حلال و حرام کا اسلامی تصور اور سوسائٹی کی خواہشات

   
۲۱ فروری ۲۰۱۰ء

سہ روزہ دعوت دہلی میں یکم فروری ۲۰۱۰ء کو شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ آف انڈیا نے حال ہی میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت دینے کا مشورہ دیا ہے اور اپنے اس مشورہ کو اس مسئلہ کا حل قرار دیا ہے کہ بے شمار قوانین کے باوجود جسم فروشی کے کاروبار میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ دو فاضل ججوں پر مشتمل بینچ نے کہا ہے کہ:

’’دنیا بھر میں کہیں بھی اور کوئی بھی قانون اس کاروبار کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے اور یہ کہ اس کو قانونی درجہ دے دیے جانے سے اتھارٹیز کو اس کاروبار کی نگرانی کرنے، اس کے ملوثین کی آبادکاری اور طبی امداد فراہم کرنے کا حق و اختیار حاصل ہو جائے گا۔‘‘

جسم فروشی یعنی زنا کو بطور پیشہ اختیار کرنا ہر آسمانی مذہب میں ایک مذموم فعل سمجھا جاتا ہے اور پیشہ سے ہٹ کر بغیر اجرت اور باہمی رضامندی کے زنا کو بھی ہر آسمانی شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ انسانی معاشرے میں خاندان کے قیام، نسب کے ثبوت اور رشتوں کے تقدس و احترام میں زنا کی نفی اور جائز اور تسلیم شدہ جنسی تعلق کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ کیونکہ زنا عام ہوگا تو نسب کا ثبوت مشکل ہو جائے گا، نسب کا تعین نہیں ہوگا تو رشتوں کا وجود اور دائرہ قائم نہیں رہے گا جس سے خاندان کا وہ یونٹ انتشار کا شکار ہو جائے گا جو سوسائٹی کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زنا کی کھلی چھٹی دینے کے بعد مغربی معاشرہ میں نہ رشتوں کا دائرہ باقی رہا ہے اور نہ ہی خاندان کا ادارہ کوئی معاشرتی کردار ادا کرنے کے قابل رہ گیا ہے، جس پر خود مغرب کے سنجیدہ دانشور حیران و سرگرداں ہیں اور خاندان کے یونٹ کی بطور فعال ادارہ کے بحالی کے لیے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ خاندان کا ادارہ تب قائم ہوگا جب رشتوں کا تقدس بحال ہوگا، اور رشتوں کا تقدس بلکہ وجود تب بحال ہوگا جب نسب کا ثبوت ہوگا، اور نسب تب تسلیم شدہ ہوگا جب زنا کی نفی کی جائے گی۔ مگر یہ سادہ سی بات مغربی دانشوروں کے ذہن میں جگہ نہیں پکڑ رہی اور وہ اب بھی زنا کی کھلی چھٹی کو برقرار رکھتے ہوئے خاندان کے نظام کو بحال کرنے کی بے مقصد سوچ بچار میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔

اسلام سے قبل جاہلیت کے دور میں بھی زنا کو معاشرہ میں کھلی چھٹی دی گئی تھی اور جسم فروشی کا کاروبار جاری تھا جسے قرآن کریم نے ’’ولا متخذی اخدان‘‘ کے عنوان سے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’مہر البغی‘‘ کے حوالہ سے بیان کیا ہے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق عرب معاشرہ میں جسم فروش عورتوں کے گھروں پر علامت کے طور پر خاص قسم کے پرچم لہرا رہے ہوتے تھے اور خواہش مند لوگ آکر معاوضہ پر اپنی جنسی خواہش پوری کرتے تھے، اس عمل کو معاشرتی طور پر قانونی تحفظ حاصل تھا۔ اور اگر کوئی بچہ پیدا ہو جاتا تو اس کی ماں کا یہ حق سمجھا جاتا تھا کہ وہ متعلقہ افراد کو طلب کرے جن کے آنے پر قافیہ شناس بچے کے نقوش سے اندازہ کر کے ان میں سے کسی ایک کا تعین کر دیتا تھا اور وہ قانوناً اس بچے کا باپ قرار دے دیا جاتا تھا۔

