پاکستان میں مغربی سفارتخانوں کا کردار

   
مارچ ۱۹۹۸ء
  • لاہور کی صائمہ وحید کے کیس نے عالمگیر شہرت حاصل کی جس نے والدین کی مرضی کے بغیر ایک نوجوان محمد ارشد سے خفیہ شادی رچا لی تھی، اور ہائی کورٹ نے اس کا یہ حق تسلیم کر لیا تھا کہ وہ والدین کی مرضی کے خلاف اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے۔ لیکن ابھی ایک مقدمہ باقی تھا کہ اس جوڑے نے جو نکاح نامہ پیش کیا، اس کی اصلیت کو چیلنج کر دیا گیا تھا۔ اور جعلی نکاح نامے کے کیس کی سماعت لاہور کی ایک عدالت میں جاری تھی کہ یہ جوڑا ناروے جا پہنچا۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۶ فروری ۱۹۹۸ء کو ناروے کے اخبار ’’اوفتن پوستن‘‘ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے خبر شائع کی ہے کہ اسلام آباد میں ناروے کے سفارتخانے نے اس جوڑے کو جعلی پاسپورٹ فراہم کیے اور اسے ناروے پہنچانے کے انتظامات کیے۔
  • ابھی اس خبر کو دو ہفتے بھی نہیں گزرے کہ کراچی میں رفعت آفریدی اور کنور احسن کا کیس سامنے آ گیا ہے۔ کنور احسن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین کا باڈی گارڈ رہا ہے اور قومی اسمبلی کے رکن کنور خالد یونس کا بھانجا ہے۔ رفعت جبار آفریدی نامی لڑکی کے والدین کا الزام ہے کہ کنور احسن نے رفعت کو اغوا کیا ہے، جبکہ کنور احسن کا کہنا ہے کہ ان دونوں نے محبت کی ہے اور باہم شادی کر لی ہے۔

    اس سلسلہ میں روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۸ فروری ۱۹۹۸ء کے مطابق لڑکی کے والد جبار آفریدی نے ’’پختون امن جرگہ‘‘ کے راہنما طارق خان کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ لڑکی پہلے سے شادی شدہ ہے۔

    روزنامہ جنگ لاہور نے ۲۱ فروری ۱۹۹۸ء کو جبار آفریدی، اس کے مبینہ خاوند نیاز بٹ، اور نکاح خواں مولوی محمد سلیمان کی پریس کانفرنس شائع کی ہے۔ جس میں مولوی محمد سلیمان صاحب نے بتایا ہے کہ انہوں نے ۱۵ اگست ۱۹۹۷ء کو شام سات بجے کم و بیش چالیس افراد کی موجودگی میں اس لڑکی کا نکاح نیاز بٹ کے ساتھ پختون روایات کے مطابق پڑھایا تھا، جبکہ رخصتی عید کے بعد طے ہوئی تھی، لڑکی مسلسل غائب ہے اور پختون امن جرگہ اس کی بازیابی کا بار بار مطالبہ کر رہا ہے۔

    جبکہ روزنامہ جنگ لاہور کی ۱۹ فروری ۱۹۹۸ء کی خبر کے مطابق اس جوڑے کو سخت حفاظتی انتظامات کے تحت اسلام آباد بھیج دیا گیا ہے اور انہیں ایک یورپی ملک میں بھجوانے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

    اس کے ساتھ ہی روزنامہ جنگ لاہور نے ۲۰ فروری ۱۹۹۸ء کو کراچی میں امریکی قونصلر ڈگلس آرچرڈ کا یہ بیان شائع کیا ہے کہ اگر کنور احسن اور رفعت آفریدی کی طرف سے ویزے کی درخواست موصول ہوئی تو ویزا فوراً جاری کر دیا جائے گا۔

  • اس سے قبل ’’رتہ دوہتڑ توہین رسالت کیس‘‘ کے ملزموں کو ہنگامی بنیادوں پر جرمنی پہنچانے میں مغربی لابیاں اور سفارتخانے جو رول ادا کر چکے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے، اس لیے یہ بعید نہیں ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک کنور احسن اور رفعت آفریدی بھی کسی مغربی ملک میں ’’پناہ‘‘ حاصل کر چکے ہوں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اسلام آباد میں مغربی ممالک کے سفارتخانوں کا کردار یہی رہ گیا ہے کہ وہ پاکستان میں قادیانیوں، توہین رسالت کے ملزموں، اور مذہبی اقدار اور خاندانی روایات سے بغاوت کرنے والے جوڑوں کو تلاش کریں، انہیں پبلسٹی اور پروٹوکول مہیا کریں، اور خصوصی انتظامات کے ساتھ انہیں مغربی ممالک میں پہنچا دیں؟ یہ سوال سفارتخانوں سے کم اور پاکستان کے حکمرانوں سے زیادہ متعلق ہے، اس لیے اس نازک اور تلخ سوال کا جواب دینا انہی کی ذمہ داری ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter