمکش کی لہریں بھی اب نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔ جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ کویت کے حالیہ انتخابات میں سنی اتحاد کے عنوان سے کام کرنے والی دینی جماعتوں نے اکثریت حاصل کی ہے اور تب سے کویت کی قومی سیاست پر سنی شیعہ کشمکش کی چھاپ مزید گہری نظر آنے لگی ہے، جبکہ شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی مہم میں بھی صدر بشار الاسد اور ان کے آنجہانی والد حافظ الاسد کے گزشتہ ربع صدی سے جاری مسلسل مظالم کا شکار ہونے والے سنی دینی حلقے پیش پیش ہیں۔

راقم الحروف کا یہ موضوع نہیں ہے، اس لیے کہ میں نے اپنی تمام تر فکری، علمی جدوجہد کو صرف دو اہداف کے دائرے میں محدود کر رکھا ہے۔ ایک یہ کہ نفاذِ اسلام کی جدوجہد کو فکری اور عملی سپورٹ مہیا کرنا اور اس سلسلہ میں رکاوٹ بننے والی لابیوں اور حلقوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کرنا اور دوسرے نمبر پر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور منکرینِ ختم نبوت کے تعاقب کی جدوجہد میں حتی الوسع شریک ہونا۔ اس کے علاوہ کسی بھی دینی کام کے لیے مشاورت اور معاونت کے درجہ میں شریک ہونے کی کوشش تو ضرور کرتا ہوں، مگر اپنے اہداف میں کسی اور دائرے کو شامل کرنے کا تحمل اپنے اندر نہیں پاتا۔ اس لیے میں نے سنی محاذ پر کام کرنے والے راہ نماؤں کو متعلقہ مسائل اور حالات کی طرف توجہ دلاتے رہنے کو ہی اپنا معمول بنا رکھا ہے اور اس محاذ پر سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کے لیے میرا مشاورت اور معاونت کے درجے کا تعاون آئندہ بھی ہمیشہ حاصل رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

البتہ ان دو خبروں کے تناظر میں فائدہ اٹھاتے ہوئے ماضی کی ایک داستان قارئین کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔ یہ صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دورِ حکومت کی بات ہے جب اہل تشیع نے اپنے لیے جداگانہ تشخص کا نعرہ لگایا اور اوقاف، نصابِ تعلیم اور دیگر معاملات میں علیحدہ نظم بنوانے کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔ سید محمد دہلوی اس وقت کے اہم شیعہ لیڈر تھے، غضب کے مقرر تھے، گفتگو بہت منطقی اور جچی تلی کیا کرتے تھے۔ میں نے اس دور میں ان کے بعض خطبات سنے ہیں اور بحیثیت مقرر جن لوگوں نے مجھے متاثر کیا ہے، ان میں ایک سید محمد دہلوی بھی ہیں۔ ان کی قیادت میں اہل تشیع کے جداگانہ تشخص کے عنوان سے شیعہ مطالبات کے لیے سرگرم مہم چلائی گئی، جس کے رد عمل میں اہل سنت کی بہت سی جماعتیں بھی میدان میں آئیں۔ اس وقت سنی کاز کے لیے سب سے بڑا فورم ”تنظیم اہل سنت“ کا تھا، جس میں مولانا عبد الستار تونسوی مدظلہ، مولانا سید نور الحسن بخاری، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا قائم الدین عباسی اور علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ پیش پیش تھے۔ یہ امام اہل السنۃ مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کی تیار کردہ ٹیم تھی اور انہی کی طرز پر یہ لوگ کام کر رہے تھے۔ جبکہ جہلم اور چکوال کے علاقے میں یہ محاذ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ، حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ، حضرت مولانا حکیم سید علی شاہ صاحبؒ آف ڈومیلی اور ان کے رفقاء نے سنبھال رکھا تھا اور اس سلسلے میں اکابر کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔

شیعہ مطالبات کے لیے، جن کی بنیاد علیحدہ تشخص پر تھی، اہل تشیع کی ملک گیر مہم کے جواب میں متعدد سنی تنظیموں نے بھی سرگرمی دکھائی اور اس سلسلے میں باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں ایک بڑی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں تنظیم اہل سنت، جمعیۃ علماء اسلام، مجلس تحفظ ختم نبوت اور دیگر جماعتوں کے سرکردہ راہ نماؤں نے خطاب کیا۔ کانفرنس کا کلیدی خطاب مجاہدِ ختم نبوت حضرت مولانا محمد علی جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ کا تھا، جو بہت معرکے کا خطاب تھا۔ اگر کسی دوست کے پاس اس کی کیسٹ موجود ہو تو اسے آج بھی عام کرنے اور اس سے استفادہ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس کانفرنس میں حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے اہل تشیع سے خطاب کرتے ہوئے بہت سی باتیں فرمائی تھیں۔ ان میں سے چند باتیں میرے ذہن میں محفوظ رہ گئیں، جو قارئین کی خدمت میں روایت بالمعنی کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ حضرت جالندھریؒ نے اہل تشیع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:

  • علیحدگی کی بات تمہاری طرف سے آئی ہے، اس لیے اس کے نتائج پر بھی اچھی طرح غور کر لو۔ ہم نے تمہیں الگ کرنے کی بات کبھی نہیں کی، بلکہ اہم معاملات میں اپنے ساتھ رکھا ہے۔ تحریک ختم نبوت میں ساتھ رکھا، بائیس دستوری نکات میں ساتھ رکھا اور ہمیشہ کوشش کی کہ اہم ملی معاملات میں تمہیں ساتھ رکھیں۔ اب تم نے خود علیحدگی کی بات کی ہے تو اس کے نتائج کا اچھی طرح اندازہ کر لو۔
  • تم سے تو قادیانی زیادہ سمجھ دار اور سیانے نکلے کہ ہم انہیں علیحدہ کرنے کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں، لیکن وہ الگ ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے کہ انہیں علیحدگی کے نتائج کا اچھی طرح اندازہ ہے۔
  • اگر تم ازخود الگ ہونا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی، لیکن یہ بات یاد رکھو کہ علیحدگی صرف نصاب اور اوقاف کی نہیں ہو گی، بلکہ پھر تمام معاملات میں علیحدگی ہو گی اور ہر چیز حصے کے مطابق تقسیم ہو گی۔
  • ایک گھر میں رہنے والے جب تک اکٹھے رہتے ہیں تو گھر کی ساری چیزیں مشترکہ طور پر استعمال ہوتی ہیں، لیکن جب علیحدگی ہوتی ہے تو پھر حصوں کا تعین ہوتا ہے اور اس کے مطابق تقسیم ہوتی ہے۔
  • جس علیحدگی اور جداگانہ تشخص کی تم بات کر رہے ہو، اسے منطقی طور پر مکمل کرنے کے لیے سنی شیعہ بنیاد پر مردم شماری کرانا ہو گی۔ فوج اور سول کی ملازمتوں میں آبادی کے تناسب سے کوٹہ ملے گا، اسمبلیوں میں آبادی کے تناسب سے سیٹیں مخصوص ہوں گی اور تمام اجتماعی معاملات میں حقوق و مفادات کا تعین اسی تناسب سے ہو گا۔
  • یہ باتیں اگر منظور ہیں تو جداگانہ تشخص کی بات کرو، علیحدگی کی بات سوچو، لیکن یہ بات ذہن میں رکھنا کہ علیحدگی کا عمل ایک دفعہ شروع ہو گیا تو وہ رکے گا نہیں اور اس کے تمام تر منطقی نتائج کو تمہیں بہرحال قبول کرنا ہو گا۔

حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کا یہ خطاب میرے نزدیک آج بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہم اس سے راہ نمائی حاصل کر سکیں تو اس جدوجہد کو مثبت اور مؤثر طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter