الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید الرسل وخاتم النبیین۔ وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔ اما بعد۔
میرے بھائی نے ٹھیک فرمایا، حضرت علامہ خالد محمود صاحب نوّر اللہ مرقدہٗ کی عقیدت، محبت اور تعلق ہی میری حاضری کا باعث بنا ہے اور ہمیشہ بنتا ہے۔ حضرت علامہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ایک بڑا وقت گزرا ہے، ان سے استفادہ بھی بہت کیا ہے، نیاز مندی بھی بہت رہی ہے، جماعتی مسلکی رفاقت بھی بہت رہی ہے، ایک لمبا زمانہ ہمارا گزرا ہے یہاں بھی برطانیہ میں بھی۔ ان کے ساتھ بہت سے دینی علمی معاملات میں رفاقت ساری زندگی رہی ہے۔ اب وہ نہیں ہیں، جب یہ جامعہ ملیہ کو دیکھتا ہوں علامہ صاحب کے بعد وہ شعر یاد آجاتا ہے ’’سبھی کچھ ہے مگر ساقی نہیں ہے‘‘۔ یہاں آ کر میرا دل کا تاثر یہی ہے۔ اللہ پاک ان کے درجات جنت میں ٖبلند سے بلند تر فرمائیں، اور ان کے علوم و فیوض سے رہتی دنیا تک مسلم امہ کو استفادہ کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
آج کی گفتگو کا عنوان سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات گرامی، ان کا مقام و مرتبہ اور ان کی خدمات اور ان کے دینی کارنامے، مِلی کارنامی، یہ اس کا موضوع ہے۔ مختلف علماء کرام اس کے مختلف پہلوؤں پر اپنے اپنے ذوق کے مطابق اظہارِ خیال کریں گے۔ میں دو حوالوں سے تھوڑی سی بات کروں گا۔
پہلی بات، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ اشتہار میں جو ان کا پہلا تعارف لکھا ہے وہ ’’امام الاولیاء‘‘ ہے۔ ولایت کیا ہے؟ ولی کسے کہتے ہیں؟ ولی کا امتیاز کیا ہوتا ہے؟ باقی سارے کاموں میں شریک ہوتا ہے وہ، ایمان بھی ہوتا ہے، اعمالِ صالحہ بھی ہوتے ہیں، اخلاقیات بھی ہوتی ہیں، دین کا سارا پیکج اس کے پاس ہوتا ہے، ولی کا امتیاز کیا ہے؟ میں اس کی پرانی تعبیرات کی بجائے، آج کی دنیا میں ولایت کسے کہتے ہیں؟ اور آج کی دنیا میں ولایت کا درجہ و مقام کیا ہے؟ اور آج کی دنیا کو ولایت کی ضرورت کیا ہے؟ اس حوالے سے ایک دو مشاہدات عرض کروں گا۔
دِرایت کا تعلق دماغ سے ہے۔ وِلایت کا تعلق دل سے ہے، قلبی کیفیات۔ خواہشات کا تعلق انسان کے نفسانی ماحول سے ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
(۱) جہاں انسانوں کو اللہ کی وحی، جس کو ہم روایت کہتے ہیں، وہ کمال طریقے سے پہنچائی ہے،
(۲) وہاں عقل و دانش کے معاملات میں بھی انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات اور سب سے زیادہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی نے سب سے اعلیٰ پیمانے پر عقل و دانش کی گتھیاں بھی سلجھائی ہیں اور دِرایت کی دنیا میں بھی راہنمائی فرمائی ہے۔
(۳) اور تیسرا دائرہ، بلکہ ترتیب میں تو پہلا دائرہ ہے، قلبی کیفیات، جس کو تصوف کہہ لیں، سلوک و احسان کہہ لیں، زُہد و رقائق کہہ لیں، یا آج کی جدید اصطلاح میں وجدانیات کہہ لیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ایک حصہ ہے۔ جس کو قرآن پاک نے ’’ویزکیہم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس پر اپنے دو تین مشاہدات ذکر کرنا چاہوں گا۔
ایک دفعہ مجھے ہارورڈ یونیورسٹی (کے علاقہ میں) جانے کا اتفاق ہوا۔ دنیا کی بڑی یونیورسٹی ہے، امریکہ کی یونیورسٹیوں کا شہر ہے وہ۔ وہ اپنے دوست تھے، ان کے ساتھ ایک محفل میں پروفیسر حضرات تھے، کوئی بنگلہ دیش کے، کوئی پاکستان کے، کوئی اور۔ ہمارا ایک حلقہ تھا وہاں، تو میں نے ان سے سوال کیا: جسم سے متعلق ہر چیز پر یہاں پورے پورے فیکلٹیز ہیں، دل کا اور آنکھوں کا اور گردوں کا اور بازو کا اور اعصاب کا۔ روح پر آپ کے ہاں کیا پڑھایا جاتا ہے؟ میں نے سوال کر دیا۔ آنکھ پر، کان پر، ناک پر، دانت پر، جسم کے ہر عضو پر، پورے پیکج پر، آج کی سائنس نے بہت ترقی کی ہے اور خدمت کی ہے انسانیت کی، میڈیکل سائنس نے تو بہت زیادہ خدمت کی ہے۔ لیکن انسان صرف جسم کا نام تو نہیں ہے۔ انسان تو جسم اور روح کے ملاپ کا نام ہے۔ اگر روح ہے تو انسان ہے، نہیں ہے تو ڈیڈ باڈی ہے۔ کنکشن ہے تو چلتا پھرتا انسان ہے، اور کنکشن نہیں ہے تو ڈیڈ باڈی ہے۔ بیٹا بھی باپ کو گھر میں نہیں رکھتا، نہ باپ بیٹے کو گھر میں رکھتا ہے۔ یہ کنکشن کیا ہے؟ میں نے کہا آپ کے سینکڑوں مضامین ہوں گے یہاں، روح کے بارے میں آپ کیا پڑھاتے ہیں؟
لیکن اس کے ساتھ بخاری شریف کی ایک روایت عرض کرنا چاہوں گا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں، کہتے ہیں کہ میں حضورؐ کے ساتھ تھا، مدینہ منورہ سے باہر، بستی سے باہر کھیتوں میں جا رہے تھے۔ ایک جگہ کوئی یہودی اپنا کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے کہ یار ابوالقاسم آ رہے ہیں، بہت سی باتیں بتایا کرتے ہیں یہ، ان سے روح کے بارے میں پوچھیں کہ روح کی ماہیت کیا ہے؟ وہ حضورؐ کو ابوالقاسم کہا کرتے تھے۔ آپس میں کھسرپھسر کر رہے ہیں، عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں میں سن رہا ہوں۔ ایک نے کہا ان سے پوچھتے ہیں، دوسرے نے یار چھوڑو، تم روح کا پوچھو گے، تمہاری کوئی حرکت بتا دیں گے، تو پریشانی ہو گی۔ یہودیوں کی حرکتیں کس نے بتائی ہیں دنیا کو؟ قرآن نے بتائی ہیں، یہ کرتے تھے، یہ کرتے تھے۔ تم پوچھو گے روح کے بارے میں، وہ تمہاری کوئی حرکت بتا دیں گے، خواہ مخواہ پریشان ہو گے یار، نہیں پوچھتے۔ ایک نے کہا، پوچھتے ہیں۔ آئے، یا ابوالقاسم، ما الروح؟ روح کیا چیز ہے؟ کہ جس کنکشن کے ساتھ انسان حرکت کرنے لگ جاتا ہے بولنے لگ جاتا ہے، جس کنکشن کے آف ہونے سے بندہ ڈیڈ باڈی ہو جاتا ہے، یہ کنکشن کیا ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، بالکل خاموش ہو گئے، کوئی جواب نہیں دیا۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ وحی آ رہی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ وحی کی کیفیت ذرا ہٹی تو حضورؐ نے بتایا ’’ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً‘‘۔ آپ سے روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، تم اتنا ہی سمجھ لو کہ روح رب کے آرڈر کا نام ہے، روح کا علم تمہیں بہت کم دیا گیا ہے، یہ میں نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے، باقی چیزوں کا علم تمہیں دیا ہے، لیکن روح کا علم بہت تھوڑا دیا گیا ہے۔ اور امرِ واقعہ یہی ہے۔
میں نے کہا کہ یار ’’وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً‘‘ کی عملی تصویر اگر دیکھنا چاہتے ہو تو آج جدید ترین تعلیمی اداروں میں سب کچھ پڑھایا جاتا ہے، روح نہیں پڑھائی جاتی۔ سمجھیں گے تو پڑھائیں گے نا۔ میں نے کہا، روح تمہارے موضوعات میں سے تھی ایک۔ میں آج کی مغربی دنیا کی کیفیت عرض کر رہا ہوں، کہ تم نے روح کے سبجیکٹ میں ناکامی کے بعد اس کا متبادل اختیار کیا تھا سائیکالوجی، بات بنی نہیں، خلا پُر نہیں ہوا، تو واپس اب وجدانیات کے نام سے روح کی طرف آ رہے ہو۔
اگلی بات کرنے سے پہلے ایک بات اور کروں گا۔ ایک مقالہ میں نے پڑھا، باہر کی کسی یونیورسٹی کا تھا۔ مغربی دنیا میں تو سائیکالوجسٹ کا ایک مستقل پروفیشن ہے، پیشہ ہے۔ ادارے ہیں، کلینکس ہیں۔ آدمی جس طرح کسی ڈاکٹر سے وابستہ ہوتا ہے، کسی سائیکالوجسٹ سے بھی وابستہ ہوتا ہے۔ دانت خراب ہو گیا تو کس سے بات کرنی ہے، کان خراب ہو گیا تو کس سے بات کرنی ہے، کسی نہ کسی سائیکالوجسٹ سے وابستہ ہے کہ دماغ خراب ہو گیا تو کہاں جانا ہے۔ اس پر ایک ریسرچ پڑھی میں نے کسی زمانے میں۔ مسلم دنیا میں سائیکالوجی تو ہے، سیکالوجسٹ بطور طبقے کے نہیں ہے۔ لاہور میں ڈاکٹر کتنے ہوں گے؟ سائیکالوجسٹ دس فیصد بھی ہوں گے؟ ہیں، انکار نہیں ہے، لیکن وہ پوزیشن اختیار نہیں کر سکے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس مقالہ نگار نے اس کو اسٹڈی کیا کہ اس کی وجہ کیا ہے کہ مسلم دنیا میں سائیکالوجسٹ وہ پروفیشن اختیار نہیں کر سکے جو مغربی دنیا میں ہے۔ اس نے اس کی وجہ لکھی ہے کہ ہر محلے میں مسجد موجود ہے، ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی حافظ موجود ہے، خانقاہیں موجود ہیں، یہ جب پریشان ہوتے ہیں، ٹیشن ہوتی ہے، تو مسجد میں چلے جاتے ہیں، کسی خانقاہ میں چلے جاتے ہیں، اللہ اللہ کر لیتے ہیں، نماز پڑھ لیتے ہیں، قرآن پاک کی تلاوت کر لیتے ہیں۔
سائیکالوجی کیا ہے؟ ٹیشن کے ماحول سے آدمی کو نکال کر کھلے ماحول میں لے جانا۔ آدمی پریشان ہوتا ہے، مسجد میں آتا ہے، نماز پڑھتا ہے تو فرق پڑتا ہے؟ ذکر اذکار کرتا ہے تو فرق پڑتا ہے؟ یہی سائیکالوجی ہے۔ ان کے پاس مسجدیں، خانقاہیں، مدرسے، ذکر کی مجلسیں، قرآن پاک کی تلاوت، یہ اتنا وافر ماحول میں موجود ہے کہ ان کو سائیکالوجسٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ سائیکالوجی نام ہے دل کے اطمینان کا۔ اور دل کا اطمینان کہاں حاصل ہوتا ہے؟ ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘ (الرعد) اطمینان جسے کہتے ہیں نا! سکون نہیں اطمینان۔
ایک لطیفہ عرض کر دوں۔ ایک صاحب کہنے لگے استاذ جی! سکونِ قلب کے لیے دعا کریں۔ میں نے کہا، دل ساکت ہو گیا تو پیچھے کیا رہ جائے گا۔ اطمینان کی بات کرو یار۔ ’’ولٰکن لیطمئن قلبی‘‘ (البقرہ) ابراہیم علیہ السلام نے سکونِ قلب کی دعا نہیں کی تھی، اطمینان قلب کی تھی۔ اور قرآن پاک نے اطمینان کا تعلق کس سے جوڑا ہے؟ ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مستقل تعلیم دی ہے اور حضورؐ کا ماحول ہی وجدانیات کا تھا۔ وجدانیات، آج کی اصطلاح استعمال کر رہا ہوں۔