آج مغرب نے اس کے لیے چند صورتیں اپنا رکھی ہیں اور زنا باہمی رضامندی کی صورت میں، بلا معاوضہ ہو یا جسم فروشی کے ذریعے معاوضہ پر ہو، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کو زیادہ تر تو ولادت سے پہلے اسقاط حمل کی صورت میں ضائع کر دیا جاتا ہے، یا اگر DNA کے ذریعے تعین ممکن ہو تو وہ صورت اختیار کی جاتی ہے ورنہ عام طور پر بچے کو ’’سنگل پیرنٹ‘‘ قرار دے کر نسب کے تردد سے جان چھڑا لی جاتی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ مغربی معاشرہ میں اسقاط حمل کی اجازت اور سنگل پیرنٹ کا قانون خاندانی نظام کی تباہی کے دو بڑے اسباب ہیں۔

اسلام نے باقاعدہ نکاح یا جائز صورت میں مملوکہ لونڈی (جس کا اب دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے) کے علاوہ جنسی تعلق کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اور اس کے علاوہ تمام صورتوں کو زنا گردانتے ہوئے اس زنا کو، خواہ وہ رضامندی سے ہو یا جبر سے، معاوضہ کے ساتھ ہو یا بغیر معاوضہ کے، سخت ترین جرم کا درجہ دے کر اس کے لیے سنگین ترین سزا طے کی ہے۔ اسلام سے ہٹ کر مشرقی اقوام اور ایشیائی معاشرے میں بھی زنا کو جرم تصور کیا جاتا ہے اور دنیا کے ایشیائی حصے میں خاندانی نظام کے وجود اور اس کے استحکام کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے۔ لیکن اب یہاں بھی اس سبب کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور زنا کے فروغ کے لیے حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کی صورتیں اختیار کی جا رہی ہیں جس کے لیے ان کوششوں کو عالمی اداروں حتٰی کہ اقوام متحدہ کی سرپرستی حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کے بعض اداروں کی طرف سے دنیا بھر کی حکومتوں پر اسقاط حمل کو قانونی جواز فراہم کرنے اور مانع حمل دواؤں کو ہر سطح پر عام کرنے کے لیے جو مسلسل زور دیا جا رہا ہے، اپنے نتائج کے حوالے سے وہ بھی زنا کی حوصلہ افزائی کی مہم کا حصہ ہے۔ مگر انڈیا کی سپریم کورٹ نے اس کے لیے ایک اور صورت اختیار کی ہے اور یہ کہا ہے کہ چونکہ اس جرم پر قابو پانا مشکل ہوتا جا رہا ہے اس لیے اسے جرائم کی فہرست سے نکال کر قانونی جواز کی سند فراہم کر دی جائے۔

گویا کوئی جرم بذاتہ جرم نہیں ہے، اگر اس پر قابو پانا ممکن ہو تو وہ جرم ہے اور اگر قابو پانا مشکل ہو جائے تو اس کی جرم کی حیثیت ختم ہو جانی چاہیے۔ دوسری صورت میں اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر سوسائٹی اس کے جرم ہونے کو عملاً تسلیم نہ کرے تو وہ جرم نہیں رہتا اور اسے قانونی جواز مل جاتا ہے۔ اس پر کچھ حوالے اور بھی ہمیں یاد آگئے ہیں۔

