(پندرہ روزہ ’’فہمِ دین کورس‘‘ کی اختتامی تقریب سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجھے اس مسجد میں وقتاً فوقتاً آتے ہوئے نصف صدی کا عرصہ ہو گیا ہے، حضرت مولانا قاری محمد طلحہ قدوسیؒ اور حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کا دور میرے سامنے ہے، اور اب ان کے جانشین مولانا قاری محمود الرشید اور مولانا داؤد احمد کی محنت دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ دونوں حضرات اپنے بزرگوں کے مشن کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں تا عمر یہ خدمت کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
آج ہم پندرہ روزہ ’’فہم دین کورس‘‘ کی اختتامی تقریب میں جمع ہیں اور دعا کے ساتھ کورس کے شرکاء کو انعامات دینے کا پروگرام ہے، مگر دعا سے قبل دو تین ضروری باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں:
(۱) پہلی بات یہ ہے کہ یہ کورس جو ماہانہ، پندرہ روزہ، چالیس روزہ، سہ ماہی اور مختلف دورانیے کے ہوتے ہیں ان میں اور دینی تعلیم کے عام نصاب میں ایک بڑا فرق ہے جو ہم سب کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ایک ہے علم اور ایک ہے معلومات۔ یہ معلومات کے کورس ہیں، علم کے نہیں ہیں۔ علم کا کورس وہی ہے جو دینی مدارس میں باقاعدہ طور پر آٹھ دس سال میں پڑھایا جاتا ہے، جبکہ یہ مختصر کورسز دینی معلومات کے حوالہ سے ہوتے ہیں جن کا مقصد عالم بنانا نہیں بلکہ یہ ہوتا ہے کہ روز مرہ زندگی کی ضروریات کے لیے جو معلومات درکار ہوتی ہیں وہ مہیا کر دی جائیں۔
اس کی مثال ایسے ہے جس طرح ہمارے سکولوں کالجوں میں سائنس پڑھائی جاتی ہے، جس نے سائنس کا علم بطور علم و فن حاصل کرنا ہے وہ میٹرک سائنس کے ساتھ کرتا ہے، پھر ایف ایس سی، بی ایس سی اور ایم ایس سی کے مراحل سے گزر کر خصوصی کورسز کی تکمیل کرتا ہے اور اس کے بعد سائنس دان کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ مگر جو طالبعلم سائنس کو باقاعدہ نہیں پڑھتا اسے جنرل سائنس ضرور پڑھائی جاتی ہے تاکہ سائنس سے متعلق روز مرہ ضروریات میں اسے دقت پیش نہ آئے۔ جنرل سائنس کا کوئی بھی کورس پڑھ کر کوئی شخص سائنس دان نہیں بن جاتا۔
اسی طرح عالمِ دین بننے کے لیے بھی درسِ نظامی کا پورا نصاب پڑھنا ضروری ہے جو آٹھ دس سال میں مکمل ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ مفتی، مدرس اور قاری وغیرہ کے الگ کورس ہوتے ہیں جو ان مناصب کے حصول کے لیے لازمی ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر عالم دین، قاری اور مفتی وغیرہ کہلانا درست نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ فہمِ دین کے یہ نصاب بہت ضروری اور مفید ہونے کے باوجود علم کے کورس نہیں بلکہ جنرل سائنس کی طرح روز مرہ زندگی اور ضروریات کے حوالہ سے دینی معلومات حاصل کرنے کے کورس ہیں۔
(۲) دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں یہ عمومی رجحان ہے جو بہت اچھا ہے کہ ہمارے گھروں میں اپنے بچوں کو ضروری دینی تعلیم دلوانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ محلہ کی مسجد یا قریبی مدرسہ میں بچوں کو بھیجا جاتا ہے جو وہاں نورانی قاعدہ اور قرآن کریم ناظرہ پڑھ لیتے ہیں، کلمے اور دعائیں یاد کرتے ہیں، قرآن کریم کی کچھ سورتیں حفظ کرتے ہیں، نماز سیکھ لیتے ہیں، اور ابتدائی دینی معلومات سے بہرہ ور ہو جاتے ہیں۔ مگر اس کے بعد ہم مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو دین سے وابستہ کر دیا ہے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے اس لیے کہ یہ ساری باتیں ضروری ہیں، بہت مفید ہیں اور دین کے ساتھ ہماری وابستگی کی علامت ہیں لیکن یہ ہمارے بچوں کی پوری زندگی کے لیے کافی نہیں ہیں۔
خاص طور پر ہم اپنے بچوں کو جس شعبہ میں بھیجنا چاہتے ہیں اس کے بارے میں انہیں دینی فرائض و احکام سے آگاہ کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے زندگی گزارنے کے لیے تجارت، زراعت، ملازمت، مزدوری، ٹیچنگ، انجینئرنگ، ڈاکٹری یا کوئی بھی شعبہ اختیار کرنا ہے تو ہم انہیں اس کے لیے تعلیم دلواتے ہیں، ٹریننگ کا اہتمام کرتے ہیں اور انہیں اس شعبہ کے لیے پوری طرح تیار کرتے ہیں، لیکن اس شعبہ کے شرعی احکام انہیں سکھانا ضروری نہیں سمجھتے۔ مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ گوجرانوالہ تجارتی شہر ہے، زیادہ تر بچے جوان ہو کر تجارت سے وابستہ ہوتے ہیں اور اپنے بڑوں کی دکانیں سنبھالتے ہیں۔ فقہاء کرام نے صراحت کی ہے کہ دکان پر بیٹھنے سے پہلے تجارت کے متعلق حلال و حرام کے شرعی احکام سے واقف ہونا ضروری ہے، حتٰی کہ حضرت امام مالکؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے شرعی احکام سیکھے بغیر کسی شخص کا دکان پر بیٹھنا جائز ہی نہیں ہے۔ یہ میں نے ایک مثال دی ہے باقی سب شعبوں کا بھی یہی حال ہے۔
اس لیے میں سب دوستوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اس بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں کہ ہم اپنے بچوں کو عام طور پر جتنی دینی تعلیم دلوا رہے ہیں کیا وہ زندگی بھر کے لیے کافی ہے؟ اور اس کے علاوہ بھی اگر دینی تعلیم ان کی ضرورت ہے تو ہمارے ہاں اس کا اہتمام کیوں نہیں ہے اور ہم اس سے غفلت برت کر گناہ گار کیوں ہو رہے ہیں؟
(۳) تیسری بات یہ ہے کہ جو کچھ ہم بچوں کو پڑھاتے ہیں اور بڑے شوق سے پڑھاتے ہیں، ثواب کی نیت رکھتے ہیں، جو یقیناً ملتا ہے اور اس کے ساتھ برکات بھی حاصل ہوتی ہیں، لیکن یہ ضروری دینی تعلیم کیا صرف بچوں کے لیے ہے اور خود ہمارا اپنا حال کیا ہے؟ میرے بچے اگر قرآن کریم صحیح پڑھ لیتے ہیں، نماز انہوں نے سیکھ لی ہے، وہ عقائد اور حلال و حرام کے ضروری مسائل جانتے ہیں، تو یہ بات بہت ضروری اور اچھی ہے اور مجھے اس کا ثواب و اجر یقیناً ملے گا، لیکن ان بچوں کے قرآن کریم صحیح پڑھ لینے سے میرا قرآن کریم خودبخود صحیح نہیں ہو جائے گا، اور ان کے نماز صحیح طور پر پڑھنے سے میری نماز خودبخود صحیح نہیں ہوگی، مجھے قرآن کریم کی صحیح تلاوت کرنے کے لیے خود تعلیم حاصل کرنا ہوگی اور نماز صحیح پڑھنے کے لیے اسے خود سیکھنا ہوگا۔ ورنہ میرے بچوں کی دینی تعلیم مجھے ثواب و برکت تو دلوائے گی مگر اپنی نمازوں، عقائد، حلال و حرام اور قرآن کریم کی صحیح تلاوت کا میں خود ذمہ دار ہوں اور اس کا جواب مجھے ہی دینا ہو گا۔
ان مختصر کورسز کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ بڑے لوگ جو زندگی کے مختلف شعبوں میں مصروف رہتے ہیں اور مستقل وقت نہیں دے سکتے انہیں ان کی سہولت کے مطابق تھوڑے وقت میں ضروری دینی معلومات فراہم کر دی جائیں، تاکہ وہ اپنے عقائد و اعمال کی اصلاح کر سکیں اور دین کے ضروری تقاضوں پر عمل کر سکیں۔ یہ کورس صرف بچوں اور جوانوں کے لیے نہیں بلکہ بوڑھوں کے لیے بھی ہیں کیونکہ اس کی ضرورت سب کو ہے۔ مجھے آپ کی اس کلاس میں بوڑھوں کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے، علم کے حصول میں بچپن، جوانی اور بڑھاپے کا کوئی فرق نہیں ہوتا، یہ زندگی کے ہر حصے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس شخص کو علم کی پیاس لگ جائے تو وہ زندگی کے آخری سانس تک سیکھتا رہتا ہے اور آخر دم تک سیکھتے رہنا چاہیے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ دو بھوکے کبھی سیر نہیں ہوتے، مال کا بھوکا اور علم کا بھوکا۔ اور فرمایا ہے کہ ان دونوں کے پیٹ کو قبر کی مٹی ہی بھرتی ہے۔ یعنی یہ قبر تک علم اور مال کی طلب میں بھوکے پیاسے رہتے ہیں۔ مال کی بھوک تو اچھی چیز نہیں ہے، ضرورت کے مطابق اور عزت و سہولت کے دائرہ میں مال حاصل کرنا درست ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر اس کی بھوک اچھی نہیں ہے۔ البتہ علم کی بھوک بہت مبارک ہے اور دین کے علم کی بھوک ایک مسلمان کو زندگی کے آخری لمحات تک خیر کے کاموں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں مصروف رکھتی ہے۔
ان گزارشات کے ساتھ میں اس کورس کے شرکاء، اساتذہ، منتظمین اور اس مسجد کے سب نمازیوں کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو دین اور علم کا ذوق عطا فرمائیں اور زندگی بھر دین اور علم سیکھتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