ایک روایت آپ نے بہت سنی ہو گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک صحابی بیٹھا کرتے تھے، ایک دن پریشان، پریشان، پریشان۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے پریشان دیکھا تو کہا یار بات کیا ہے؟ کہتے ہیں یار میں کہیں منافق تو نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیا ہوا خیر تو ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضورؐ کی مجلس میں ٖبیٹھتے ہیں تو دل کی دنیا اور ہوتی ہے، باہر نکلتے ہیں تو بدل جاتی ہے، یہ منافقت تو نہیں؟ حضورؐ کے پاس بیٹھے ہوتے ہیں، بالکل ماحول ہی اور ہوتا ہے۔ باہر نکلتے ہیں دنیا کے کام کاج میں پھنستے تو بالکل کیفیت بدل جاتی ہے، تو مجھے شک پڑ گیا ہے کہیں میں منافق تو نہیں ہوں؟ حضرت صدیق اکبرؓ نے کہا یار یہ کیفیت تو ہماری بھی ہے، چلیں چل کر پوچھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے۔ یا رسول اللہ! یہ الجھن ہو گئی ہے۔ کیا؟ آپ کے ہاں بیٹھتے ہیں تو بالکل ماحول مختلف ہوتا ہے، اور مجلس سے باہر جاتے ہیں تو ماحول بدل جاتا ہے، یہ بدلنا کیا ہے؟ فرمایا، خدا کے بندو! کس مغالطے میں پڑ گئے ہو۔ یہاں کا نظام ہی اور ہے، میری مجلس میں تمہارے دل کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ اگر باہر رہے تو فرشتے بازاروں میں تم سے مصافحہ کریں۔ یہ مجلس کے اثرات ہیں، یہ نگاہ کے اثرات ہیں، وہ یہیں ہوں گے، باہر نہیں ملیں گے۔
یہی وجدانیات ہیں، یہی قلبی کیفیات ہیں، اور ابھی یہ دور چل رہا ہے بخاری شریف کے آخری سبق کا، اس میں ایک موضوع چلتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے بات کروں گا کہ بخاری کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حدیث کی کتاب ہے، شاہ صاحبؒ کہتے ہیں کہ نہیں یار! حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بخاری شریف پانچ علوم کا مجموعہ ہے۔ ① حدیث کی تو ہے ہی۔ ② بخاری شریف میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن پاک کی ہزاروں آیات کی تشریح کی ہے۔ بخاری شریف کا کوئی صفحہ آپ کو ایسا نہیں ملے گا جس میں دو چار آیتیں یا دو چار جملے قرآن کے وضاحت میں نہ ہوں۔ ③ پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف حدیثیں بیان نہیں کیں، حدیثوں سے مسائل کا استنباط بھی کیا ہے۔ حدیث بیان کرنا روایت ہوتا ہے۔ مسائل استنباط کرنا کیا ہوتا ہے؟ فقہ۔ یہ فقہ کی کتاب بھی ہے۔ ④ امام بخاریؒ مؤرخ بھی بڑے ٹاپ کے ہیں، تاریخی روایات بھی بڑی اہمیت سے بیان فرمائی ہیں۔ یہ تاریخ کی کتاب بھی ہے۔ ⑤ اور ایک اور، زُہد و رقائق، آج کی اصطلاح میں سلوک و احسان، دنیا سے بے رغبتی اور دل میں نرمی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاذ محترم عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ، جو امام بخاریؒ کے استاذ محترم ہیں، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردِ عزیز ہیں، تصوف میں بھی اعلیٰ مقام پر تھے، محدث بھی بڑے تھے، فقیہ بھی بڑے تھے، مجاہد بھی بڑے تھے۔ زُہد و رقائق پر، تصوف پر، سلوک و احسان پر، ان کی روایات امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سمیٹ لی ہیں، تو یہ تصوف کی کتاب بھی ہے۔ بخاری صرف حدیث کی کتاب نہیں ہے۔ تفسیر کی بھی ہے، فقہ کی بھی ہے، تاریخ کی بھی ہے، تصوف کی بھی ہے، یہ ہمارے مستقل دین کا ایک موضوع ہے اور دین کا حصہ ہے۔
اس پر ایک آج کا مشاہدہ اور عرض کر کے میں بات سمیٹوں گا۔ آج کی دنیا کیا دیکھ رہی ہے؟ امریکہ میں پروفیسر حضرات کا ایک گروپ ہے۔ النگٹن یونیورسٹی اور دو چار یونیورسٹیوں کے اساتذہ ہیں۔ وہ ہمارے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ ہمارے بارے میں، ہمارے دین کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اتفاق سے ان میں سے ایک صاحب امام ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ تعالیٰ پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ آج سے دو سال پہلے کی بات ہے۔ امام ابو منصور ما تریدیؒ علمِ کلام کے دوسرے بڑے امام ہیں۔ امام ابو الحسن اشعریؒ، ابو منصور ماتریدیؒ۔ اور ہم حنفی لوگ زیادہ تر ماتریدی ہی ہیں، علمِ کلام کے اعتبار سے، عقائد کی تعبیرات کے بارے میں۔ وہ چلتے چلاتے کہیں پاکستان آئے۔ میرے پاس بھی تشریف لائے۔ امریکن ہیں، عیسائی ہیں۔ امام ابو منصور ماتریدیؒ پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ ایک سوال کا جواب مجھے نہیں مل رہا۔ میں مختلف لوگوں سے باتیں کر رہا ہوں، آپ سے بھی بات کرنی ہے۔ میں نے کہا فرمائیے، لیکن ایک سوال میں کروں گا پھر۔ کہتے ہیں، ٹھیک ہے۔
سوال تھوڑا سا پیچیدہ بھی ہے لیکن بڑا مزے کا ہے۔ اس نے کہا، معتزلہ کی بنیاد دِرایت پر تھی، عقلیات پر، معتزلہ کا مقابلہ کیا دو آدمیوں نے (۱) روایت کی دنیا میں احمد بن حنبلؒ نے (۲) اور دِرایت کی دنیا میں ابو الحسن الاشعریؒ نے۔ روایت کی دنیا میں معتزلہ کا مقابلہ خلقِ قرآن کے مسئلہ پر کس نے کیا؟ امام احمد بن حنبلؒ نے۔ اور درایت اور عقلیات کی دنیا میں وہ مقابلہ کس نے کیا؟ ابو الحسن اشعریؒ نے، امام تھے عقلیات کے۔ مقابلہ ہی نہیں کیا، شکست دی۔ ابو منصورؒ بعد میں آئے ہیں۔ تم حنفیوں نے انہیں امام بنا لیا ہے، میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ کس کنٹریبیوشن پر تم نے ابو منصور ماتریدیؒ کو اپنا امام بنا رکھا ہے۔ میں نے کہا یار بات سنو! ہم بھی مانتے ہیں، ابو الحسن اشعریؒ ہمارے بڑے ہیں، ان کے مقام سے، ان کے کردار سے کوئی انکار نہیں ہے۔
علامہ صاحبؒ کا ماحول تو مناظرے کو جانتا ہے نا کہ مناظرہ کیا ہوتا ہے۔ مناظرے میں دوسرے کو قابو کرنے کے لیے بہت سی باتیں اووَر کرنی پڑتی ہیں۔ جو مناظرے کا مزاج رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں میری بات کو۔ اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ مستشرقین کا ہم پر اعتراض ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ’’مثنیٰ وثلاث وربٰع‘‘ چار سے زیادہ شادیاں نہیں، یہ حکم آیا تو حضورؐ نے چار سے زائد جس کی بھی تھیں سب چھڑوا دیں، اپنی نو تھیں، ایک بھی نہیں چھوڑی۔ ہمارا مناظرہ چلتا رہتا ہے مستشرقین سے۔ ہمارے ایک بزرگ تھے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ، بہت بڑے آدمی تھے، حیدرآباد دکن کے تھے، پیرس میں تھے۔ اور ان کی وفات کے بعد پتہ چلا ان کے کاغذات سے کہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحبؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والے فرانسیسیوں کی تعداد تیس ہزار ہے۔ خیر، انہوں نے ایک دفعہ لکھ دیا، یہ سن ۱۹۹۰ء یا اس سے پہلے کی بات ہے، ایک مضمون لکھا، پانچ کو اعزازی رکھا تھا حقیقی چار تھیں، چار رکھی تھیں، پانچ چھوڑ دی تھیں، ازواجِ شرف (Honorary Wives)۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے لکھ دیا۔ شور مچ گیا کہ کیا فرما رہے ہیں۔ بڑے آدمی ہیں، آپ ہمارے بزرگ ہیں، کہاں چھوڑی تھیں، کونسی چھوڑی تھیں؟ تو مجھے الگ ذاتی خط لکھا کہ یار میں نے تو مستشرقین کو جواب دینے کے لیے ایک بات بنائی ہے۔ میں نے کہا اپنے بارے میں میرے بارے میں بیس باتیں بنا لیں کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ رسول اللہ کی ذات گرامی ہے۔ واپس لیا اپنا مضمون۔
مناظر کو آمنا سامنا کرنے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے؟ کچھ باتیں اوور کرنی پڑتی ہیں۔ میں نے کہا کیونکہ ابو الحسن اشعریؒ کا براہ راست مقابلہ تھا، کچھ باتیں اوور ہو گئی تھیں ان سے، ابو منصورؒ نے آ کر ان کو بیلنس کر دیا تھا۔ کہتے ہیں سمجھ میں آگیا، انڈرسٹینڈ۔
میں نے کہا میرا سوال یہ ہے۔ ہم حنفی تقریباً سارے ماتریدی کہلاتے ہیں، علمِ کلام کے حوالے سے۔ ماتریدیؒ کی تعلیمات پڑھانے والوں میں سے نوے فیصد کو نہیں پتہ کہ ماتریدیؒ تھا کون۔ تجھے ابو منصور ماتریدیؒ کی قبر پر ماوراء النہر میں کون لے گیا ہے؟ ہم میں سے اکثر کو نہیں پتہ۔ اس نے پھر ایک کہانی سنائی، بس آج کی دنیا میں تصوف کا رجحان اور تصوف کے بارے میں کیا سائنٹیفک اپروچ ہے، یہ بات سمجھانے کے لیے یہ واقعہ بتا رہا ہوں۔
اس نے کہا کہ جی بات یہ ہے، ہم کچھ پروفیسرز ہیں، ہماری اسٹڈی یہ کہتی ہے کہ آنے والا دور مذہب کا ہے۔ پچھلی دو صدیاں مذہب سے بغاوت کی تھیں، یہ صدی سوسائٹی میں مذہب کی واپسی کی ہے، مذہب کی بحالی کی ہے۔
اگلی بات کہ مذہب آئے گا تو کون سا مذہب ہو گا؟ اس نے کہا کہ جو اوریجنل مذہب ہے وہی ہو گا۔ کیا مطلب؟ جس مذہب کے پاس آسمانی تعلیمات، اور پیغمبر کی تعلیمات۰ آسمان سے نازل ہونے والی وحی، اور صاحبِ وحی کی اپنی تعلیمات اور ان کا عمل، جس کے پاس محفوظ ہے وہی آئے گا۔ اب وہ کس کے پاس محفوظ ہے؟ اسلام کے سوا کوئی نہیں۔ سب مانتے ہیں کسی کے پاس محفوظ نہیں ہے۔
اب تیسرے مرحلے میں ہم طے کیے بیٹھے ہیں کہ اسلام نے ہی آنا ہے۔ اب اسلام کی شخصیات میں سے ہمارے ذوق کی کونسی ہیں، ہماری ضروریات کون پوری کرتی ہیں؟ اس پر اسٹڈی کر رہے ہیں ہم۔ غزالیؒ پہ کی ہے، رازیؒ پہ کی ہے، ابن رشدؒ پہ کی ہے، ابن سیناؒ پہ کی ہے، ابن عبد السلامؒ پہ کی ہے کہ ہماری ضرورت کون پوری کرتا ہے، مغرب والوں کی۔ ہمارا اپنا نظام ہے۔
میں نے کہا جناب! آپ کی ضروریات کیا ہیں؟ کہا جی تین چیزیں۔ (۱) روایت میں پکا ہو (۲) دِرایت میں مضبوط ہو (۳) اور وجدانیات بھی رکھتا ہو۔ روایت میں پورا ہو، قرآن و حدیث۔ دِرایت، عقل و فقہ، تفقہ اور تعقل۔ اور ولایت، دل کے معاملات۔ یہ جس کے پاس ہے وہ ہماری ضرورت ہے۔ ہماری ضرورت روایت بھی ہے، ہماری ضرورت دِرایت بھی ہے، ہماری ضرورت وجدانیات بھی ہے۔ اس پر ہم نے اٹھارہ بیس شخصیات اسٹڈی کی ہیں جن میں یہ تینوں چیزیں موجود ملتی ہیں۔ میں نے کہا پھر؟
اب چوتھا مرحلہ ہے کہ بیلنس کس میں ہے؟ مسئلے کا صحیح جُز۔ اب آپ ہانڈی پکا رہے ہیں، مرچیں زیادہ ہو جائیں گی تو کیا ہو جائے گا، نمک زیادہ ہو جائے گا تو کیا ہو جائے گا؟ بیلنس کس میں ہے، تو ہماری اسٹڈی کے مطابق دو شخصیات ہم نے فوکس کی ہیں، جن میں روایت، دِرایت، وجدانیات تینوں موجود ہیں اور تینوں بیلنس کے ساتھ ہیں، ایک پر میں اسٹڈی کر رہا ہوں، ابو منصور ماتریدیؒ پر، اور ایک پر میرا ایک اور ساتھی اسٹڈی کر رہا ہے، اس کا نام ہے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ۔
تو میں نے یہ عرض کیا ہے کہ اصطلاحات بدلتی رہتی ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہ امام الاولیاء۔ آج کی دنیا اسی ولایت کے پیچھے بھاگی آ رہی ہے جس کو اس نے وجدانیات کا نام دے رکھا ہے۔ روحانیات تھی، روحانیات سے کیا دور آیا؟ سائیکالوجی کا۔ سائیکالوجی سے کدھر آ رہے ہیں؟ وجدانیت کی طرف واپس دنیا آ رہی ہے، لیکن ایک بات کہہ دوں۔ ہم اگر اوریجنل وجدانیات پیش کر سکیں تو! اور ہم میں تکلف زیادہ ہو گا تو کام خراب ہو گا۔ اولیاء کرام کی روایات، خانقاہ کا حقیقی نظام، اللہ اللہ کا حقیقی ماحول، یہ اگر ہم دنیا کو فراہم کر سکے تو آج کی دنیا اس وجدانیات کی تلاش میں ہے۔
ایک بات اور کہہ کر بات ختم کرتا ہوں۔ برطانیہ کے ایک نو مسلم ہیں، ڈاکٹر یحیٰی برٹ، انگریز ہے، مسلمان ہوا۔ ایک بات میں عرض کر دوں، میں بیسیوں کو جانتا ہوں، یہ جب مسلمان ہوتے ہیں نا، تو ہو جاتے ہیں۔ ہم ہیں، نہیں ہو رہے۔ میں نے اس سے کہا یار مغرب میں اسلام کی بات کرنے کے لیے تم کیا رائے دیتے ہو، کیسے بات کریں؟ اس نے کہا دیکھو بات سنو! یہاں کا خلا پُر کرو، یہاں کا خلا وجدانیات کا ہے۔ ان کے پاس مادیات بہت ہے، عقل بھی بڑی ہے، ان کے پاس وسائل بھی بہت ہیں، سسٹم بھی جانتے ہیں یہ۔ ان کو ضرورت ہے قلبی کیفیات کی، دل کے اطمینان کی، ذہن کے سکون کی، یہ خلا جس دن پورا کر دو گے مغرب مسلمان ہو جائے گا۔
چونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حوالے سے بات ہو رہی تھی، ولایت کی بات ہو رہی تھی، تو میں نے آج کی دنیا میں یہ ولایت، سلوک و احسان، وجدانیات، اس کی جو طلب ہے، اس کی طرف توجہ دلائی ہے، اللہ مجھے اور آپ کو اس میں کچھ نہ کچھ کرنے کی اور کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