  • ایک یہ کہ امریکہ میں شراب نوشی اب سے تقریباً پون صدی پہلے تک قانوناً جرم رہی ہے اور خود امریکی کانگریس نے شراب نوشی کو جرم قرار دے کر اس پر باقاعدہ سزا مقرر کر رکھی تھی، لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے جب اس قانون پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے اور شراب نوشی قانون کے باوجود جاری رہی تو کانگریس نے شراب نوشی کو جرائم کی فہرست سے ہی نکال دیا۔
  • اسی طرح ہم جنس پرستی بھی مغربی ملکوں میں کچھ عرصہ پہلے تک جرم تصور کی جاتی تھی اور اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی لیکن اب ہم جنس پرستی کے اس لعنتی عمل کو نہ صرف قانونی جواز فراہم کر دیا گیا ہے بلکہ بہت سے ملکوں میں اسے انسانی حقوق کے زمرے میں شمار کر کے اس کے لیے باقاعدہ مطالبات کی مہم چلائی جاتی ہے۔
  • اسی طرز کی ایک مہم مغربی معاشرے میں ہیروئن اور چرس کے استعمال کے بارے میں بھی شروع ہوگئی ہے۔ ہیروئن اور چرس کے استعمال کو اب تک جرم سمجھا جاتا ہے اور اس کی تیاری کو روکنے کے لیے مغربی ممالک اور ادارے کروڑوں ڈالر سالانہ خرچ کر رہے ہیں۔ افغانستان میں پوست کی کاشت میں مسلسل اضافہ اسی حوالہ سے مغربی ممالک کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے اور ہیروئن کی اسمگلنگ پر بعض ممالک میں موت کی سزا مقرر ہے۔ لیکن گزشتہ دو سال سے مغربی ملکوں میں اس مہم کا آغاز ہو چکا ہے کہ چونکہ تمام تر کوششوں کے باوجود ہیروئن کی اسمگلنگ اور اس کا استعمال روکا نہیں جا سکا اس لیے اسے قانونی طور پر جائز قرار دیا جائے۔ اس کی دلیل بھی یہی دی جاتی ہے جو انڈیا کی سپریم کورٹ کے دو فاضل ججوں نے دی ہے کہ اس سے یہ جرم کنٹرول کے دائرے میں آجائے گا اور اس سے متاثرہ افراد کی مدد کی جا سکے گی۔

لیکن اسلام اس طرزِ عمل اور منطق کو تسلیم نہیں کرتا اور اسی وجہ سے وہ حلال و حرام کے قطعی دائرہ میں سوسائٹی کو دخل اندازی کا حق نہیں دیتا کہ سوسائٹی کے رجحانات کو کبھی کسی ایک بات پر قرار نہیں رہتا اور اس کے حلال و حرام کے تصورات بدلتے رہتے ہیں۔ اسلام کا قانون یہ ہے کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے قطعی طور پر حرام قرار دے دیا ہے ان کی حرمت کو کوئی بھی منسوخ نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان کے جرم ہونے کی حیثیت تبدیل کی جا سکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو چیز انسان کے لیے ضرر رساں ہے وہ ہر صورت میں ضرر رساں ہی رہے گی اور اس پر نفع بخش ہونے کا لیبل لگانے سے اس کی حیثیت تبدیل نہیں ہو جائے گی۔ زنا اگر انسانی سوسائٹی کے لیے نقصان دہ ہے، رشتوں کے قیام میں رکاوٹ ہے، نسب کے ثبوت اور اس کے تقدس کے منافی ہے، اور خاندان کے وجود و استحکام کے لیے زہر قاتل ہے تو اسے قانونی جواز فراہم کرنے سے وہ سوسائٹی کے لیے مفید نہیں ہو جائے گا اور اتھارٹیز کے کنٹرول اور نگرانی میں آجانے کے بعد اپنے فطری کردار سے محروم نہیں ہو جائے گا۔ اگر کسی وقت زہر خورانی معاشرے میں عام ہو جائے اور قانونی پابندیوں کے باوجود اسے روکنا ممکن نہ رہے تو کیا انڈیا کی سپریم کورٹ اسے قانونی جواز فراہم کرنے کی بھی سفارش کرے گی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتوں، عدالتوں اور اتھارٹیز کا کام سوسائٹی کو جرائم سے روکنا ہوتا ہے، اس کی خواہشات کے سامنے سپر انداز ہو کر جرائم کی حوصلہ افزائی کرنا نہیں ہوتا، مگر سوسائٹی کی خواہشات کو ہی سب کچھ سمجھ لینے والے ذہنوں میں یہ نکتہ کیسے آسکتا ہے؟ اس کے لیے آسمانی تعلیمات پر یقین اور وحی الٰہی کے سامنے سرنڈر ہونا ضروری ہے، جب تک ایسا نہیں ہوتا جرائم انسانی سوسائٹی کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل جاری رکھیں گے اور ہمارے ان دانشوروں کی آنکھیں اس کی چکاچوند میں چندھیاتی ہی رہیں گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter